یوم تکبیر اور پاکستان
28 مئی کا دن ایک ایسی یادگار کے طور پر ہر محب وطن پاکستانی کے دل پر نقش ہے جب پاکستان کے ازلی دشمن اور اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والوں کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں عالمی استعماری قوتوں کی مخالفت اور ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے عوض اربوں ڈالر کی پیشکش ٹھکراتے ہوئے چھ ایٹمی دھماکے کرکے دندان شکن جواب دیا۔ پاکستان کی ایٹمی دھماکوں کی صلاحیت کسی بھی ایٹمی ملک سے کم نہ تھی۔ دنیا ورطہ¿ حیرت میں مبتلا تھی، مسلم ورلڈ میں خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے تھے۔ پوری دنیا میں مسلمان ایک دوسرے سے بغلگیر ہو کر مبارک دے رہے تھے۔ سعودی عرب سمیت گلف ممالک میں پاکستانیوں کے لیے ان کے شہری نہ صرف انتہائی خوش دلی سے ملتے بلکہ عزت کا مقام بھی دیتے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ اہل اسلام کو پاکستان حقیقتاً اسلام کے قلعہ کی مانند نظر آنے لگا تھا۔ مگر آج ۔۔۔
پاکستان نے کامیاب ایٹمی دھماکے تو کر لیے جو استعداد کے لحاظ سے بھارت سے کہیں بہتر تھے۔ اکھنڈ بھارت کا وہ خواب جو مکار بنیا ایک عرصہ دے دیکھتا آرہا تھا، چکنا چور ہو گیا۔ اس سے پہلے بھی 1974ءمیں ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد بھارتی سورما اتراتے پھرتے تھے۔ پاکستان کو صفحہ¿ ہستی سے مٹانے کی منزل نزدیک دیکھ رہے تھے۔ 1984ءمیں جب پورے کروفر سے پاکستان کو نقشہ سے مٹانے کے لیے اس کی افواج تیار تھیں تو راجیو گاندھی کے کان میں ایک بات، ’ایٹمی جنگ ہوگی، پاکستان ختم بھی ہوا تو مسلمان ختم نہیں ہوں گے لیکن ہندو صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے‘ اور پھر اکھنڈ بھارت کا جذبہ ماند پڑ گیا۔ یہی خواب بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکے کے بعد بھی ابھرا لیکن پاکستان کے چھ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ہندو سامراج کو گھٹنوں میں منہ چھپانا پڑا۔
یہ وہ جواب تھا جو عالمی استعمار کو منظور نہ تھا۔ پہلے بھی 70ءکی دہائی میں بھٹو مرحوم کو عبرتناک بنانے کی دھمکی مل چکی تھی۔ سامراجی قوتیں ایک دفعہ پھر سرگرام ہوئیں ،اس سے پہلے پاکستان میں یہ کھیل مذہبی اور علاقائی انارکی پھیلا کر کھیلا گیا تھا۔ اب سیاست کو اکھاڑا بنا کر رکھ دیا گیا۔ اس وقت سے آج تک پاکستان کا سیاسی نظام دگرگوں نظر آتا ہے۔ سیاسی بدحالی کا اثر پورے نظام پر پڑا، معیشت تباہ حال ہوتی چلی گئی بلکہ سماجی اقدار بھی نہ رہے۔ سوچنے کی ضرورت ہے کہ دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی طاقت کسمپرسی کا شکار کیوں؟ کیوں ہم معمولی کاموں کے لیے بھی دوسروں کے دست نگر بنے ہوئے ہیں؟ ہمیں ضرور سوچنا چاہیے اور ان تمام عوامل پر کام کرنا چاہیے جو ایک باوقار قوم کے شایانِ شان ہوتا ہے۔ یاد رکھیں! عزت مانگنے سے نہیں، قربانیوں اور کڑی مشقت سے ملتی ہے۔ قرضوں کے بل پر وقت تو گزر جاتا ہے لیکن مزید بار تلے بھی دبا دیتا ہے جس سے نکلنا محال ہو جاتا ہے۔
مجھے 2012ءکے وہ دن یاد ہیں جب محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کےلئے تشریف لائے۔ ہمیں بھی شرکت کے لیے دعوت نامہ ملا تو برادرِ عزیز عزیز ظفر آزاد کے ساتھ پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب بڑے جذبہ سے خطاب فرما رہے تھے۔ ان کے الفاظ مجھے اب تک یاد ہیں۔ انھوں نے فرمایا،’ایٹمی دھماکہ کرکے ہم نے اپنی دفاعی صلاحیت ثابت کر دی ہے۔ اب ان شاءاللہ دشمن کو کبھی ٹیڑھی نگاہ سے دیکھنے کی جرا¿ت نہ ہوگی۔ اس کے ساتھ ہمیں معیشت کی بہتری اور بالادستی کے لیے کالاباغ ڈیم بنانا ہوگا‘۔ ان کی نظر میں بھی کالاباغ ڈیم ایک ایسا منصوبہ تھا جو پاکستان کی معیشت کی بہتری کے لیے بنیادی حیثیت کا حامل تھا جس سے نہ صرف سستی ترین بجلی کا تحفہ ملتا بلکہ پانی کی فراوانی سے چاروں صوبوں کا کئی ملین ایکڑ رقبہ بھی آباد ہوتا۔ افسوس! ہم نے محسنِ پاکستان کے الفاظ کو بھلا دیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر چیز انسان کے لیے پیدا فرمائی ہے تاکہ وہ ان سے کام لے اور اپنے کام آسان کرے لیکن دو اشیاءکے بارے میں خصوصی پیغام دیا ہے۔ ایک پانی جسے ہر زندہ چیز کا مظہر قرار دیا گیا۔ جس سے انسان ہی نہیں، ہر چرند ، پرند، جنگلی و آبی حیات، نباتات فیض پاتی ہیں۔ ماحولیات کی بہتری بھی پانی کی ہی مرہونِ منت ہے۔ اسی پانی سے جب ہم نے آنکھیں چرائیں اور آبی وسائل کو اپنے ہی لیے متنازعہ بنا لیا تو نہ صرف سستی بجلی ہم سے دور ہو گئی بلکہ دنیا میں اعلیٰ مقام رکھنے والا زرعی ملک پاکستان 9 ارب ڈالر سالانہ کی خوردنی اجناس کی درآمد کرنے پر مجبور ہو گیا۔ دوسری چیزلوہا جسے اللہ جل جلالہ نے قوت کا مظہر قرار دیا اور جس کے بارے میں پوری سورة الحدید نازل فرمائی، کو طاقِ نسیاں پر رکھ کر ذرائع آب کی طرح خط تنسیخ کھینچ دیا۔ باری تعالیٰ فرما تا ہے، ’اور ہم نے لوہے کو اتارا جس میں سخت ہیبت اور قوت ہے اور لوگوں کے لیے اور بھی بہت سے فائدے ہیں اور اس لیے بھی کہ اللہ جان لے کہ اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد بے دیکھے کون کرتا ہے۔ بے شک اللہ قوت والا اور زبردست ہے‘۔ (سورة الحدید آیت 25)
اور رب العزت کے ان دونوں نعمتوں سے ہم کفرانِ نعمت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمارے حکمرانوں، اشرافیہ اور مقتدر حلقوں کو عمل کی توفیق دے۔ آمین!