ہمارا سرکاری دفتری نظام اور موسمیاتی تبدیلیاں
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ سال 2022ء میں آنے والے سیلاب نے ملک کے چاروں صوبوں میں، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کیا۔ اس سیلاب کی وجہ سے اس قدر جانی و مالی نقصان ہوا کہ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے خود پاکستان آئے۔ اپنے اس دورے کے موقع پر انھوں نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ وہ سیلاب سے ہونے والے نقصان کے ازالے کے لیے پاکستان کی بھرپور مدد کرے۔ اس اپیل کا بین الاقوامی برادری پر کیا اثر ہوا یہ تو ایک الگ موضوع ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیاں جو سیلاب اور ایسے ہی دیگر مسائل کو جنم دے رہی ہیں ان پر قابو پانے کے لیے پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں کیا کررہی ہیں۔
سیلاب سے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی پاکستان کے لیے نئی بات نہیں۔ ایسا کئی بار ہوچکا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پاس تمام ریکارڈ موجود ہے کہ کب کس سیلاب نے کتنے علاقے پر کتنی تباہی مچائی اور اس سے کتنا جانی و مالی نقصان ہوا۔ اسی ریکارڈ کی بنیاد پر ان حکومتوں کو یہ بھی پتا ہے کہ کون سے علاقے بار بار سیلاب کی زد میں آتے ہیں۔ اس سب کے باوجود سیلاب سے ہونے والے نقصانات سے بچاؤ کے لیے ایسے ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے جن کی مدد سے حقیقی طور پر نقصان پر قابو پانے میں مدد مل سکے۔ اگست 2007ء میں قومی سطح پر پاکستان نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے بعد صوبائی سطح پر پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز (این ڈی ایم ایز) بھی قائم کی گئیں۔ ان اداروں کے قیام کا ایک اہم مقصد قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان سے بچاؤ کے لیے اقدامات کرنا ہے۔
قدرتی آفات کی کئی قسمیں ہیں۔ اس وقت پاکستان کو جن قدرتی آفات کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے وہ ایسی ہیں جو انسانوں کے غلط اقدامات کا نتیجہ ہیں۔ دنیا کے کئی اہم ادارے بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ سیلاب جیسی قدرتی آفات جن موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں ان پر قابو پانا ممکن بھی ہے اور ناگریز بھی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان اداروں کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹوں اور ہدایات کو نظر انداز کر کے مسلسل بڑے پیمانے پر ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جو ماحول اور موسم دونوں کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس نقصان کی قیمت صرف انسان ہی نہیں بلکہ کرہ ارض پر بسنے والے تمام جاندار ادا کررہے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کی طرف سے اس نقصان کے بارے میں بات تو ضرور کی جاتی ہے لیکن اس کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج اس وقت دنیا میں موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی سب سے بڑی وجہ ہے اور اس اخراج میں سب سے زیادہ حصہ چین اور امریکا کا ہے اور ان دونوں کے بعد تیسرا نمبر بھارت کا ہے۔ انتونیو گوتریس بھی 2022ء میں اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر یہ کہہ چکے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی شکل میں ترقی یافتہ ممالک کے اقدامات کی قیمت ترقی پذیر ممالک ادا کررہے ہیں۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مذکورہ اخراج میں ہر ملک اپنا حصہ بقدرِ جثہ ڈال رہا ہے۔ اس اخراج میں عالمی سطح پر پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن یہ اتنا کم نہیں ہے کہ اسے نظر انداز کردیا جائے، اور پاکستان کو ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جن کی مدد سے اس حصے میں کمی لائی جاسکے۔ ساتھ ہی ساتھ وسیع درجے پر شجر کاری کے ذریعے اس اخراج کے منفی اثرات پر قابو پانے کی بھی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں آج بھی سرکاری دفاتر کا روایتی نظام رائج ہے، یعنی وہاں کاغذ اور فائل کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا میں بہت سے ممالک اس نظام سے جان چھڑا چکے ہیں اور دیگر بہت سے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ہر لکھی ہوئی بات کاغذ پر منتقل کرنے سے نجات پا لی جائے۔ کاغذ کے استعمال سے گریز کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اسے بنانے کے لیے درخت کاٹنے پڑتے ہیں اور پھر مشینوں کے ذریعے اسے بنانے کے عمل میں جو ایندھن خرچ ہوتا ہے وہ بھی عالمی حدت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ کاغذ جب استعمال ہی کم ہوگا تو اس کی طلب میں کمی کے باعث رسد بھی گھٹ جائے گی۔ یوں نہ تو اس کام کے لیے درخت کاٹنے پڑیں گے اور نہ ہی مشینیں چلانے اور ایندھن جلانے کی ضرورت پیش آئے گی۔
اس حوالے سے پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے کرنے کا کام یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں تمام سرکاری ملازمین کے زیادہ سے زیادہ کاموں کو کاغذوں اور فائلوں سے نکال کر کمپیوٹر میں لے آئیں۔ ایک ہی سرکاری ملازم سے مختلف اوقات میں ایک ہی طرح کے کاغذات کی کئی کئی نقول طلب کرنا اور مختلف دفتروں اور الماریوں میں ان کی موٹی موٹی فائلیں بنا کر رکھتے جانا وقت، توانائی اور پیسے کا ضیاع بھی ہے اور اس سب کی وجہ سے موسم اور ماحول بھی بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ اگر یہ سب کچھ کمپیوٹر پر ہورہا ہو تو نہ کاغذات اور فائلیں محفوظ کرنے کے لیے بڑے بڑے کمروں اور الماریوں کی ضرورت پیش آئے گی اور نہ ہی ان پر وقت، توانائی اور پیسہ ضائع ہوگا۔ علاوہ ازیں، سرکاری ملازمین اور دفاتر کی کارکردگی میں بھی مثبت تبدیلی آئے گی جس کے فوائد صرف سرکاری ملازمین تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ عوام بھی اس سے مستفید ہوسکیں گے۔