جمعة المبارک ‘ 15 ذیقعد 1445ھ ‘ 24 مئی 2024
کرغزستان میں پھنسے طلبہ و طالبات کی پریشانیاں کم نہ ہو سکیں۔ اگرچہ اس وقت بشکیک میں حالات پرسکون ہیں مگر وہاں مقیم غیر ملکی طلبہ اپنے اپنے وطن واپسی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ابھی تک سینکڑوں پاکستانی طلبہ و طالبات واپس آ چکے ہیں مگر ابھی بھی سینکڑوں وہاں موجود ہیں۔ اب ان کو لانے کے لیے فضائی آپریشن تو ہو رہا ہے مگر اس میں بھی سیاست چل پڑی ہے۔ خیبر پی کے والے اپنا طیارہ بھیج کر خیبر پی کے والے طلبا کو واپس لانے کا کہہ رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ انہیں وفاقی حکومت پر اعتبار نہیں۔ کیا بیرون ملک پڑھنے والے یا رہنے والے صوبوں سے پہچانے جاتے ہیں؟۔ نہیں۔ یہ زہر سیاستدان ہی دماغوں میں بھر سکتے ہیں مگر حقیقت میں وہاں یعنی دیارِغیر میں سب صرف اور صرف پاکستانی ہوتے ہیں۔ اب بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی واپسی کے حوالے سے پریشانی بڑھ رہی ہے۔ حکومت نے فضائی آپریشن تو شروع کیا ہے۔ مگر خصوصی پروازوں کے لیے اجازت وزارت خارجہ کی منظوری سے مشروط کر دی ہے۔ یہ عجب بے تکی حرکت ہے۔ اگر بلوچستان ، سندھ اور خیبر پی کے یا پنجاب کی طرف سے طیارے دستیاب ہیں تو شیڈول بنا کر طلبا کی واپسی کو یقینی بنایا جائے جن کے گھر والے انتظار کی سولی پر لٹکے ہوئے ہیں اور بچے وہاں پریشان ہیں۔ اس وقت بھی سینکڑوں طلبہ وہاں ائیر پورٹ پر پھنسے ہوئے ہیں۔ اوپر سے حکومت صرف پی آئی اے کو آپریشن کی اجازت دے رہی ہے۔ اس کی گزشتہ روز کی ایک فلائیٹ منسوخ ہو چکی ، یہ عجب صورتحال ہے۔ وزیر خارجہ کرغزستان جا کر کہہ رہے ہیں کہ وہاں کی انتظامیہ نے حالات بہتر بنانے کا دعویٰ کیا ہے مگر جب خوف و ہراس ہو تو کون رکے گا۔ بیشتر غیر ملکی طلبہ واپس جا چکے ہیں بس ہمارے غریب دے بال وہاں فٹبال بنے ہوئے ہیں۔ حکومت اس بارے میں سنجیدگی سے کام لے۔
آزاد کشمیر میں گاڑیوں پر پاکستان اور پاک فوج زندہ باد کے نعرے۔
آزاد کشمیر میں بجلی اور آٹے کی قیمتوں کے حوالے سے جو عوامی احتجاج ہوا۔ اس میں تمام جماعتوں اور اور تمام خیالات کے لوگوں نے بھرپور شرکت کی۔ یہ خالصتاً ایک عوامی مسئلہ تھا مگر چند علاقائی جماعتوں اور تنظیموں نے اسے کوئی اور رنگ دینے کی کوشش کی۔ احتجاج ہو رہا تھا بجلی اور آٹے پر، نعرے پاکستان اور مسلح افواج کے خلاف لگانے والے یہ سمجھے تھے کہ اب ہم تحریک کا رخ کسی اور طرف موڑ دیں گے۔ اس لیے بھارتی اخبارات اور میڈیا نے گھی کے چراغ جلانے شروع کر دئیے کہ اب پاکستانی آزاد کشمیر میں بھی کشمیری علیحدگی کے نعرے لگا رہے ہیں۔ تحریک چلا رہے ہیں مگر حکومت پاکستان کی دانشمندانہ پالیسی اور سکیورٹی فورسز کی محتاط روی کی وجہ سے کوئی بڑا جانی و مالی نقصان ہونے سے بچ گیا اور دشمنوں کے عزائم ناکام ہو گئے۔ آج بھی کوہالہ کے پل پراور پورےآزاد کشمیر میں قومی پرچم اسی شان و شوکت سے لہرا رہا ہے اور آزاد کشمیر کے گلی کوچوں میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں، جگہ جگہ پاک فوج کے حق میں ریلیاں نکل رہی ہیں کیونکہ آزاد کشمیر والے بخوبی جانتے ہیں کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت اور مسلح فوجی دستے عوام پر کیسا ظلم و ستم ڈھاتے ہیں۔ اب جوش اترنے کے بعد ہوش آیا تو باغ میں طلبا نے سڑکوں اور چوکوں پر کوسٹروں، ویگنوں، گاڑیوں ، ٹرکوں اور بسوں پر پاکستان زندہ باد، پاک افواج زندہ باد کے نعرے پینٹ کرنا شروع کر دئیے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آزاد کشمیر کے لوگ محب وطن پاکستانی ہیں۔
ڈیفنس میں بیوٹی پارلر کی مالکہ قاتلانہ حملے میں زخمی، 5 گولیاں لگیں۔
اب یہ تو پولیس کی تحقیقات کے بعد پتہ چلے گا کہ بیوٹی پارلر کی مالکہ کو گولیاں کس نے ماریں اور کیوں ماریں مگر 5 گولیاں مارنے کا مطلب ہے کہ معاملہ سنگین ہی ہو گا۔ یہ ذاتی دشمنی بھی ہو سکتی ہے۔ کاروباری رقابت بھی، لین دین کا تنازعہ بھی یا پھر دھوکہ دہی بھی۔ جی ہاں دھوکہ دہی اس لیے کہ ہمارے ہاں شادی کے دن دلہنیں بیوٹی پارلر سے تیار ہو کر آتی ہیں شب عروسی کے بعد صبح جب یہ غسل کر کے نکلتی ہیں تو دولہے میاں پر غشی طاری ہونے لگتی ہے کہ یہ کون ہیں۔ کئی ایک تو پوچھ ہی لیتے ہیں کہ آپ کون ہیں۔ کئی بے چارے تو شرما کر یا گھبرا کر باہر نکل جاتے ہیں کہ یہ نامحرم خاتون کمرے میں کیسے آ گئیں۔ اب یہ دھوکہ نہیں تو کیا ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو لگتا ہے قیامت کے دن ان بیوٹی پارلر والیوں کا حساب کتاب ہی الگ ہو گا۔ اب عورتوں کی بات تو چھوڑیں مرد حضرات کے لیے بھی بیوٹی پارلروں کا عروج ہے۔ اس میں بھی یہی دھوکہ دہی کی وارداتیں عام ہیں۔ ان بیوٹی پارلروں میں جس طرح کشمش کو انگور بنانے کی سازش کی جاتی ہے وہ مکمل دھوکہ دہی ہی تو ہے۔ بیوٹی پارلر میں تیار ہونے کے لیے اندر جانے والا کوئی اور ہوتا ہے یا ہوتی ہے۔ باہر آنے والا کوئی اور۔ کئی چہروں کو تو گھر والے بھی پہچان نہیں پاتے کہ یہ کون ہیں۔ اب ایسا ہی کوئی واقعہ نہ ہوا ہو کہ کسی دل جلے نے یہ حرکت کی ہو جو صبح اپنی رات والی دلہن کو تلاش کرنے میں بری طرح ناکام ہوا ہو گا۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ ہے۔ ڈیفنس جیسے پوش ایریا میں یہ واقعہ کسی اچھے بیوٹی پارلر کی مالکہ کے ساتھ پیش آنا معمولی بات نہیں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان گوادر ماسٹر پلان میں تبدیلی پر برہم۔
یہ تو ان کا حق بنتا ہے کہ وہ پلان بنانے اور منظوری دینے والوں سے پوچھیں کہ ایسی کونسی قیامت آ گئی تھی کہ اب شپ یارڈ کو کپر سے سربندر منتقل کرنے کا منصوبہ ہے۔ کیا پلان بناتے وقت معلوم نہ تھا کہ سربندر کا مقام کپر کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔ مطلب تو یہی ہے کہ سرسری طور پر جو جس کے جی میں آیا اس نے مشورہ دیا اور پلاننگ کرنے والے مانتے گئے۔ یہ گوادر کا ترقیاتی پلان نہ ہوا بازیچہ اطفال ہو گیا۔ اب تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ اس سلسلہ میں وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کمشنر مکران سے رپورٹ طلب کی ہے۔ گوادر ماسٹر پلان کوئی بلدیاتی حلقے کی تعمیر و مرمت کا پلان نہیں تھا۔ یہ سی پیک کے سب سے اہم حصے کا پلان تھا۔ یہ ایک انٹرنیشنل اور جدید سی پورٹ اور اس سے منسلک گوادر شہر کا تھا جو ایک جدید بندرگاہ بن چکا ہے۔ اب اسی شہر میں شپ یارڈ کے تبدیلی مقام کا کیا مطلب لیا جا سکتا ہے۔ سوائے اس کے کہ غور و خوض کے بغیر ہی ایک اہم حصہ کپر میں بنانے کا فیصلہ ہوا۔ اب نجانے کن خدشات کے بعد شپ پارڈ سربندر میں قائم کرنے کا کہا گیا ہے۔ یہ طوطے کی بلا اب بندر کے سر کیوں باندھی جا رہی ہے اس کا جواب بہرحال وزیر اعلیٰ کو دینا چاہیے۔