فیصل کریم کنڈی کی علی امین گنڈاپور کو مخلصانہ پیشکش !
پاکستان کا صوبہ خیبرپختونخواہ کئی دہائیوں سے مشکلات کا شکار چلاآرہا ہے جس کاآغاز دسمبر 1979ءمیں سویت افواج کے ہمسایہ ملک افغانستان پر قبضہ کے بعد ہوا۔ سویت افواج کے خلاف مزاحمت شروع ہوتے ہی افغانستان سے جڑے پاکستان کے قبائلی علاقے افغان مزاحمت کاروں کی پناہ گاہ اور گوریلا جنگ کیلئے مرکزی حیثیت اختیار کرگئے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے افغان مزاحمت کاروں کی حمایت فطری عمل کا نتیجہ تھی کیونکہ بہت سے قبائل سرحد کے دونوں طرف آباد تھے۔ ان کی باہمی آمدورفت میں کسی طرح کی بندش یا رکاوٹ نہیں تھی۔ سویت افواج پر شب خون مارنے کے بعد افغان مزاحمت کار بآسانی سرحد پار کرتے اور پاکستانی قبائلی علاقوں میں روپوش ہوجاتے۔ 1982ءمیں جب عالمی دفاعی تجزیہ کاروں نے تسلیم کرلیاکہ سویت افواج کے خلاف لڑنے والے افغان مزاحمت کاروں نے سرخ ریچھ (سویت افواج کا علامتی نام)کو گردن سے پکڑ لیا ہے تو پاکستان کے قبائلی علاقے مزید اہمیت اختیار کرگئے جس کے بعد افغان مزاحمت کاروں کو افغان مجاہدین قرار دے کر ان کی مدد کیلئے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے عسکری سربراہان وجرنیل جوق درجوق براستہ پشاور افغان مجاہدین کی مدد کو پہنچنے لگے۔ سویت یونین پاکستان پر براہ راست حملہ یا جنگ مسلط کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھالیکن پاکستان سے بدلہ لینا بھی ضروری سمجھتا تھا جس کیلئے دہشت گردی کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ سویت خفیہ ایجنسی ''کے جی بی ”فغا ن‘ خاد“ اور بھارتی ”را“ جو پہلے سے ہی اتحاد کیے ہوئے تھیں، انہوں نے پاکستان میں ریموٹ سے پھٹنے والے اور ٹائم بمبوں سے دھماکے شروع کردیے۔
دہشت گردی کی اس لہر میں پورا ملک دشمنوں کے نشانے پر تھا۔ کراچی کے بوہری بازار سے لے کر پشاور کے قصہ خوانی بازار تک ملک کا کوئی شہر بم دھماکوں سے محفوظ نہیں تھا جبکہ اس دور میں بھی سب سے زیادہ بم دھماکے پشاور میں ہوئے۔ اس وقت کے صوبہ سرحد جسے بعدازاں خیبرپختونخوا کا نام دیا گیا، میں مشکلات کا ایک پہلو تو بم دھماکے تھے۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان سے لاکھوں کی تعداد میں افغان خاندانوں کی پاکستان آمد کا سارا دباو بھی صوبہ سرحد کو ہی برداشت کرناپڑا۔افغان مہاجرین آتے ہوئے پاکستانیوں کیلئے منشیات (ہیروئن)اور کلاشنکوف کلچرہمراہ لے کر آئے تھے جس نے پاکستانی معاشرے کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ اس سے بھی سب سے زیادہ صوبہ سرحد (کے پی کے)ہی متاثر ہوا۔ سویت یونین کے شکست سے دوچار ہوتے ہی اس کی فوج افغانستان سے نکلی تو وہاں خوفناک خانہ جنگی نے جنم لیا۔ جس کے اثرات مزید افغان مہاجرین کی شکل میں صوبہ خیبر کے پی کے پر پڑے۔ افغانستان کی خانہ جنگی پر امریکی حمایت یافتہ افغان طالبان نے قابو ضرور پالیا لیکن وہ زیادہ دیر تک امریکہ کے ساتھ تعلقات برقراررکھنے میں ناکام رہے۔ معروف نائین الیون دہشت گردی کے بہانے امریکہ نے نیٹو ممالک کی افواج کے ساتھ مل کر 2001ء میں افغانستان پرتسلط جمایا تو اسکے خلاف افغان مزاحمت کاروں کی طرف سے دوسری مزاحمتی جنگ کا آغاز ہوا۔ اس وقت تک افغان مجاہدین اپنی شناخت تبدیل کر کے افغان طالبان قرارپاچکے تھے۔ انہی کی کوکھ سے تحریک طالبان پاکستان کا جنم ہوا جسے پاکستان دشمنوں نے پاکستان میں دہشت گردی کیلئے میدان میں اتارا تھا۔ لیکن یہ دہشت گردی ریموٹ کنٹرول یا ٹائم بموں کی صورت نہیں بلکہ بارود سے بھری گاڑیوں کے ذریعے کیے جانے والے دھماکوں ، انسان نما خودکش بمباروں کے بھرے بازار یا زیادہ رش والے مقامات پر پھٹنے سے ہونے والے دھماکوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر تباہی کی صورت میں سامنے آئی۔ اس کا بھی زیادہ تر نشانہ صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر ہی بنے جس میں پشاور سرِفہرست رہا۔
