شخصیت کی تعمیر اور نماز (۱)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بھلائی اور شر کی دونوں صلاحتیں دیں ہیں ۔ شخصیت کی تعمیر سے مراد یہ ہے کہ انسان ان دونوںقوتوں میں اعتدال پیدا کرے ۔ اگر انسان شر کو نقطہ اعتدال پر مرتکز کر کے خیر کے تابع کر دے تو اس سے شر بھی خیر بن جاتا ہے انسان کی پوری زندگی بندگی بن جاتی ہے اور انسانی شخصیت کی تعمیر ہو جاتی ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : پھر ہر نفس کو اس کی بد کرداری اور پرہیز گاری سمجھا دی گئی ہے بے شک وہ کامیاب ہو گیا جس نے اس کا تزکیہ کیا اور وہ یقینا ناکام ہوا جس نے اسے گناہوں سے آلودہ کیا ۔(سورۃ الشمس)
انسان کو چاہیے کہ اپنی شخصیت کو تعمیر کرنے کے لیے حقوق و فرائض میں اعتدال سے کام لے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن اور حضور نبی کریمﷺ کی احادیث کی روشنی میں حقوق اور فرائض کا تعین کر دیا ہے۔ ان پر عمل کرنے کے لیے پہلے ان کو سمجھا جائے کہ حقوق کیا ہیں اور فرائض کیا ہیں ۔ اگر انسان کو اس بات پر پختہ یقین ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ میرے ہر عمل سے واقف ہے اور میں نے ایک دن اس کے سامنے اپنے سارے اعمال کا جواب دینا ہے اور اس کے بدلے میری سزا اور جز ا کا فیصلہ ہو نا ہے تو انسان اتنے ہی حقوق کی طلب کرے گا جتنے شریعت نے اس کے لیے مقرر کیے ہیںاور فرائض کی ادائیگی میں بھی سستی نہیں کرے ۔ جب بندہ اپنے آپ کو شریعت کے مطابق ڈھالنے لیتا ہے تو اس کی شخصیت کی تکمیل ہو جاتی ہے ۔
نماز انسانی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ شروع سے لے کر آخر تک نماز میں اللہ تعالیٰ کی عظمتوں کو بیان کیا جاتا ہے ۔ سب سے پہلے اذان جس میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اعلان کیا جاتا ہے ، توحید و رسالت کی گواہی دی جاتی ہے ، اس کے بعد لوگوں کو خیر اور بھلائی کی طرف دعوت دی جاتی ہے اور آخر میں پھر اللہ تعالیٰ کی عظمت کو بیان کیا جاتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں صرف وہ ہی عبادت کے لائق ہے۔ اذان سن کر جب بندہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دست بستہ کھڑا ہو جاتاہے اور اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتا ہے ، اس کی عظمت کا اقرار کرتا ہے ، شیطا ن کے شر سے پناہ مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے رحمن اور رحیمی میں چھپ جاتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ سے التجا کرتا ہے کہ ہمیں سیدھے راستے پر چلا ایسے لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا نہ کہ ان لوگوں کے راستے پر جن سے تو ناراض ہوا ۔