معیشت کی درستگی کیلئے دو برس درکار ہیں
ملکی سیاست میں چند ایسے رہنما ہیں جو سیاست کو عوام کی خدمت سمجھ کر کرتے ہیں اور اپنی جماعت میں غیر سنجیدہ یا عوامی مفاد کے خلاف باتوں پر اپنا الگ نکتہ نظر بھی رکھتے ہیں اور اپنے مؤقف پر ڈٹ کر کھڑے بھی نظر آتے ہیں۔پیپلز پارٹی کی بات کریں تو قمر الزمان کائرہ ایسی شخصیت ہیں جو دلائل کے ساتھ بڑی محتاط گفتگو کرتے نظر آئیں گے اور مسلم لیگ ن کی بات کریں تو قائد نواز شریف اور وزیراعظم شہباز شریف تو اس میں شامل ہیں ہی مگر وفاقی وزیر منصوبہ بندی انجینئر احسن اقبال بھی انہی اوصاف کے مالک ہیں جو ایک حقیقت پسندعوامی شخصیت ہیں۔چند روز قبل وہ لاہور میں انسٹی ٹیوشن آف انجینئرز پاکستان کے جنرل سیکرٹری امیر ضمیر احمد خان اور پاکستان انجینئرنگ کونسل کے سابق چئیرمن انجینئر جاوید سلیم قریشی کی دعوت میں شرکت لیلئے تشریف لائے۔راقم نے اس موقع پر انجینئر احسن اقبال سے ملاقات کی اور ملکی صورتحال سی پیک کے حوالے سے خصوصی گفتگو بھی کی۔اس سے قبل ملک بھر کی انجنیئرز تنظیموں کا اجلاس آئی ای پی کے زیر اہتمام منعقد ہوا۔اجلاس کی صدارت آئی ای پی رہنماوں انجنیئر فرحت عادل اور انجنیئر امیر ضمیر خان نے کی۔اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ پاور سیکٹر کی نجکاری سے پہلے انجنیئرز سے مشاورت کی جائے۔ ہماری تجاویز و مشاورت کے بنا نجکاری نقصان دہ ہو گی۔پالیسی ساز اداروں میں انجنیئرز کو نمائندگی دی جائے۔ڈسکوز میں اوور بلنگ پر انجنیئرز کو ناجائز ہراساں کیا جارہاہے۔انجنیئرز کے بغیر ملکی ترقی ممکن نہیں ہے۔ اجلاس میں انجنیئرز عامر یاسین عثمان فاروق مسعود علی خان و دیگر شریک ہوئے۔ احسن اقبال سے خصوصی گفتگو بڑی دلچسپ رہی۔احسن اقبال کا نام تعارف کا محتاج نہیں ہے وہ ایک زبردست مقرر ہونے کے ساتھ بہترین سیاست دان بھی ہیں۔نارووال کی عوام انہیں ہر بار بھاری مینڈیٹ کے ساتھ اہم ذمہ داری سونپی ہے جس پر وہ ہمیشہ پورا اترتے ہیں۔ ماضی اور حالیہ انتخابات میں کامیابی ان کے ترقیاتی کاموں اور عوام دوست شخصیت ہونے کا واضح ثبوت بھی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ نارووال کے ہردلعزیز لیڈر بھی ہیں۔ حالیہ عام انتخابات میں وہ اپنے آبائی حلقے نارووال کے قومی اسمبلی کی نشست کے ساتھ پہلی بار ظفر وال میں صوبائی سیٹ پر بھی الیکشن میں کامیاب ہوئے۔جہاں انہوں نے اپنے حلقے میں "امن تعلیم اور ترقی " کا نعرہ دیا ان کے ترقیاتی کاموں کو دیکھتے ہوئے ظفر وال کہ عوام نے انہیں صوبائی سیٹ پر کامیابی دلوائی۔ جس پر بعد میں ضمنی الیکشن میں ان کے صاحبزادے احمد اقبال نے کامیابی حاصل کی ہے۔
احسن اقبال کااس گفتگو میں کہنا تھاکہ سیاسی جماعتوں کو لانگ مارچ کی سیاست سے باہر آکر اقتصادی لانگ مارچ کی طرف آنا چاہیے تاکہ جب پاکستان بیس سو سینتالیس میں جب اپنے سو سالہ جشن کی تقریبات منا رہا ہو تو ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو۔موجودہ اکنامک صورت حال کوئی تسلی بخش نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہمسایہ ملک کے وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کے بارے طنزیہ گفتگو کر رہا ہے۔سی پیک پاکستان کو ایک تحفہ ملا ہے دو ہزار اٹھارہ میں تبدیلی سانحہ مشرقی پاکستان سے کم نہیں ہے چند ناعاقبت اندیش لوگوں کی وجہ سے پی ٹی آئی حکومت میں آئی اور نو مئی جیسا سانحہ ملک کو دیکھنا پڑا۔دو ہزار تیرہ سے رکے ہوئے کام وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی ٹیم کررہی ہے یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے کراچی سٹاک ایکسچینج میں انڈکس کا ملکی تاریخ کی بلند سطح پر جانا اس کی بڑی مثال ہے۔ان کا یہ ماننا ہے کہ معیشت کی ترقی کے لئے چار چیزیں ناگزیر ہیں امن و امان کا قیام ،سیاسی استحکام ،پالیسیوں کا تسلسل اور اصلاحات کے عمل پر گامزن ہونا۔سی پیک پاکستان کی ترقی کی چابی ہے پاکستان کو یہ انمول تحفہ میاں نواز شریف نے دیا ہے جب انہوں نے چین کے صدر شی پنگ کے ساتھ 25 ارب ڈالر کے معاہدوں کی صورت میں کیا۔