قانون کی حکمرانی نسخہ کیمیاءہے
انتہائی دکھ اور کرب کی بات ہے کہ آج کا پاکستان مختلف نوعیت کی سیاسی سماجی معاشی انتظامی اور روحانی بیماریوں میں مبتلا ہو چکا ہے- یہ بیماریاں ہر روز پیچیدہ ہوتی جا رہی ہیں- پاکستان کے سنجیدہ دانشور متفق ہیں کہ یہ بیماریاں قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں-ورلڈ رول آف لاء انڈکس کے مطابق قانون کی حکمرانی کے سلسلے میں پاکستان کا شمار دنیا کے 140 ممالک میں سے 129 پر ہوتا ہے- گویا دنیا کے 131 ممالک قانون کی حکمرانی کے حوالے سے پاکستان سے آگے ہیں- جن ملکوں میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی وہاں پر ناانصافی بددیانتی ملاوٹ مہنگائی جرائم عروج پر ہوتے ہیں-جس ملک کے بارے میں عالمی سطح پر یہ تاثر پیدا ہو جائے کہ وہاں پر قانون کی کوئی حکمرانی نہیں ہے اور لوگ انصاف کو ترستے ہیں تو ایسے ممالک میں بیرونی سرمایہ کار سرمایہ کاری پر آمادہ نہیں ہوتے بلکہ اندرونی سرمایہ کار بھی اپنا سرمایہ اپنے ملک کے اندر انویسٹ کرنے کی بجائے بیرونی ملکوں میں لے جاتے ہیں-ایک مصدقہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں جو سرمایہ کاری ہوئی ہے وہ گزشتہ 50 سال سے کم ترین سطح پر ہے-حالانکہ عسکری اور سیاسی قیادت نے پرجوش اور سرگرم کوششیں کی ہیں کہ بیرونی دوست ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ ہو جائیں-
ہم پاکستان میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے اور عدل و انصاف قائم کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتے اس لیے ہماری کوششیں بار آور ثابت نہیں ہوتیں- ہمیں عالمی سطح پر پاکستان کا چہرہ پرکشش بنانا پڑے گا-پاکستان میں قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے عالمی سطح پرہمارے پاسپورٹ کی ساکھ بھی بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے-جب لوگوں کو یہ علم ہو کہ پاکستان میں قانون کی علمداری نہیں ہے تو وہ بلا خوف و خطر قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں-جن ملکوں میں شہریوں کو یہ یقین ہو کہ اگر وہ قانون توڑیں گے تو ان کو سزا سے کوئی نہیں بچا سکے گا وہاں پر گورننس بھی بہتر ہوتی ہے اور جرائم کی شرح بھی بہت کم ہوتی ہے-
قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے ریاست کی پولیس فرعون بن جاتی ہے ایسا تھانہ کلچر پیدا ہوتا ہے کہ تھانے عقوبت خانے بن جاتے ہیں-پولیس کے آفیسر جرائم کو ختم کرنے کی بجائے جرائم کو پروموٹ کرنے لگتے ہیں - جھوٹے مقدمات اور جھوٹی گواہیوں کی وجہ سے عدل وانصاف کا نظام ہی برباد ہو جاتا ہے-جس سماج میں قانون پر عمل درامد نہ کرنے کا کلچر جڑ پکڑ جائے تو ایسے کلچر سے تمام شہری اور ریاستی ادارے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے-
قانون کی عملداری کے بارے میں سب کا یقین متزلزل ہو جاتا ہے اور وہ کھلم کھلا قانون کی خلاف ورزیاں شروع کر دیتے ہیں-سرکاری ملازمین اور عدلیہ کے جج اپنے فرائض آئین اور قانون کے مطابق ادا نہیں کرتے-قانون شکن معاشرے میں کبھی امن و امان قائم نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی لوگوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جا سکتا ہے اور شہریوں کے معیار زندگی کو بھی بہتر نہیں کیا جا سکتا-جس ریاست میں قانون کی حکمرانی نہ ہو وہاں کی جمہوریت بھی مادر پدر آزاد ہو جاتی ہے-ایسی جمہوریت جو آئین اور قانون کی پابند ہی نہ ہو وہ سیاسی اور معاشی استحکام کبھی پیدا نہیں کر سکتی-ایسی جمہوریت میں جو لوگ منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں وہ بھی پارلیمنٹ کے اندر کھلم کھلا آئین قانون اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیاں کرتے نظر آتے ہیں-
آئین اور قانون کی حکمرانی سے عاری ملکوں پر اعتماد نہیں کیا جاتا بلکہ ان پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں جن سے ان کی معیشت متاثر ہوتی ہے- آئین اور قانون پر عمل درامد نہ ہونے کی وجہ سے ریاستی اداروں کے درمیان تصادم کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے-قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے میڈیا کو بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے-ایسے حالات میں ٹیکس جمع کرنا، بجلی کی چوری روکنا، ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ پر قابو پانا ممکن نہیں رہتا اور سارا بوجھ عوام کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے-
جن ملکوں میں قانون کی حکمرانی ہو وہاں پر کرپشن کی شرح بہت کم ہوتی ہے جبکہ ایسے ممالک جن میں آئین اور قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی وہاں پر کرپشن بھی عروج پر پہنچ جاتی ہے-کرپشن کرنے والے جانتے ہیں کہ قانون ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا اور وہ سرمائے کے زور پر اپنے خلاف بننے والے تمام مقدمات بھی ختم کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے- آئین اور قانون کی عملداری نہ ہونے کی وجہ سے احتساب کا عمل بھی مایوس کن رہتا ہے- ایسے سماج میں احتساب شفاف اور یکساں ہو ہی نہیں سکتا- احتساب کو سیاسی انتقام کی شکل دے دی جاتی ہے-لاقانونیت پر مبنی معاشروں میں انسانی حقوق کا احترام ہی نہیں کیا جاتا بلکہ ان کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں-
آئین اور قانون کی عملداری نہ ہونے کی وجہ سے چونکہ ریاست میں سازگار ماحول ہی پیدا نہیں ہوتا لوگ انصاف سے محروم رہتے ہیں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہوتی ہے جان و مال کا کوئی تحفظ نہیں ہوتا لہٰذا ایسے تشویش ناک ماحول میں قدرتی نتیجہ برین ڈرین کی صورت میں نکلتا ہے - پڑھے لکھے لوگ ملک میں نہیں رہنا چاہتے اور وہ ملک سے باہر جانے کی تگ ودو میں لگے رہتے ہیں-پاکستان کے باشعور لوگ جو محب وطن اور عوام دوست ہیں وہ اس بات پر متفق ہیں کہ جب تک پاکستان میں آئین اور قانون کی عملداری کو یقینی نہیں بنایا جاتا پاکستان کبھی قومی بیماریوں سے نجات نہیں پا سکے گا لہذا قانون کی حکمرانی ہی ایک ایسا نسخہ کیمیا ہے کہ جس پر عمل کر کے ہم اپنے مسائل مشکلات اور مصائب سے نجات حاصل کر سکتے ہیں-اس سلسلے میں ابتدا ان لوگوں کو کرنی پڑے گی جو سب سے زیادہ طاقتور ہیں-اگر پاکستان کے صدر وزیراعظم چیف جسٹس پاکستان اور آرمی چیف یہ فیصلہ کر لیں کہ وہ ہر صورت قانون کی اور آئین کی عملداری کو یقینی بنائیں گے تو یہ نسخہ کیمیا پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے-