ٹکراو یقیناً کسی کے مفاد میں نہیں
ایوان بالا کو وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے بتایا ہے کہ اداروں کے ساتھ ٹکراو کسی کے مفاد میں نہیں ہے، ہر ادارے کو اپنی ا?ئینی حدود کے اندر رہنا چاہیے۔عدالت کو غصے میں جو بھی چاہے، کہنے کا اختیار نہیں۔
ہمارے ہاں اداروں کے حوالے سے بالادستی کی بحث ہوتی رہتی ہے کہ فلاں ادارہ فلاں ادارے سے زیادہ طاقتور ہے زیادہ بالادست ہے۔ ایسی ابحاث بے معنی ہیں۔ کوئی ادارہ کسی پر بالادستی نہیں رکھتا سب یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔بالادست صرف اور صرف پاکستان کا آئین ہے۔کبھی کبھی شخصیات میں اپنے اپنے اداروں کی بالادستی کا خبط ضرور سامنے آجاتا ہے۔ہر ادارہ آئین کے اور قانون کے مطابق اپنا کام جاری رکھے تو ایسے معاملات موضوع بحث نہیں بنیں گے۔گزشتہ دنوں ایک کیس کی سماعت کے دوران ایک فاضل جج کی طرف سے کچھ ریماکس دیئے گئے جس پر سینٹ میں ردعمل کا اظہار کیا گیا،وزیر قانون کے علاوہ سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا کہ سینیٹرز کے خلاف توہین عدالت لگائی جاتی ہے۔ پاکستان میں سلیکٹو انصاف ہوتا ہے، اسی طرح توہین عدالت میں بھی اسی طرح کی سلیکشن کی جاتی ہے۔کسی بھی محترم سینیٹر کو پراکسی قرار دینا درست نہیں ہے۔ ان کے بقول آئین عدلیہ نے تبدیل کیا۔ اگر اس طرح کا انصاف ہوگا تو لوگ آواز اٹھائیں گے۔ لیگی سینیٹر طلال چوہدری نے کہاکہ توہین عدا لت کے حوالے سے کوئی قانون نہیں ہے اور خاص لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔پارلیمان کے اندر پارلیمنٹیرین جو بھی بات کریں ان کو اس پر استثنیٰ حاصل ہے مگر جس طرح کے الفاظ عدلیہ اور ججوں کے حوالے سے استعمال کیے گئے ان پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ آئین کی بالادستی اور پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ماضی میں مارشل لگتے رہے جن کی آئین میں قطعی گنجائش نہیں ہے۔کبھی کبھی جوڈیشل ایکٹیوزم بھی دیکھنے میں آیا۔چیف جسٹس قاضی فائز کی سربراہی میں آج کی عدلیہ آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرتی نظر آتی ہے اگر کسی جج کے ریماکس کسی کو مناسب نہیں لگے تو اس کیلئے قانونی طریقہ کار موجود ہے۔ بہر حال سسٹم کا استحکام اسی میں ہے کہ ہر ادارہ اپنے آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام کرے۔