پارلیمنٹ اور عدلیہ کے معاملات
پارلیمنٹ میں عدلیہ کے ججز کے بارے میں بحث ہو رہی ہے۔ ججز کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ججز کی خفیہ کیمروں سے مانیٹرنگ ہو رہی ہے۔ اہم کیسز کی عدالتوں میں سماعت بھی چل رہی ہے۔ حکومتی اراکین پارلیمنٹ اور خفیہ ایجنسیوں کے بارے میں حساس نوعیت کے ریمارکس بھی آرہے ہیں۔ بظاہر ماحول ایسا نظر آرہا ہے کہ جلد کچھ ہونے جا رہا ہے۔ پارلیمنٹ عدلیہ بارے کیا اقدام کرنے جا رہی ہے یا عدلیہ اہم کیسز میں کیا فیصلے کرنے جا رہی ہے۔ لیکن محاذ آرائی کی کیفیت کو ہر کوئی محسوس کر رہا ہے اس کے پس پردہ کیا معاملات چل رہے ہیں، اس بارے ہم اپنے قارئین کو واضح طور پر تو کچھ بتانے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ ہمیں سوشل میڈیا جیسی آزادی حاصل نہیں۔ ہم ایک ذمہ دار میڈیا کا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن بعض تاریخی حقائق آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قومی اتحاد بنوانے میں ملکی وغیرملکی قوتوں کاہاتھ تھا۔ انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنا اور تحریک چلانے تک کو سہولت کاری میسر تھی۔
ڈالروں کی بھی بہتات تھی، مذہب کا خوب استعمال کیا گیا۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قومی اتحاد کے لیڈروں اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان کئی بار معاملات طے کرنے پر اتفاق رائے ہوا لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی ایسی اڑیچ ڈالی گئی کہ سب کچھ ملیا میٹ کر دیا گیا کیونکہ سیاسی معاملات طے کروانا مقصود نہ تھا۔ پھر ہم نے 1988ءمیں دیکھا کہ پنجاب اور مرکز میں خوفناک محاذ آرائی کا آغاز ہوا حالانکہ کوئی ایسے حالات نہ تھے کہ سیاست کا پارہ اتنا ہائی کیا جاتا لیکن اس محاذ آرائی کے پیچھے معاملات کچھ اور تھے لہذا ملک وقوم نے اس کے اثرات بھگتے۔ ہم نے چار حکومتیں ان ہی لڑائی جھگڑوں کی نذر کر دیں۔
میاں محمد نواز شریف اور غلام اسحاق خان دونوں ایک ہی کشتی کے سوار تھے لیکن دونوں میں نہ جانے کیونکر اختلافات پیدا ہوئے کہ نوبت سپریم کورٹ پر حملہ تک جا پہنچی۔ سردار فاروق احمد خان لغاری بےنظیر بھٹو کے سگے بھائیوں سے بڑھ کر تھے۔ نہ جانے وہ کون سے عوامل تھے جنھوں نے سردار فاروق احمد خان لغاری کو بےنظیر کی مخالفت میں لاکھڑا کیا اور پھر اسی ورکر نما بھائی نے بےنظیر کی حکومت کو چلتا کیا۔ ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ جب بھی سیاست میں ایک حد کو عبور کر کے ذاتی دشمنیوں پر اترا جاتا ہے تو اس کے پیچھے خوفناک عزائم ہوتے ہیں۔ کبھی ہم پیپلزپارٹی کو فارغ کرنے کی جدوجہد کا حصہ ہوتے ہیں تو کبھی میاں نواز شریف اور کبھی بانی پی ٹی آئی کو سبق سیکھانا مقصود ہوتا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں بھی الاماشاللہ ایسی ہیں ہرکوئی شوق شوق سے استعمال ہونے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے اور وقت گزرنے کے بعد کہتے ہیں کاش اس وقت ہم نے درست فیصلے کیے ہوتے۔ ایک وقت کے ذاتی دشمن جب ہوش آنے پر سنبھلتے ہیں تو باہم شیروشکر ہو کر مشترکہ جدوجہد بھی کرتے ہیں لیکن وقت پر ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر کسی کی بات سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ سیاستدان یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں لیکن بنیادی غلطیاں سیاستدانوں کی ہی ہیں۔ اگر وہ شارٹ کٹ کی بجائے پراسس پر یقین رکھیں تو کبھی بھی سیاست کو ایسے دن نہ دیکھنے پڑیں جب سیاستدان بےبس اور مجبور ہو کر سب کچھ کر گزرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ معاملات اور سیاسی حالات میں ابتری لانے میں بنیادی کردار تو مخالف سیاسی جماعتوں کا ہی ہوتا ہے لیکن اس میں ادارہ جاتی محاذ آرائی کا بھی اہم عمل دخل ہوتا ہے۔ آج کل پھر معاملات سیاستدانوں سے ہوتے ہوئے اداروں تک جا پہنچے ہیں۔
ایسے لگ رہا ہے جیسے عدلیہ اور پارلیمنٹ میں بالادستی کی جنگ جاری ہے حالانکہ کچھ عرصہ قبل ہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب اس معاملہ کو حل کر چکے۔ انھوں نے پارلیمنٹ اور عدلیہ بارے اپنے فیصلوں کے ذریعے معاملات حل کر دیے تھے لیکن نہ جانے پھر کیونکر ایسے حالات پیدا کر دیے گئے کہ آجکل پھر تکلیف دہ تلخیاں محسوس کی جا رہی ہیں۔ حکومت سمجھتی ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور اس کی جماعت کو عدالتوں سے سزا نہ ملنا ہمارے عدالتی نظام کی خامیاں ہیں جبکہ عدالتیں سمجھتی ہیں کہ کیس کو اسٹیبلش کرنا، تحقیقات کرنااور پراسیکیوشن۔ سارا کچھ حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے اور کسی بھی ملزم کو جرم ثابت کیے بغیر زیادہ دیر تک قید رکھنا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ حکومت ایک طرف پورے ذوق وشوق سے تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو دوسری طرف حکومتی حلقوں کی خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح تحریک انصاف کے ساتھ ایسی لڑائی شروع ہو جائے کہ پس پردہ معاملات یہیں رک جائیں۔ آجکل اداروں میں جاری محاذ آرائی سیاست کی مشکل ترین چالیں نہ جانے حالات اور ملک کو کس طرف لے جائیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ:
”آپو اپنی پے چکی اے۔ جاگدے رہنا ساڈے تے نہ رہنا“۔