تاریخ کے زخم۔5
گزشتہ سے پیوستہ: بحوالہ میرے کالمز مؤرخہ 29اپریل ،6 مئی18,مئی اور20مئی 2024ء کے تسلسل میں۔2 نومبر 1946 ء کو کرنل مرے نے ’’فتوا‘‘ کے علاقے میں ایک پلاٹون پیدل بھیجی کیونکہ حالات بہت خراب تھے۔ مسلمانوں کے ایک گاؤں میں بہت سے لوگوں کو قتل کر دیا گیا تھا اور پورے گاؤں کو جلا دیا گیا تھا۔ بچ جانے والے مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا قافلہ کھیتوں سے چھپتا ہوا محفوظ مقام کی طرف روانہ ہوا۔ پلاٹون ان کے پیچھے انہیں تحفظ دینے کے لئے روانہ ہوئی۔ اس قافلے کو ہندوؤں نے دیکھ لیا اور حملہ کر کے بہت سے لوگوں کو مار دیا۔ مرنے والوں میں پولیس کا مسلمان سب انسپکٹر بھی تھا جو ان کی حفاظت کے لئے ساتھ تھا۔ ’’ہلسا'' کے نزدیک فوجی پلاٹون پر بھی ہندو غنڈوں نے حملہ کر دیا۔ گور کھا فوجیوں نے اپنی حفاظت میں فائر کھولا۔ چار حملہ آور مارے گئے تو ہندو بلوائی پیچھے ہٹ گئے۔ میجر Rawlinsکی کمپنی ’’جھیتونی‘‘کے علاقے سے گزر رہی تھی کہ خوفزدہ مسلمان گاؤں نے تحفظ کی اپیل کی۔ میجرRawlinsنے ایک جمعدار (موجودہ نائب صو بیدار) کے ساتھ کچھ فوجی وہاں چھوڑے۔ تھوڑی ہی دیر میں نعرے لگاتا ہوا ایک بہت بڑا ہندو جتھہ اس گاؤں پر حملہ آور ہوا۔ فوج نے فائر کھولا۔ 4 آدمی گر گئے تو یہ جتھہ بکھر گیا ور نہ اس گاؤں کی خیر نہ تھی۔ میجرG Leechکی کمپنی کی ایک پلاٹون حالات کا جائزہ لینے کے لئے’’ بھاگلپور اور تارا پور کی‘‘ طرف بھیجی گئی۔ تارا پور کے علاقے میں کافی تباہی ہو چکی تھی۔ 6 گاؤں اس وقت بھی جل رہے تھے۔ بہت سے دیہاتی مارے جا چکے تھے اور کچھ ادھر ادھر بھاگ گئے تھے۔ اسی طرح ''جمالپور اور منگھیر‘‘ کے علاقے میں بھی حالات بہت خراب تھے۔ گورکھا فوجیوں نے آکر حالات پر قابو پایا۔ ہر طرف ہندو غنڈوں کے جتھے مسلح ہو کر پھر رہے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ مسلمانوں کے گاؤں پر حملہ آور ہوئے اور انہیں جلا دیا۔ 4 نومبر کو ’’جمالپور ‘‘کے نزدیک ایک پوری ریلوے ٹرین روک کر مسلمان مسافروں کو ذبح کر دیا گیا اور ریل کے ڈبے جلا دیئے گئے۔ '' تارا پور'' سے آگے’’ رامپور - جلال آباد۔مکوا اور مرزا پور ‘‘کے علاقے میں جب فوجی پہنچے تو ایک افسوسناک سین نظر آیا۔ ہر طرف لاشیں پھیلی تھیں۔ فوج نے ایک معصوم بچے کو بچایا جس کی آدھی کھوپڑی غائب تھی۔ اسی رات ایک فوجی پلاٹون’’ تارا پور‘‘ سے آگے’’ بشم پور‘‘ پہنچی۔ گاؤں ہندو غنڈوں نے گھیر رکھا تھا۔ فوجیوں کو باقاعدہ لڑ کر یہ گاؤں چھڑانا پڑا۔ فوجی جب گاؤں میں داخل ہوئے تو بہت سے مسلمانوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں اور مکانات جل رہے تھے۔ یہ تو یوپی اور بہار کے چند ایک وہ علاقے تھے جہاں فوج پہنچی ورنہ باقی علاقوں میں مسلمانوں کی تباہی کی صرف خبریں ہی موصول ہوئیں۔
