• news

 شیر افضل مروت کو ضائع نہیں کرنا چاہئے  

جنرل ضیاء  الحق نے پاکستان میں عورتوں کے ساڑھی پہننے پر پابندی لگا دی۔ تب لوگوں نے دیکھا کہ ایک روز ملکہ غزل اقبال بانوکالی ساڑھی پہنے لاہور کے ایک اسٹیڈیم میں تقریباً پچاس ہزار بندوں کے سامنے نمودار ہوئی۔ وہاں اس نے پڑھی فیض احمد فیض کی انقلابی نظم۔’ہم دیکھیں گے، لازم ہیں کہ ہم بھی دیکھیں گے‘۔یہ نظم آج بھی نوجوان نسل کے احتجاج کا ایک سمبل ہے۔ نوجوان نسل اسے ایک احتجاجی نعرہ ہی سمجھتی ہے۔ ’وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے، جو لوح ازل میں لکھا ہے‘۔ ازل ایک فلاسفی ہے۔ ایک ایسی فلاسفی جو دنیا کے آغاز سے لے کر دنیا کے خاتمہ تک ہے۔ ازل ایک ایسا سماں جس کے کوئی شروعات نہیں اور نہ ہی کوئی انت۔ ازل وہ دن ہے جب یہ ساری کائنات وجود میں آئی۔لوح سے مراد ایک تختی ہے۔ لوح ازل سے مراد وہ لکھا جو کسی طور مٹایا نہیں جا سکے گا۔ اقبال بانو نے ’ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘ اپنی سدا سہاگن آواز میں ایسے جی جان سے گایا کہ سننے والوں کا دل وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے دیکھنے کیلئے زندہ رہنے کو چاہتا ہے۔ اب تبدیلی ہمارے معاشرے میں ناگزیر ہے جیسے یہ لوح ازل پر لکھ دی گئی ہے۔
کالی ساڑھی کے بعد کالے کوٹ پینٹ والے کا قصہ کہانی شروع کرتے ہیں۔ یہی ہے آج کا کالم۔ انہوں نے اقبال بانو کی طرح ہی انقلابی نعرہ لگایا ہے۔ یہ شیر افضل مروت ہیں۔ کے پی کے کے قبائلی علاقہ سے تعلق رکھنے والے ایک سیدھے سادے سے پٹھان۔ اس داڑھی منڈے پٹھان نے جمعیت علمائے اسلام بھی دیکھ رکھی ہے۔ یہ کچھ عرصہ ان کے ساتھ بھی چلے۔ لیکن پھر وہاں سے جلد لوٹ آئے۔ان کے والد محمد عظیم خان 2012ء میں مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں لقمہ اجل بنے۔ یہ مذہبی دہشت گردی بھی اک عجب معمہ ہے۔ یہاں قاتل اور مقتول دونوں کے لبوں پر کلمہ طیبہ کا ورد ہوتا ہے۔ دونوں ہی غازی اور شہید ہونے کے دعویدار پائے جاتے ہیں۔ اب ہماری ہاں مذہبی دہشت گردی کے بعد سیاسی دہشت گردی بھی آن پہنچی ہے۔ اللہ خیر کرے۔ باپ کے بعد بیٹے کے ہاتھ یہ زمانہ آیا ہے۔ 
شیر افضل مروت بیرسٹر ہیں۔تاریخ اور صحافت میں ماسٹر ڈگری رکھتے ہیں۔ اک زمانہ تک کے پی کے میں عدالتی کرسی پر بھی رونق افروز رہے۔ پھر عدلیہ چھوڑ کر وکالت اور سیاست میں آگئے۔ ایک صاحب حیثیت زمیندار گھرانے سے تعلق بتایا جاتا ہے۔ عجب طبعیت پائی ہے۔ کسی پل چین نہیں۔ 
میرا سکون یہی ہے کہ میں بے سکوں رہوں
کوئی میرے لئے نہ پریشاں ہوا کرے 
2017ء میں تحریک انصاف جائن کرلی۔ ان کی تحریک انصاف میں شمولیت کو تحریک انصاف میں ’’وڑنا‘‘بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس پنجابی لفظ کو اس پٹھان کی شخصیت میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ 
