• news

پاکستان ریلوے کا سفر

بات کسی سرکاری ادارے کی ہو تو ہو نہیں سکتا کہ زبوں حالی کی کوئی داستان ا±س سے جڑی ہوئی نہ ہو۔ پاکستان ریلوے کی داستان بھی ایک ایسی ہی داستان ہے جو 76سال گزرنے کے باوجود اپنی بربادی پر نوحہ کناں ہے۔
پاکستان ریلوے کا جال تمام ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ مختلف روٹس کے لیے مختلف لائنیں ہیں۔ اس کا نیٹ ورک مین اور بہت سی برانچ لائنوں میں تقسیم ہے جبکہ صدر دفتر پنجا ب کے کیپیٹل لاہور میں ہے۔ ریلوے پاکستان بھر میں 7,791کلومیٹر (4,650 میل) آپریشنل ٹریک کا مالک ہے۔ اس میں 1,043کلومیٹر ڈبل ٹریک بھی ہے جبکہ 285 کلومیٹر ٹریک برقی حصے پر مشتمل ہے۔ پاکستان ریلوے کے فعال اسٹیشنوں کی تعداد 625ہے جو مال برداری اور مسافروں کے لیے خدمات پیش کرتے ہیں۔ ٹرینوں کی رفتار زیادہ سے زیادہ 120 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ 1947ءمیں قیام پاکستان کے بعد ریلوے ویسٹرن ریلوے کہلاتی تھی۔ ریلوے کا یہ نام 1974ءتک برقرار رہا، پھر اسے پاکستان ریلوے کا نام دے دیا گیا۔ 
ریلوے کا آغاز 13مئی 1861ءمیں ا±س وقت ہوا جب کراچی سے کوٹری تک 169کلومیٹر ریلوے لائن کا افتتاح کیا گیا۔ 24اپریل 1865ءکو لاہور سے ملتان ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کھولا گیا جبکہ 6اکتوبر 1876ءکو دریائے راوی، چناب اور دریائے جہلم پر ریلوے پلوں کی تعمیر مکمل ہوئی۔ جس کے بعد لاہور، جہلم ریلوے کو بھی کھول دیا گیا۔ پھر یہ سلسلہ کبھی نہیں رکا۔ تمام شہروں کو ایک دوسرے سے ملانے کے لئے ریلوے ٹریک کا جال ہر جگہ بچھا دیا گیا تھا۔ جس سے مال برداری اور مسافروں کے آنے جانے میں بہت آسانی ہو گئی۔
اٹک پل پاکستان میں ایک ایسا پل ہے جو سڑک اور ریلوے دونوں کے لیے کام دیتا ہے۔ اس پل کا افتتاح 24مئی 1883ءکو ہوا۔ یہ پل دو منزلہ ہے۔ بالائی منزل ٹرینوں کے لیے استعمال کی جاتی تھی جبکہ زیریں منزل گاڑیوں کی آمدورفت کے لئے وقف تھی۔ اب یہ پل صرف ٹرینوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ گاڑیوں کی آمدورفت کے لیے اس مقام پر ایک نیا پل تعمیر کر دیا گیا ہے۔یہ بھی واضح رہے کہ ریلوے کے تمام ٹریک پرانے اور بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ جس کے باعث متعدد بار کئی خوفناک حادثے بھی پیش آ چکے ہیں جن میں جانی اور مالی دونوں نقصان ہوئے۔ ریلوے حادثوں کی ایک لمبی فہرست ہے جسے بیان کرنا شاید میرے لئے ممکن نہ ہو۔
پاکستان میں ریل کی نقل و حمل کا آغاز 1885ءمیں برطانوی دورِ حکومت میں ہو گیا تھا۔ جب کئی ریلوے کمپنیوں نے موجودہ پاکستان میں ٹریک بچھانے کا کام شروع کیا۔ ریلوے کا یہ نظام اصل میں مقامی ریلوے لائنوں کا ایک پیچ ورک تھا۔ جو چھوٹی نجی کمپنیوں کے ذریعے چلایا جاتا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد جب ریلوے ویسٹرن ریلوے بن گیا تو ریل کے سسٹم کو مزید منظم کیا گیا۔ 1948ءکے اوائل میں ریل کے استعمال میں خاصا اضافہ ہو چکا تھا۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ریل کا سفر عام مسافروں کے لیے سب سے سستا سفر تصور کیا جاتا تھا۔ تاہم 90ءکی دہائی میں مسافروں کی گرتی ہوئی تعداد اور بہت زیادہ مالی نقصانات نے ریلوے کو بہت سی برانچ لائنوں اور چھوٹے اسٹیشنوں کو بند کرنے پر مجبور کر دیا۔ اسی دہائی میں کارپوریٹ بدانتظامی اور ریلوے سبسڈی میں شدید کٹوتیاں دیکھنے میں آئیں۔ 
