خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی ایپکس کمیٹی کا اجلاس
خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) ان اداروں میں سے ایک ہے جو خصوصی طور پر اس مقصد کے لیے قائم کیے گئے کہ ان کی مدد سے پاکستان کی معیشت کو سہارا دیا جاسکے۔ پاکستان نے گزشتہ چند برس شدید اقتصادی مشکلات میں گزارے ہیں اور ہماری مشکلات ابھی کم یا ختم نہیں ہوئیں۔ ہاں، ان پر قابو پانے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ ایس آئی ایف سی کا قیام انھی کوششوں کا حصہ ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس ادارے کی ترقی کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز مل کر کام کررہے ہیں اور سب کی یہی کوشش ہے کہ اس ادارے کے کام میں کسی بھی طرح کی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ ایسا کرنا اس وقت اس لیے بھی ضروری ہے کہ پاکستان دیوالیہ پن کی حد کو چھو چکا ہے اور اگر اب بھی ہم نے ملکی معیشت کو سنبھالنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے تو مسائل اس حد تک بگاڑ کا شکار ہو جائیں گے کہ پھر ان پر قابو نہیں پایا جاسکے گا۔ مسائل پر قابو پانے کے لیے بار بار اعلیٰ سطح سے یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ ایس آئی ایف سی کے کام میں کسی بھی کسی کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔
ہفتے کے روز ایس آئی ایف سی کی اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس کی صدارت وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کی۔ اجلاس میں پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزیر اطلاعات ، وفاقی وزیر خزانہ، وفاقی وزیر داخلہ، وزیر دفاع، وزیر برائے منصوبہ بندی، وزارت تجارت، وزیر قانون و انصاف، وزیر آبی وسائل اور چاروں صوبائی چیف سیکرٹریز سمیت مختلف محکموں کے اعلیٰ افسران اس میں شریک ہوئے۔ اجلاس میں وزیراعظم کے دورۂ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے دوران اماراتی صدر محمد بن زاید النہیان کی طرف سے 10 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے اعلان کے بارے میں پیشرفت پر بریفنگ دی گئی اور غیر ملکی سرمایہ کے حوالے سے تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں دوست ممالک کی سرمایہ کاری پر رپورٹ پیش کی گئی اور داخلی سکیورٹی صورتحال سے بھی آگاہ کیا گیا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اینٹی سمگلنگ پر بریفنگ دی۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ عسکری قیادت نے ملکی سرمایہ کاری میں اہم کردار ادا کیا، وقت کے ساتھ ساتھ ایس آئی ایف سی کی اہمیت نے ناقدین کے منہ پر تالا لگا دیا۔ کانٹوں سے گزرنا ہوگا، کوئی ٹونا ساتھ نہیں دے گا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومتوں کو ایس آئی ایف سی میں ساتھ لے کر چل رہے ہیں، چاروں صوبے ایس آئی ایف سی پر اعتماد کرتے ہیں، سعودیہ اور یو اے ای یکسو ہیں کہ تمام سرمایہ کاری ایس آئی ایف سی کے ذریعے ہی ہو گی۔ اجلاس کے دوران بتایا گیا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ڈیجیٹلائزیشن کے لیے غیر ملکی فرم کو ہائر کر لیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ایس آئی ایف سی کے حوالے سے فوجی اور سول افسران مل کر کام کر رہے ہیں، جرمن سرمایہ کاروں نے بھی ایس آئی ایف سی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے، ہم بہت جلد اپنے اہداف کو حاصل کر لیں گے۔ اپنے سعودی عرب اور یو اے ای کے دوروں کو کامیاب قرار دیتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ہم تجارتی اور معاشی تعاون کو اہمیت دے رہے ہیں۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں بتایا گیا کہ اجلاس میں ایس آئی ایف سی کے تحت مختلف اقدامات اور منصوبوں کا جائزہ لیا گیا۔ اپیکس کمیٹی کے ارکان نے دوست ممالک کے ساتھ اقتصادی تعاون پر پیشرفت کا جائزہ لیا۔ اس موقع پر جنرل عاصم منیر نے معاشی خوشحالی اور سماجی و اقتصادی بہبود کے لیے حکومتی اقدامات میں تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ اپیکس کمیٹی نے سرمایہ کاری کے ماحولیاتی نظام کو بہتر بنانے کے عزم کا بھی اعادہ کیا اور ریاستی اداروں کی نجکاری پر پیشرفت کا بھی جائزہ لیا۔ اپیکس کمیٹی نے نجکاری کے جاری عمل پر اطمینان کا اظہار کیا اور متعلقہ سٹیک ہولڈرز سے مل کر نجکاری کو بروقت مکمل کرنے پر زور دیا۔
اس سلسلے میں ایک اہم پیشرفت یہ بھی ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ کے مطابق خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے ایس آئی ایف سی کے معاملات میں تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اجلاس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ اجلاس بڑے اچھے ماحول میں ہوا اور اجلاس سے اتحاد کا پیغام گیا ہے، ایس آئی ایف سی پر سب کو اعتماد ہے۔ ایس آئی ایف سی کے فورم پر سب متحد ہیں اجلاس میں شرکت پر تمام وزرائے اعلیٰ کے شکر گزار ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے بتایا کہ ایس آئی ایف سی کے اندر سرمایہ کاری اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے چھے ڈیسک بنائے جائیں گے۔ وزیراعظم نے واضح کیا ہے کہ ہمیں امداد اور قرض نہیں چاہیے، ہمارا فوکس سرمایہ کاری اور تجارت پر ہو گا۔
ایف آئی ایف سی جیسے ادارے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) جیسے منصوبے پاکستان کی تقدیر بدل سکتے ہیں لیکن اس کے لیے شرطِ لازم یہ ہے کہ ان اداروں اور منصوبوں کے کاموں میں کسی قسم کی رکاوٹ کو برداشت نہ کیا جائے، اور ساتھ ہی ساتھ ایسے عناصر پر کڑی نظر رکھی جائے جو پاکستان کو مضبوط اور مستحکم ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ ایسے عناصر مختلف مواقع پر سی پیک سمیت پاکستان کی اقتصادی ترقی کے منصوبوں کو نقصان پہنچانے کے لیے کارروائیاں کرچکے ہیں اور مستقبل میں بھی وہ ایسی مذموم حرکتوں سے باز نہیں آئیں گے۔ اگر ہم نے ٹھیک طریقے سے ایف آئی ایف سی اور سی پیک کے معاملات کو آگے بڑھا لیا تو چند برس میں پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہو جائے گا۔