بہت سے مقامات سے بلوائیوں کے حملوں کی اطلاعات آتی رہیں۔ فوج وقت پر نہ پہنچ سکی لیکن جب فوج پہنچی تو اکثر گاؤں کے گھر لوٹ کر جلائے جا چکے تھے۔ اس پورے علاقے میں جب فوج پہنچی تو سینکڑوں کی تعداد میں عورتوں۔ بچوں اور بوڑھوں کی لاشیں ملیں جو اکثر ننگی تھیں۔ اعضا کٹے ہوئے تھے۔ معلوم ہوتا تھا کہ بہت وحشتناک طریقے سے ایذائیں دیکر مارا گیا تھا۔ عورتوں کے پیٹ پھٹے تھے۔ بچوں کے سر پھاڑے ہوئے تھے جیسا کہ اٹھا کر کسی دیوار پر پٹخاہو۔ بہت سی جگہوں پر لاشیں ننگی کر کے جلا دی گئی تھیں۔ یہ سراسر درندگی کا مظاہر تھا۔ مرنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ کچھ لوگوں کو خنجر زنی سے مارا گیا تھا۔
4 نومبر کو پنڈت نہرو نے بہار شریف کا دورہ کیا۔ حالات دیکھنے کے لئے ایک فوجی پارٹی ’’کنچی پور‘‘ پہنچی۔ دو سو مسلمان گلیوں میں ذبح ہوئے پڑے تھے۔ پندرہ ابھی تک گو زندہ تھے لیکن بری طرح زخمی تھے۔ انہیں فوج اٹھا کر’’ فتوا‘‘ ہسپتال لے آئی۔
اسی شام ’’برکندی‘‘ سے آگے فسادات کی اطلاع ملی۔ وہاں مدر اس رجمنٹ کے ٹروپس بھیجے گئے۔ ایک گاؤں تو جل چکا تھا۔ دوسرے گاؤں پر تقریبا ً 5ہزار بلوائیوں کا مجمع حملے کے لئے بڑھا آ رہا تھا کہ فوجی پہنچ گئے۔ باقاعدہ جنگ ہوئی 15 بلوائی موقعہ پر ہی مارے گئے۔ کافی سارے زخمی ہوئے پھر یہ لوگ وہاں سے ہٹے۔ فوج گاؤں میں داخل ہوئی۔ تقریبا سات سو مظلوم مسلمان گھیرے میں تھے جنہیں فوج نکال کر محفوظ مقام پر لے آئی۔ شام کو بٹالین کمانڈر کرنل Venning خود اس علاقے میں گیا تو اس وقت تک اس علاقے میں کئی گاؤں جل چکے تھے۔ آٹھ سو مظلوم مسلمان ادھر ادھر چھپے تھے۔ فوج کو دیکھ کر اکٹھے ہوئے تو کرنل Venning نے فوجی دستے کی نگرانی میں انہیں محفوظ مقام کی طرف روانہ کیا۔ حملہ آور پورے علاقے میں پھیلے تھے اور تعداد میں اتنے زیادہ تھے کہ کرنل Venning کے لئے انہیں پکڑنا یا ان پر قابو پانا ناممکن تھا لہٰذا اس نے ہجوم کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کی صرف مظلوم مسلمانوں کو خاموشی سے وہاں سے نکال کر محفوظ مقام تک پہنچا دیا۔ آدھی رات کو وہ واپس لوٹا تو دیکھا کہ راستے میں ایک پل پر تقریبا 6 سو مجمعے کے ہجوم نے فوجی راشن گاڑیاں روک رکھی تھیں اور انہیں لوٹنے کی تیاری کر رہے تھے۔ کرنل Venning کے پاس محض دو پلاٹون سولجرز تھے۔ اس چھوٹے سے فوجی دستے کو رائفلوں پر سنگین لگا کر اس ہجوم پر حملہ کرنا پڑا تب کہیں جا کر مجمع واپس لوٹا اور گاڑ یاں منزل کی طرف روانہ ہوئیں۔ ہر طرف دن رات ہندو غنڈوں کے ہاتھوں لوٹ مار اور قتل و غارت کی ہی کہانیاں تھیں۔ جہاں کہیں فوج پہنچتی ہزاروں مسلمانوں کو بچا کر ریفیو جی کیمپس میں لے آئی۔ اور تو اور غنڈوں نے فوجی ہیڈ کوارٹرز تک گھیر لئے اور فوج کو با قاعدہ جنگ کر کے اپنے ہیڈ کوارٹرز کا محاصرہ ختم کرانا پڑا۔
5 نومبر کو ’’ہلسا‘‘ سے آگے ایک گاؤں پر حملہ ہوا اور فوج کے پہنچنے سے پہلے بہت سے مسلمان قتل ہو گئے۔ باقیوں کو فوج بچا کر محفوظ مقام تک لے آئی۔ 6 نومبر کو ایک بڑے گاؤں’’ بتارا ‘‘پر تقریباً 15 ہزار بلوائیوں کا لشکر حملہ آور ہوا۔ جب فوج پہنچی تو صرف 4 سو لاشیں گن سکی جبکہ لاشیں اس سے بہت زیادہ تھیں۔ ارد گرد کے کنواں بھی لاشوں سے بھرے تھے۔ زندہ لوگوں کو بھی جلایا گیا۔ اسی دن کرنل Venning کو بتایا گیا کہ ’ہلسا‘‘ سے آگے ’’ نگر نہوسا ‘‘کے گاؤں پر حملے ہو رہے ہیں۔ اس نے فوری طور پر ایک کمپنی روانہ کی۔ یہاں بہت سے گاؤں تھے۔ جب فوجی پہنچے تو تقریباً 5 سے 10 ہزار بلوائیوں کا مجمع حملے میں مصروف تھا۔ بہت سے گاؤں جل چکے تھے۔ مسلمانوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کیا جا رہا تھا اور ان کے گھروں کو لوٹا جا رہا تھا۔ پتہ چلا کہ یہ حملے کئی دنوں سے جاری تھے۔ لاشوں کی تعداد ان گنت تھی۔ فوجیوں کو ان بلوائیوں کے خلاف تین مختلف مقامات پر جنگیں کرنی پڑیں تب کہیں جا کر حالات قابو میں آئے لیکن بلوائی پھر اکٹھے ہو کر حملہ آور ہو گئے۔ پھر یہ بلوائی مہاجر کیمپوں پر حملہ آور ہوئے اور بہت سے مہاجرین کو بیدردی سے قتل کر دیا۔ کرنل Venningکا اپریشن 8 نومبر تک جاری رہا۔ اسکی رپورٹ کے مطابق تقریباً ایک ہزار مربع میل کے علاقے میں 80 ہزار مسلمان اور 5لاکھ ہندو تھے۔ ہندوں کا یہ فیصلہ تھا کہ اس علاقے سے مسلمانوں کی نسل کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ بہر حال کرنل Venning نے 12 ہزار مسلمانوں کو بحفاظت محفوظ مقامات تک پہنچایا جو اسکی یونٹ کی مسلمانوں کے لئے عظیم خدمت تھی۔ دو ہزار زخمیوں کو اکٹھا کر کے ہسپتال پہنچایا۔ لاشوں کی تعداد بہت زیادہ تھی جن کے لئے وہ کچھ نہ کر سکا۔
(جاری ہے۔)