ان گزرے ہوئے واقعات اور تکلیف دہ یادوں میں جب آج کے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور صوبے کے گورنر فیصل کریم کنڈی پر مولاجٹ کے فلمی کردار کی طرح گرجتے برستے دکھائی دیتے ہیں تو حیرانگی ہوتی ہے کہ کیا انہیں ذرہ بھی احساس نہیں کہ وہ صوبہ جوگزشتہ چار دہائیوں سے دہشت گردی جیسی مشکلات سے دوچار چلا آرہا ہے اس کے وزیراعلیٰ کا مزاج نہایت دھیما اور زخموں پر مرہم رکھنے والا جیسا ہونا چاہیے تھا۔ اگر وفاق سے وزیراعلیٰ گنڈا پور کے سیاسی طو رپراختلافات ہیں بھی تو اس کا حل گورنر کو دھمکیاں نہیں بلکہ انہی کے آبائی علاقے ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے متحمل مزاج شخص فیصل کریم کنڈی جوکہ وفاق کی طرف سے صوبے میں گورنر تعینات کیے گئے ہیں کو ساتھ ملا کر وفاق سے صوبے کے حقوق لینے کی کوشش کی صورت ہوناچاہیے تھا۔ ویسے بھی اگر بطور شخصیت فیصل کریم کنڈی کی بات کر یں تو عرصہ دراز سے پاکستان کے مختلف نجی ٹیلی ویژن چینلز کے ٹاک شوزمیں اسکے انداز گفتگو سے مستفید ہونے والے پاکستانیوں کی اکثریت چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، سب فیصل کنڈی کے دھیمے انداز سے بات کرنے کے ضرور قائل ہیں۔یہاں تک کہ اس نے کبھی اپنے طنزیہ جملوں کو بھی بطور نشتر مخالفین کے خلاف استعمال کرنے سے گریز کیا اور تلخ باتوں کا جواب بھی مسکرا کر دیا ہے۔ اب بھی علی امین گنڈا پور کی طرف سے آئے روز دھمکی آمیز بیانات کے جواب میں فیصل کریم کنڈی کا ردعمل ہمیشہ صلح جوئی اور صوبے کے مسائل مل جل کر حل کرنے پر مبنی رہا ہے اورشاید یہ فیصل کریم کنڈی کے مزاج کا حصہ ہے کہ دھمکیوں کا جواب دھمکیوں سے دے کر سیاسی ماحول کو مزید آلودہ ہونے سے بچایاجائے جو پہلے ہی کشیدگی کی آخری حدود کو چھورہا ہے۔
جہاں تک وفاق کی طرف سے صوبہ خیبر پختونخواکے واجبات کی ادائیگی کا تعلق ہے تو یقینا یہ خیبر پی کے میں بسنے والوں کا قانونی حق ہے جو انہیں ہر صورت ملنا چاہیے۔ لیکن اس حقیقت کو مدنظر رکھے جانا بھی ضروری ہے جو معاشی دباو کی صورت وفاق کو درپیش ہے۔ جسے حل کرنے کیلئے وفاق بھرپور کوششوں میں ہے جبکہ آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کیلئے بات چیت بھی انہی کوششوں کا حصہ ہے جس پر بڑی حدتک پیش رفت ہوچکی ہے۔ ساتھ ہی ملک کی معیشت پر بوجھ بنے ہوئے اسٹیل مل، پی آئی اے اور اس طرح کے دیگر اداروں کی نجکاری کی کوششیں بھی سب کے سامنے ہیں۔جو پاکستان کی معیشت اور اقتصادی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ پاکستان کی معیشت کے حوالے سے وفاق کے حالیہ سخت فیصلوں سے خاصے مطمئن ہیں اور جلد ہی مہنگائی میں بتدریج کمی اور معاشی استحکام کی پیشن گوئی کر رہے ہیں۔ ایسے میں فیصل کریم کنڈی کی طرف سے سخت دھمکی آمیز بیانات کے باوجود گنڈاپور کو گورنر ہاوس آمد کی دعوت اور صوبے کے مسائل اور حقوق کیلئے مل کر کام کرنے کی پیشکش ایک خوش آئند پیغام ہے۔جسے سیاسی کشیدگی کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے ملک کے وسیع تر مفادات کو پیش نظررکھتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پورکو اپنے رویے پر ضرور نظر ثانی کرنے چاہیے۔