پاکستان ریلوے اس وقت زبوں حالی اور بدانتظامی کے انتہائی ب±رے دور سے گزر رہی ہے۔ ایک سابق دورِ حکومت ایسا بھی گزرا ہے جس میں خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے سیاستدان کو ریلوے کا وزیر بنایا گیا جس نے ریلوے کو ذاتی منفعت کے لیے استعمال کیا۔ اس وفاقی وزیر کا پورے پاکستان میں گڈز کا کاروبار تھا۔ ٹرالے بھی چلتے تھے۔ وزیر موصوف نے اپنی گڈز انڈسٹری کو فائدہ پہنچانے کی خاطر ریلوے کی مال گاڑیوں سے ہر قسم کی کارگو بند کر دی جس سے ریلوے کروڑوں روپے کے سالانہ خسارے میں چلی گئی۔ میڈیا میں خبریں آئیں ، ایشو کو ہائی لائٹ کیا گیا لیکن نوٹس لینے والا کوئی نہیں تھا۔ ریلوے یا کوئی سرکاری محکمہ جب کسی لالچی اور مفاد پرست کے ہاتھ لگ جائے تو یہی حال ہو گا ، جو ہم نے دیکھا اور دیکھ رہے ہیں۔
بنگلہ دیش ہمارے بعد آزاد ہوا۔بھارت، سری لنکا اور نیپال بھی ہمارے جیسے ملک ہیں۔ لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہاں ریلوے کا نظام ب±را اور ناکارہ ہے۔ بنگلہ دیش نے تو اپنا ٹرین سسٹم بہت بہتر کر لیا ہے۔ کسی بنگلہ دیشی ٹرین میں بیٹھ جائیں ، بالکل بھی نہیں لگے گا کہ آپ تھرڈ کنٹری کے کسی ملک کی ٹرین میں سفر کر رہے ہیں۔ نیٹ پر میں نے بنگلہ دیشی ٹرینوں کی کچھ تصاویر اور ویڈیوز دیکھی ہیں جو اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ بنگلہ ٹرینیں تمام تر سہولتوں سے آراستہ و پیراستہ اور نہایت آرادم دہ ہیں۔
پاکستان ریلوے نے بہت سے تجربے کئے۔ بزنس ٹرین چلائی لیکن تمام تر سہولتوں اور آرائشوں کے باوجود یہ بزنس ٹرین بالآخر ناکام ہوئی۔ ناکامی کی کیا وجوہات تھیں، ریلوے آج تک اس کا تعین نہیں کر سکی۔پاکستان ریلوے کا کارگو سسٹم بھی کچھ اتنا موثر نہیں کہ لوگ ”کارگو“ کے لیے اسے ترجیح دیں۔ سیاسی بنیادوں پر ریلوے میں ضرورت سے زیادہ لوگ بھرتی کئے گئے ہیں۔ افسران کے بھی شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ ہیں۔ جنہیں ریلوے کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ پاکستان ریلوے کو ریلوے یونین نے بھی اس حالت تک پہنچایا ہے۔ کسی ادارے میں یونین بن جائے تو قسم کھا لی جاتی ہے کہ تنخواہیں ضرور لینی ہیں لیکن کام نہیں کرنا۔ ہرکمائی والے ادارے کی طرح ریلوے میں بھی مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ موجود ہے۔ تاسف ہے وہ ریل کی ترویج کے لیے نہیں سوچتا اور کوئی ایسی منصوبہ بندی نہیں کرتا کہ پاکستان ریلوے دنیا کی بہترین ریلوے بن سکے۔ دنیا نے ایئر لائن اور ریلوے کی صنعت میں اپنے معیارات قائم کئے ہیں جس کے باعث بیرونی ملکوں کی ایئر لائن اور ریلوے منافع بخش ادارے بن چکے ہیں۔ لیکن ہم ہیں کہ ہمارا ریلوے کا نظام دن بدن بیٹھتا جا رہا ہے۔ قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کو نجی سیکٹر میں دینے کی بات ہو رہی ہے کیونکہ اس کا سالانہ خسارہ اربوں میں ہے۔ یہاں بھی سیاسی بھرتیاں ہیں اور ملازم ضرورت سے زیادہ بھرتی کئے گئے ہیں جبکہ پاکستان ریلوے کا حال بھی پی آئی اے جیسا ہی ہے۔ اس سے پہلے کہ ادارے نجی سیکٹر کے ہتھے چڑھ جائیں اس کی ترویج و ترقی اور اسے منافع بخش بنانے کے لیے کچھ راستے نکالنے ہوں گے تاکہ پاکستان ریلوے زبوں حالی کے اس گرداب سے باہر نکل سکے اور تباہ ہونے سے بچ جائے۔

سعد اختر

سعد اختر

ای پیپر-دی نیشن