• news

نواز شریف کی واپسی اور علی امین گنڈا پور ذریعہ مفاہمت!!!!

خبر یہ ہے کہ ریاستی اداروں اور پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کے درمیان اگر کوئی مفاہمتی ذریعہ بن سکتا ہے تو وہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور ہیں۔ اپنی شعلہ بیانی کی وجہ سے خاصی شہرت کے حامل علی امین گنڈا پور نے گذشتہ دنوں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کے ساتھ ایک پریس کانفرنس بھی کی اس پریس کانفرنس سے بھی یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ علی امین گنڈا پور اپنی جماعت کے بانی اور ریاستی اداروں کے مابین تناو ختم کروانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ وفاقی حکومت کے ساتھ بات چیت اور ایس آئی ایف سی کے اجلاس کے دوران اچھے رویے کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یار لوگ ان کے بدلے بدلے رویے پر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ "اچھا بچہ" بن گئے ہیں۔ اعلی سطح کے مختلف اجلاسوں میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا بدلا ہوا رویہ سب محسوس کر رہے ہیں۔ دیکھیں اگر کوئی سیاسی حدود کے اندر رہتے ہوئے آئین و قانون کا سامنا کرتے ہوئے بات چیت کا راستہ کھلا رکھتا ہے بات چیت کرنا چاہتا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے، کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ نو مئی کے مرکزی کرداروں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ ریاست کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو سیاسی رہائی دینا مستقبل میں بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ سیاسی قیادت بات چیت کرے، سیاسی معاملات میں جہاں سیاسی قیادت کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے وہاں تعاون ضرور ہونا چاہیے لیکن جہاں تک نو مئی کو ہونے والی توڑ پھوڑ ، جلاؤ گھیراؤ، نفرت، بغاوت کرنے والوں اور بغاوت کے لیے اکسانے والوں کو سیاسی مفاہمت کے نام پر راستہ دینے کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ ایک مرتبہ پھر لوگوں کو دوبارہ ایسے عمل کی دعوت دے رہے ہیں۔ کیا ملک ایک اور نو مئی کا متحمل ہو سکتا ہے، کیا ملکی تاریخ میں کبھی کسی نے طے شدہ منصوبے کے تحت اپنے ہی دفاعی اداروں پر چڑھائی کی ہے، کیا کسی نے شہدا کی یادگاروں کو نشانہ بنایا ہے، کیا کسی نے سیاسی ناکامی کا ملبہ دفاعی اداروں پر ڈال کر لوگوں کو اپنے محافظوں کے خلاف اکسایا بھڑکایا ہے اگر ایسا کبھی نہیں ہوا تھا تو یاد رکھیں نو مئی 2023 کو ایسا ہوا تھا لیکن اداروں، سٹیک ہولڈرز کی ذمہ داری ہے کہ وہ یقینی بنائیں کہ دوبارہ کوئی ایسا سوچنے کی بھی ہمت نہ کرے۔ شرجیل میمن نے تو بانی پی ٹی آئی پر اسرائیل اور بھارت کی فنڈنگ کا الزام بھی عائد کر دیا ہے۔ سو ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اس ایک مخصوص واقعے کو الگ کر کے ہر قسم کی سیاسی بات چیت ضرور کریں لیکن ریاست مخالف اقدامات اور آج تک اس بغاوت پر قائم رہنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نو مئی کے نامزد ملزمان کو ملک میں نفرت پھیلانے پر کوئی ندامت نہیں ہے۔ بہرحال علی امین گنڈا پور ملک کے ایک صوبے کی وزارت اعلیٰ سنبھالے ہوئے ہیں اگر وہ کسی معاملے میں مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے لیکن وفاقی وزیر داخلہ کے ساتھ پریس کانفرنس کے بعد پی ٹی آئی کے سینئر رہنما حامد خان نے بات چیت کے تاثر کو رد کر دیا تھا۔ سو پی ٹی آئی قیادت کو بھی کسی ایک طرف ہو جانا چاہیے، یہ نہ تو اپنی حکومت میں بروقت بہتر فیصلے کر سکے، نہ اپنے ووٹ کی طاقت کو بہتر استعمال کر سکے اور اب بھی وہ سٹیک ہولڈر ہونے کے باوجود حالات کو بہتر انداز میں سمجھنے سے قاصر ہیں اور اپنی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما سینیٹر حامد خان سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ "وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا امین گنڈاپور کی وفاقی وزرا سے ملاقات آئینی فرائض کے سلسلے میں ہوئی ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پارٹی سطح پر حکومت کے ساتھ کوئی مذاکرات ہو رہے ہیں۔ اس حکومت سے کیا مذاکرات کریں جس نے پی ٹی آئی قیادت کو جھوٹے مقدمات میں پھنسایا ہوا ہے۔ ہم نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہوئی ہے کہ الیکشن کا آڈٹ کرایا جائے، ہمارا چوری کا مال واپس کیا جائے، اس کے بعد مذاکرات ہو سکتے ہیں۔" حامد خان بہت سمجھدار اور تجربہ کار قانون دان ہیں، کافی عرصے سے سیاست بھی کر رہے ہیں کیا وہ اب بھی نہیں سمجھے کہ آگے بڑھنے کا کیا راستہ ہے۔ اگر یہ 2024 کے انتخابات کی بات کریں تو مخالفین 2018 کے انتخابات کے آڈٹ کا مطالبہ کریں گے پھر بات کیسے ختم ہو گی۔ پی ٹی آئی قیادت کا یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے جو ان کی وجہ سے کسی کے ساتھ ہوا یہ اس کو اہمیت نہیں دیتے اور جو ان کے ساتھ ہوا یا نہیں ہوا اس پر ہر وقت الجھتے رہتے ہیں۔ کاش کہ سیاسی قیادت الزامات کے اس کھیل سے نکلے۔ ویسے علی امین گنڈا پور بھی ہیں تو سیاست دان، بند کمروں میں کچھ اور گفتگو کرتے ہیں اور عوامی اجتماعات میں انقلابی بن جاتے ہیں۔ اسلام آباد ہوتے ہیں تو مختلف لہجہ رکھتے ہیں خیبر پختونخوا واپس پہنچتے ہیں تو دھمکیوں پر اتر آتے ہیں۔ سیاست دانوں کا یہ وہ رویہ ہے جس نے ملکی مسائل میں اضافہ کیا ہے کیونکہ یہ ووٹرز کے جذبات سے کھیل کر حقیقی مسائل سے توجہ ہٹاتے ہیں۔ وہ علی امین ہوں یا کوئی اور سب اپنے اپنے ووٹرز کے مزاج کو دیکھتے ہوئے تقریر کرتے ہیں۔
سابق وزیراعظم نواز شریف چھ سال بعد ایک بار پھر پارٹی کے صدر بن گئے ہیں۔ (ن) لیگ کے سابق صدر شہباز شریف کے پارٹی عہدے سے استعفے کے بعد نئے صدر کے چناؤ کے لیے الیکشن ہوا جس میں پارٹی صدر کے عہدے کیلئے نواز شریف کے آٹھ کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے، نواز شریف کے چاروں صوبوں سے الگ الگ کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے۔ خبر یہ بھی ہے کہ میاں نواز شریف بلا مقابلہ اپنی جماعت کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ خواجہ سعد رفیق جنرل سیکرٹری بن سکتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی پارٹی صدر کی واپسی سے واپسی ایک امتحان ہے۔ یہ نہ تو نوے کی دہائی ہے نہ ہی 2000 کی دہائی، آج ملک کو مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ ملکی معیشت ڈوبی ہوئی ہے، آبادی بہت بڑھ گئی ہے، نوجوانوں میں بے چینی ہے، اضطراب ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، سیاسی عدم استحکام میں شدت ہے، رویے تلخ ہو چکے ہیں اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے کروڑوں لوگ روایتی انداز سیاست سے تنگ آ چکے ہیں۔ کروڑوں لوگوں کی زندگی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے، لوگوں کی قوت برداشت جواب دے چکی ہے، کس نے تباہ کیا، کس نے ساتھ دیا، کون ذمہ دار ہے یہ سن سن کر کان پک گئے ہیں۔ اب ان مسائل کے حل اور عام آدمی کی زندگی آسان کرنے کا وقت ہے۔ میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف ملک کے وزیراعظم ہیں، ان کی صاحبزادی ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزیر اعلیٰ ہیں سو سب سے زیادہ ذمہ داری شریف خاندان پر ہی عائد ہوتی ہے۔ 
آخر میں عبید اللہ علیم کا کلام
ہجر  کرتے   یا  کوئی  وصل   گزارا    کرتے
ہم     بہر  حال     بسر    خواب    تمہارا    کرتے
ایک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم
خاک   کو     ہاتھ     لگاتے     تو    ستارا    کرتے
اب  تو  مل   جاؤ   ہمیں  تم  کہ  تمہاری   خاطر
اتنی    دور    آ    گئے    دنیا   سے   کنارا    کرتے
محو   آرائش   رخ    ہے   وہ   قیامت   سر   بام
آنکھ    اگر    آئینہ    ہوتی    تو    نظارا    کرتے
ایک   چہرے  میں  تو  ممکن  نہیں  اتنے  چہرے
کس  سے   کرتے   جو  کوئی عشق  دوبارا   کرتے
جب  ہے  یہ  خان  دل   آپ   کی  خلوت  کے  لیے
پھر   کوئی    آئے    یہاں    کیسے    گوارا    کرتے
کون رکھتا ہے اندھیرے میں دیا آنکھ میں خواب
تیری    جانب    ہی    ترے     لوگ    اشارا   کرتے
ظرف    آئینہ    کہاں    اور    ترا   حسن   کہاں
ہم    ترے    چہرے    سے   آئینہ   سنوارا   کرتے

ای پیپر-دی نیشن