وہ سترہ روز
ویسے تو یہ کہانی پچاس سال قبل شروع ہوئی لیکن وہ سترہ روز اہم ترین تھے جہاں ایک جانب غرور تھا دوسری جانب غم و غصہ، ایک طرف روکنے کے لیے لالچ دیا جارہا تھا تو دوسری طرف کر گزرنے کا جوش و جذبہ، فیصلہ پاکستانی قوم نے کرنا تھا روکھی سوکھی کھائیں گے ایٹم بم بنائیں گے کا نعرہ تو لگایا جاتا رہا لیکن اب فیصلے کی گھڑی تھی کیا ہم واقعی ایٹم بم بنانے اور روکھی سوکھی کھانے کو تیار ہیں اور پھر قوم نے ڈالروں کی بارش پر ملی غیرت کو ترجیح دی خوشحال زندگی کے سامنے محفوظ اور باعزت زندگی کا انتخاب کیا۔ 11 مئی 1998ءبھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے پوکھران میں تین ایٹمی دھماکے کرنے کا اعلان کیا تو وزیر اعظم پاکستان نواز شریف غیر ملکی دورے پر تھے جہاں انھیں بھارتی ایٹمی دھمکاوں کی اطلاع ملی، کیا کرنا ہے کیسے کرنا ہے اور کب کرنا ہے؟
ابھی یہ بحث شروع ہی ہوئی تھی کہ بھارت نے دو روز بعد دو اور ایٹمی دھماکے کر کے پاکستانی قوم کو ایک بار پھر للکارا، انتہا پسند ہندوو¿ں کی جانب سے دھمکی آمیز بیانات شروع ہوگئے، چیلنج دیا جانے لگا اب کشمیر بچا کر دیکھو، یہ جنگ نہیں تھی لیکن جنگی حالات ضرور تھے، وزیراعظم پاکستان وطن واپس پہنچے کابینہ نے روزانہ کی بنیاد پر مشاورت شروع کردی ساتھ ہی متعلقہ اداروں کو جوابی تیاریوں کی ہدایات بھی جاری کردی گئیں۔ آرمی چیف کی صدرات میں کور کمانڈرز نے بھی تسلسل کے ساتھ مل بیٹھنا شروع کردیا۔ عوام سڑکوں پر نکل چکے تھے پورے ملک سے ایک ہی آواز بلند ہورہی تھی ایٹمی دھماکے کرو بھارت کو جواب دو۔ دل کا فیصلہ تو سبھی کا یہی تھا لیکن دماغ سے بھی کام لینا ضروری تھا فیصلہ آسان تھا لیکن فیصلہ لینا مشکل۔
16 مئی 1998ءکو بھارتی دھماکوں کے پانچ روز بعد وزیراعظم نواز شریف سے ایک غیر ملکی ٹی وی انٹرویو میں کھل کر پوچھ لیا گیا کہ کیا پاکستان بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرے گا تو نواز شریف نے سفارتی زبان میں جواب دے کر دنیا کی کشمکش کو اور بڑھا دیا یہ کہہ کر کہ پاکستان بھارت کی اندھی تقلید نہیں کرنا چاہتا لیکن اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بھارتی اقدام سے خطے میں طاقت کا توازن بری طرح متاثر ہوا ہے عالمی طاقتوں کو ادراک تھا کہ پاکستان بھارت کا جواب دینے کی بھرپور پوزیشن میں ہے اسی لیے انھوں نے پہلے پس پردہ اور پھر کھل کر کوششیں شروع کردیں پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کے لیے لالچ دھمکی تمام حربے استعمال کئے گئے، امریکہ نے پاکستان کے ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی قیمت پانچ ارب ڈالرز مقرر کردی۔ یہ بہت بڑی پیشکش تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج آئی ایم ایف سے محض ایک ارب ڈالرز کے عوض کتنی بڑی بڑی شرائط کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کابینہ کے کچھ وزرا تو ایسے تھے جو یہ مشورہ دینے لگے کہ ایٹمی دھماکے کر کے معاشی پابندیوں کا سامنا کرنے کی بجائے امریکی امداد لے کر معیشت کو بہتر کیا جائے، یہ سترہ دن انتہائی کشمکش کے تھے ہر سوال اگر سے اور جواب مگر سے شروع ہوتا، دنیا کی نظریں پاکستان پر لگی تھیں۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکے لاکھوں ڈالرز کا سوال بن چکے تھے، واقفان حال کہتے ہیں کہ فیصلہ پہلے روز ہی ہوچکا تھا طے ہوگیا تھا کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں چاغی کے پہاڑوں میں چھ سو کے قریب ایٹمی سائنسدان اور معاونین شب و روز تیاریوں میں مصروف ہوچکے تھے جنھیں کم سے کم وقت میں تمام تر انتظامات مکمل کرنے کی ہدایات کردی گئی تھیں اور دنیا کو اسی کشمکش میں الجھائے رکھا گیا کہ کیا پاکستان دھماکے کرے گا یا نہیں۔ اور پھر 28 مئی کا دن دنیا کے لیے پاکستان کی جانب سے سرپرائز ڈے بن گیا۔ تین دن میں پانچ بھارتی دھماکوں کا جواب ایک ہی دن میں پاکستان نے چھ دھماکے کر کے دیا۔
آج سے پورے پچاس سال قبل یہ کہانی بھارت نے چھیڑی، مئی 1974ءکے بھارتی ایٹمی تجربات نے پوری دنیا کو متوجہ کیا تو پاکستان نے بھی خطے میں بالادستی قائم کرنے کے بھارتی ارادوں کو بھانپ لیا اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے خاموشی کے ساتھ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور پھر ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے سائنسدان بیرون ملک پرتعیش زندگیاں چھوڑ کر رضاکارانہ طور پر اس پروگرام کا حصہ بنے، چند سال کے اندر ہی پاکستان کے ایٹمی پروگرام نے بڑی کامیابی حاصل کی اور 80ءکی دہائی کے اوائل تک پاکستان ایٹمی صلاحیت حاصل کرچکا تھا اب دنیا کو بتانا تھا کہ ہم ایٹمی طاقت بن چکے ہیں، اس کے لیے پاکستان کو لگ بھگ چودہ پندرہ سال انتظار کرنا پڑا اور جب مئی 1998ءکو بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو یہی موقع تھا دنیا میں اپنے ایٹمی طاقت ہونے کا اعلان کرنے کا، اور 28 مئی 1998ءکی سہ پہر جب دنیا نے پاکستان کے سرکاری ٹی وی کے ذریعے چاغی کے پہاڑوں کو سنہرا ہوتے دیکھا تو یہ لمحات نہ صرف پاکستانیوں کے لیے بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے فخر کے لمحات بن گئے اور سترہ دنوں میں جی ہاں صرف سترہ دنوں میں کسی کے غرور کو اس کی سب سے بڑی غلطی بنا کر رکھ دیا گیا اور جو کہانی آج سے پچاس سال قبل بھارت نے شروع کی چوبیس برس بعد آج سے پورے چھیبیس سال قبل پاکستان نے چاغی کے پہاڑوں میں اس کا end Theکردیا، یہی تھا اور یہی ہے پاکستانیوں کا یوم تکبیر!
٭....٭....٭