جمعرات،14ذیقعد 1445 ھ، 23 مئی 2024ء
کراچی الیکٹرک سپلائی کے دفتر میں گھس کر ان کی بجلی بند کی جائے۔ سعید غنی
یہ عجب ہوا چلی ہے اب کے۔ ہمارے ملک میں صوبوں کے حکمران خود عوام کو اداروں کیخلاف غیر قانونی کارروائیوں کی شہ دے رہے ہیں۔ ایسا شاید پہلی بار ہو رہا ہے۔ پہلے خیبر پی کے میں وزیر اعلیٰ لوڈشیڈنگ کیخلاف کہہ رہے ہیں کہ ہم انکے دفاتر پر قبضہ کر لیں گے بٹن ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اب خربوزے کی دیکھا دیکھی تربوز بھی رنگ پکڑنے لگا ہے۔ سندھ اسمبلی میں گزشتہ روز صوبائی وزیر سعید غنی نے بھی ایسے ہی لہجے میں خطاب کیا اور لوگوں سے کہا کہ وہ کے الیکٹرک کے دفاتر پر قبضہ کر کے وہاں کی بجلی بند کر دیں۔ اب یہ خدا جانے سدھار کی کوشش ہے یا انارکی کی۔ بجائے اس کے کہ صوبائی حکومتیں لوڈشیڈنگ کی وجوہات پر قابو پانے میں مدد کریں ازخود کام کریں جو کام بجلی فراہم کرنے والے اداروں سے نہیں ہوتا وہ یہ صوبائی حکومتیں خود کریں تاکہ لوڈشیڈنگ کم سے کم ہو تو عوام کو ریلیف ملے گا ورنہ قبضہ کرو بند کرو والی پالیسی سے تو جو بجلی میسر ہے کہیں اس سے بھی محروم نہ ہو جائیں اور لوگوں کو لالٹین اور موم بتی پر آنا پڑے۔ حالات کچھ ایسے ہی لگ رہے ہیں۔ بجلی کی قیمت ہے کہ آئے روز بڑھتی جا رہی ہے اور بجلی کی سپلائی روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔ سورج آگ برسا رہا ہے۔ لوگ گرمی سے مر رہے ہیں۔ ایسے میں اگر بجلی کی سپلائی بہتر نہ ہوئی تو پھر کیا سندھ، کیا خیبر پی کے۔ ایسا نہ ہو کہ پورے ملک میں صورتحال ابتر ہو جائے۔ آزاد کشمیر میں جو ہوا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ اس لیے حکومت بجلی کے ریٹ بڑھانے سے زیادہ بجلی کی سپلائی بہتر بنانے پر توجہ دے ورنہ موسم گرما میں دماغ کسی بھی وقت پگھل سکتا ہے۔ ’’ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں‘‘ آگے حکمرانوں کی اپنی مرضی…
پنجاب اسمبلی بھرتی کیس میں ضمانت کے بعد پرویز الٰہی رہا، گھر پہنچ گئے
’’ابھی عشق میں امتحاں اور بھی ہیں‘‘۔ اس لیے شاید ابھی تک سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کو زنداں سے رہائی نہیں مل رہی تھی۔ پنجاب اسمبلی بھرتی کیس میں ضمانت تو مل گئی مگر 20 نئے مقدمات میں انہیں نامزد کر دیا گیا۔ اس کے باوجود بالاخر انہیں ضمانت پر رہائی مل ہی گئی ورنہ وہ پابند سلاسل ہی رہتے۔ اب کیا کہا جا سکتا ہے۔ یہ راہ انہوں نے خود ہی چنی ہے تو پھر اس میں مشکلات تو آنی ہیں۔ بات صرف یہ ہے کہ گجرات کا یہ چودھری خاندان قدرے آرام دہ آسائش والی زندگی اور سیاست کرتا آیا ہے۔ یہ قید و بند کا تلخ تجربہ چودھری ظہور الٰہی کے بعد اب پرویز الٰہی کے حصے میں آیا ہے۔ حالانکہ اچھے بھلے وہ مسلم لیگ (ق) کے دامن میں سکون سے رہ رہے تھے۔ ہر حکومت انہیں ساتھ ملا کر ان کو بے شمار مراعات سے ہی نہیں وزارتوں سے بھی نوازتی رہی مگر آخری عمر کہہ لیں یا عمر کے اس حصے میں جب سکون ضروری ہوتا ہے۔ پرویز الٰہی اچانک پی ٹی آئی کے بانی کی محبت کے سحر میں یوں جکڑے گئے کہ ابھی تک تمام تر مشکلات کے باوجود باہر نہیں آ پائے۔ مگر اس طرح کم از کم ان کی استقامت ضرور سامنے آئی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے دوستی اور دشمنی بھی نسلی لوگ نبھاتے ہیں۔ اب حکومت ذرا نرمی سے کام لے۔ آخر چودھری صاحب نے ان کے ساتھ بھی بڑا عرصہ گزارا ہے۔ وہ کبھی شریف برادران کے قریبی ساتھی ہوا کرتے تھے۔ مگر سچ کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور چودھری بھی اس وقت ان کے ساتھ شیر و شکر ہو رہے ہیں جو موجودہ حکومت کے سب سے بڑے دشمن ہیں تو پھر کیا ہو سکتا ہے۔ اب عدالتی حکم پر ان کو ضمانت کے بعد رہا کر دیا گیا ہے یہ ایک اچھی بات ہے۔ وہ رات کو اپنے گھر ظہور پیلس پہنچ گئے ہیں۔ اس طرح اب جب تک وہ کسی نئے مقدمہ میں اندر نہیں ہوتے کم از کم آزادی کا سانس لے سکیں گے۔