2018ء کے الیکشن میں اپنے ضلع لکی مروت میں تحریک انصاف کے امیدواروں کے ساتھ سرگرم رہے۔ پھر یہ عام طور پر اسلام آباد میں دیکھے گئے۔ 9مئی 2023ء کے ہونے والے المناک واقعات کے نتیجہ میں تحریک انصاف کے عہدیداروں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا۔ متعدد اہم اراکین کے اغوااور گرفتاری کے بعد جماعت کی پہلی صف میں ایک خلا پیدا ہو گیا۔ ان حالات میں اپنی جرات، دلیری کے باعث پی ٹی آئی کی دوسری تیسری صف سے یہ پہلی صف میں چلے آئے۔ اسطرح یہ مشکل دنوں میں پی ٹی آئی کا چہرہ دکھائی دیتے رہے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں ان کی سینیٹر افنان اللہ سے لڑائی مار کٹائی کا سین پی ٹی آئی کے سوشل حلقوں میں بڑا وائرل ہوا۔ 
پی ٹی آئی عمران خان سے شروع ہو کر عمران خان پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ پھر بھی ایک سیاسی جماعت ایک فرد کا نام نہیں ہوتا۔ چند ایسے چہرے ضرور ہوتے ہیں جو کسی سیاسی جماعت کی شناخت اور چہرہ مہرہ بن جاتے ہیں۔ شیر افضل مروت بھی پی ٹی آئی کے ایسے جماعتی مقام تک پہنچ گئے ہیں۔ دربار ہو یاپھرکوئی سیاسی جماعت، وہاں عہدوں ٹکٹوں اور اختیارات کیلئے کھینچا تانی لازمی ہے۔ سازشیں ہوتی رہتی ہیں۔ اک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں۔ صدر ایوب خاں کے پوتے عمر ایوب خاں پی ٹی آئی کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں۔ شیر افضل مروت لکی مروت سے سلیم سیف اللہ کو بڑے مارجن سے ہرا کر قومی اسمبلی پہنچے ہیں۔ سلیم سیف اللہ عمر ایوب خاں کے سسر ہیں۔ہمارے ہاں جماعتی وابستگی کے باوجود رشتوں ناطوں کا تعلق ختم نہیں ہوتا۔ اس طرح عمر ایوب خاں کیلئے شیر افضل مروت کی اہمیت کو برداشت کرنا کچھ آسان نہیں۔ جماعت کے اور بھی بہت سے اہم لوگ ہیں جن سے ان کی اہمیت ہضم نہیں ہو رہی۔ پھر ایک دن یوں ہوا۔ کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن، کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی۔ شیر افضل مروت کو پارٹی ساکھ اور مفادات کو نقصان پہنچانے والے بیانات کے باعث شو کاز نوٹس جاری کر دیا گیا۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان سے اس بارے پوچھا گیا تووہ کہنے لگے۔مروت نے پارٹی کیلئے زبردست کام کیاہے۔ ایک سیاسی جماعت میں ایک دائرے کے اندر رہ کر کام کرنا پڑتا ہے۔ مروت کو کئی مرتبہ سمجھایا گیا کہ وہ پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی نہ کرے۔ لیکن یہ ہر دوسرے روز کسی نہ کسی پارٹی لیڈر پر چڑھائی کر دیتا ہے۔ مروت کو کئی بار سمجھایا گیا کہ جنگ باہر والوں کے خلاف ہوتی ہے، پارٹی میں لڑائی نہیں ہوتی۔ کوئی پارٹی ڈسپلن میں رہے تو ٹھیک۔نہ رہے تو وہ پورس کا ہاتھی بن جاتا ہے۔ عمران خان کے اتنے تفصیلی بیان کے بعد ان سے اگلا سوال ہوا ’’کیا آپ انہیں بلائیں گے؟‘‘۔ عمران خان اس سوال کا جواب دیئے بغیر آگے بڑھ گئے۔ ایک سوال ہے کیا شیر افضل مروت بن بلائے معافی تلافی لینے عمران خان کے پاس پہنچ جائیں گے؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ مروت اپنی مرضی موج کا بندہ ہے۔ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اسے کوئی پرواہ نہیں۔ اسے کسی کی پرواہ نہیں۔لیکن مروت پی ٹی آئی کیلئے ایک اثاثہ ہے۔ وہ ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ شیر افضل مروت کوضائع نہیں کرنا چاہئے۔

ای پیپر-دی نیشن