سی پیک فیز ٹو میں پانچ نئے کوریڈور شروع ہونے جارہے ہیں ،اس لئے تمام سیاسی جماعتوں کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ایسا نہیں ہوگا کہ ہم اپنے قریبی ہمسایہ ممالک کو ناراض کریں اور ملک کی ترقی کی بات کریں۔ہم نے آئندہ تین برس میں پچھتر ارب ڈالر کے قرضے ادا کرنے ہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ قرضوں کی ادائیگی والا ملک ایک بہترین عوام دوست بجٹ بھی لے آئے قرضوں کی ادائیگی کے ساتھ ہمیں نیا بجٹ دینے کے لئے قرضہ لینا پڑے،یعنی بجٹ کے لیے ہم سات ہزار ارب روپے کے قرضے بھی ادا کریں اور حکومتی اخراجات کے لئے مزید آٹھ ہزار ارب روپے درکار ہوں تو ریلیف کیسے آئے گا۔ملکی معیشت کی درستگی کے لیے دو برس درکار ہوں گے تیسرے برس کوئی بہتری کی امید نظر آئے گی تو ہمیں انتظار کرنا ہوگا۔موجودہ حکومت ملکی ترقی کے لئے پانچ ای( E) پر کام کررہی ہے جس میں پہلے نمبر پر زرمبادلہ میں اضافہ،ایکسپورٹ کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے ایکسپورٹ بڑھیں گی تو آئندہ تین برس میں پچھتر ارب ڈالر کا قرضہ اتار سکیں گے۔بیرون سرمایہ کار کو ملک میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنا،دوسرے نمبر پر ڈیجیٹل پاور یعنی انٹرنیٹ کی فراہمی ہر شخص کی پہنچ میں ہواس کے لئے نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ ٹریننگ دینے کی ضرورت ہے۔تیسرے نمبر پر ماحولیاتی تبدیلیوں پر توجہ مرکوز رکھی جائے،فوڈ سیکورٹی پر توجہ دی جائے۔چوتھے نمبر انرجی کے شعبے پر توجہ دی جائے کیونکہ انرجی کا شعبہ بیماری میں مبتلا ہے اس کا علاج فوری ضرورت کا حامل ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ صوبائی حکومتیں وفاق کا ساتھ دیں تاکہ وفاق پر انرجی کرائسس کا کم سے کم بوجھ پڑے اور پانچواں ای اخلاقی حدود کا تعین کیا جائے نوجوان نسل کو تعمیری کاموں اور ملکی ترقی میں ہاتھ بٹھانے پر لگایا جائے کیونکہ خالی تنقید سے ملک کی عوام کا وقت ضائع ہوگا
دوسری جانب حال ہی میںپاکستان مسلم لیگ ن کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کا اجلاس میاں نواز شریف کی صدارت میں ہوا۔اجلاس میں شریک آزاد کشمیر سے آئے مندوب سے نواز شریف نے خصوصی گفتگو بھی کی۔ سردار عبدالخالق وصی کا نواز شریف کے قریبی رفقاء میں شمار ہوتا ہے مسلم لیگ ن کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کے بعد پارٹی کے سنئیر کارکنان سے میاں صاحب نے بطور خاص خیریت دریافت کی۔ میاں صاحب نے سردار عبدالخالق وصی سے آزاد کشمیر بارے بطور خاص تبادلہ خیال کر کے نیک خواھشات کا اظہار کیا۔اس موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف بھی میں صاحب کے ساتھ موجود تھیں۔اجلاس میں میاں نواز شریف نے اپنی تقریر اور محبت بھرے جذبات سے چاروں صوبوں،آزاد کشمیر،گلگت بلتستان اور اوور سیز سے آئے مرکزی مجلس عاملہ کے ممبران کو ایک نئی مہمیز دے دی نوازشریف نے اپنے خطاب میں جہاں ماضی میں پاکستان کو جمہوریت،ترقی و خوشحالی سے ڈی ریل کرنے،مسلم لیگ ن کی قیادت اور کارکنان کے ساتھ ھونے والی زیادتیوں کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا وھاں انہوں نے ذمہ دار ججز اور دیگر سازشی جال بننے والوں، جن کے فیصلوں سے پاکستان کی ترقی کا عمل رکا انکا احتساب نہیں ھوگا تو اس قومی نقصان کی تلافی کیسے ھوگی اجلاس سے وزیراعظم شہباز شریف نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ مسلم لیگ ن کی صدارت انکے پاس اپنے قائد کی امانت تھی جو واپس انکے حوالے کرکے سرخرو ھونا چاھتا ھوں شہباز شریف نے بقول انکے اپنے کاغذی صدر قرار دیا اور کہا کہ صدر میں تھا ھدایات میرے قائد نوازشریف کی ھوتی تھیں جن پر میں نے عمل کی یہ جماعت حکومت سب نواز شریف کی امانت ہے۔ مسلم لیگ ن کی پالیسی ساز فورم کا یہ اجلاس نئے صدر کے انتخاب کے لئے 28 مئی یوم تکبیر کے دن جنرل کونسل کے اجلاس کے لئے ملتوی ھوا جس میں شہباز شریف کے استعفیٰ کے بعد نئے صدر کا انتخاب ھوگا جس کے لئے رانا ثناء اللہ جی چئیر مین شپ میں الیکشن کمیشن بھی تشکیل دے دیا گیا جو 27 مئی سے کاغذات نامزدگی وصول کرے گا اور الیکشن کمیشن پاکستان کی ہدایت کے مطابق کارروائی مکمل کرے گا۔