پی ٹی آئی کے رہنما و ترجمان رئوف حسن خواجہ سراؤں کے حملے میں زخمی
اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے رہنما رئوف حسن پر حملے کی اور اس کے نتیجے میں ان کے زخمی ہونے کی اطلاع جنگل میں آگ کی طرح پھیلی۔ سینٹ تک میں اس کی گونج پہنچی۔ خوب شور ہوا۔ مگر جب واقعہ کی فوٹیج سامنے آئی تو معاملہ قدرے مدہم پڑنے لگا کیونکہ ان پر خواجہ سراؤں نے حملہ کیا اور ان کے گال پر چوٹ لگی۔ خدا جانے ان خواجہ سراؤں کو ان سے کیا دشمنی تھی کہ انہوں نے سرعام ان پر حملہ کیا۔ اس میں پی ٹی آئی کے ان لوگوں کا بڑا ہاتھ ہے جو پنجاب میں خواجہ سرائوں کے ہاتھوں پولیس کی پٹائی پر خوشیاں مناتے ہوئے سوشل میڈیا پر شور مچا رہے تھے کہ عوام سے زیادہ تو یہ خواجہ سرا بہادر ہیں جو آزاد کشمیر والوں کی طرح کھڑے ہو گئے ہیں۔ اب اس مہم کے بعد لگتا ہے خواجہ سرائوں کے حوصلے اور بلند ہو گئے ہیں۔ اب یہ تو تحقیقات سے پتہ چلے گا کہ رئوف حسن کو کیوں نشانہ بنایا گیا حالانکہ وہ تو مرنجان قسم کے وضع دار انسان ہیں۔ چھیڑ چھاڑ وہ کرنے سے رہے۔ ان سے لڑائی ہونی نہیں۔ اب یہ خواجہ سراؤں نے کس بات پر ان کے ساتھ یہ سب کچھ کیا۔ اگر بات صرف مانگنے کی ہوتی تو خواجہ سرا کچھ نہ دینے پر تالیاں بجاتے ہوئے چلے جاتے۔ یہ کیا کہ رئوف حسن کا چہرہ زخمی کر دیا۔ اتنی سنگدلی بھی درست نہیں۔اصل معاملہ واضع نہیں ہے۔ اگر ان کا یہی رویہ رہا تو کوئی انہیں منہ نہیں لگائے گا۔ ٹکا بھی نہیں دے گا ان کی گزر بسر مشکل ہو جائے گی۔ لگتا ہے انہوں نے حقوق اور اہمیت ملنے کے بعد اب تالیاں بجانے کی بجائے ہاتھ پائوں چلانے شروع کر دیئے ہیں۔ اس کے غلط اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔ پولیس اور عوام کے ساتھ ، وہ بھی پی ٹی آئی والوں کے ساتھ ٹکر شاید خواجہ سرائوں کو راس نہیں آئے گی۔
سندھ کے سکولوں میں طلبہ کا ڈرگ ٹیسٹ ہو گا
یہ ایک اچھی بات ہے۔ سندھ کے سکولوں میں پڑھائی ہو یا نہ ہو مگر کچھ تو ایسا ہو کہ اس کے اچھے نتائج سامنے آئیں۔ اس وقت منشیات فروش مافیاز نے ملک بھر میں تعلیمی اداروں کو ٹارگٹ کیا ہوا ہے۔ ان ظالموں نے یونیورسٹیوں اور کالجوں کی تو بات نہ کریں، سکولوں تک کو نہیں چھوڑا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو نشہ کی لت میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ ایک اور ظلم یہ بھی ہے کہ لڑکیوں کے سکول اور کالجز بھی ان کی دسترس سے محفوظ نہیں۔ اب حکومت سندھ نے یہ عمدہ فیصلہ کیا ہے کہ تمام سکولوں کے بچوں کا ڈرگ ٹیسٹ لیا جائے گا تاکہ پتہ چل سکے کہ کوئی انہیں نشے کی لت میں مبتلا تو نہیں کر رہا۔ اگر سچ کہا جائے تو یہ صرف سندھ کا ہی مسئلہ نہیں پورے ملک میں منشیات فروش مافیا اپنے کارندوں کے ذریعے یہ زہر ہماری نوجوان نسل کی رگوں میں اْتار رہا ہے۔ اس وقت لاکھوں پاکستانی منشیات کے عادی ہو چکے ہیں جو کھلے عام سڑکوں پر پڑے ہوتے ہیں۔ گلی محلے میں اب منشیات عام ملتی ہیں۔ جب تک منشیات فروشوں اور ان کے کارندوں کے لیے سزائے موت کے قانون پر عمل نہیں ہو گا یہ لت قابو میں نہیں آئے گی۔ اس لیے ان عوام دشمن عناصر کو سرعام پھانسی پر لٹکا کر ہی اس وبا پر قابو پایا جا سکتا ہے ورنہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ ہم نے اپنی نئی نسل کو منشیات سے محفوظ بنانا ہے تاکہ ایک پڑھا لکھا صحت مند پاکستان دنیا کے سامنے آئے اس لیے پورے ملک کے تعلیمی اداروں میں ڈرگ ٹیسٹ لیے جائیں اور نشہ میں مبتلا بچوں کا علاج کیا جائے۔