خوئے سلطانی: مودی چار سو پار
مسلم لیگ ن کے انٹرا پارٹی الیکشن میں میاں نواز شریف کو پارٹی صدر منتخب کر لیا گیا۔2017ء تک وہ پارٹی صدر تھے پھر عدالت کی طرف سے نا اہلیت کی بنا وزارت عظمیٰ کے منصب اور لیگی صدارت سے جاتے رہے۔ وہ موسم کوئی اور تھا اب رْت بدل گئی ہے۔ حق بہ حقدار رسید۔
میاں نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بننے جا رہے تھے مگر انکار کر دیا یا ہو گیا۔ دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا۔ میاں صاحب نے دو نشستوں سے الیکشن لڑا مانسہرہ سے ہار گئے۔ لاہور سے جیتے۔ جسے مخالفین کھل کر اور کچھ حامی دبے لفظوں میں فارم 47کا کرشمہ کہتے ہیں۔ شہباز شریف لیگی صدر تھے اور وزیر اعظم ہیں۔ مسلم لیگ کے اندر اور باہر سب فیصلے میں نواز شریف کی ہدایات احکامات اور مشاورت سے ہوتے ہیں۔ وہ وزیر اعظم نہ ہو کر بھی وزیر اعظم پر بھاری ہیں۔ مسلم لیگ ن کے صدر نہ ہوتے تو بھی ان کے اختیارات اور اعتبارات میں کمی نہیں ہونی تھی۔ اگر معاملہ حکومتی اور پارٹی عہدے الگ الگ کرنے کی طرف لے جانا ہے تو یہ بہتر فیصلہ ہے۔ مسلم لیگ ن کے صدر بن کر ان کو ایک مصروفیت مل گئی ہے۔ایسی مصروفیات شہنشاہ ہند شاہجہاں کو بھی درکار تھیں۔ اورنگزیب عالمگیر نے شاہ جہان کو معزول کرکے پورے احترام کے ساتھ آگرہ قلعہ میں قید کردیا۔عالمگیر نے اپنے والد سے کوہ نور ہیرا طلب کیا، لیکن شاہ جہان نے کہا کہ وہ اس ہیرے کو پسواکر سفوف بنادے گا، لیکن جیتے جی یہ ہیرا اورنگریب کے حوالے نہیں کرے گا۔ اْدھر جوں جوں قید تنہائی میں وقت گزرنے لگاتو شاہ جہان کے کس بل بھی نکلتے چلے گئے۔ کہاں پورے ہندوستان کی شہنشاہی اور کہاں آگرہ کی قیدتنہائی ، نتیجہ یہ نکلا کہ تقطیر البول اوراسہال خونی میں مبتلا معزول شاہ جہان جلد ہی اس قید سے اکتا گیا اور اسے شاہی دربار کی رونق اور اپنا شاہی جلال رہ رہ کر یاد آنے لگا۔ شاہ جہان نے خدمت پر ماموراپنی صاحبزادی کے ذریعے عالمگیر کو پیغام بھجوایا کہ قید میں وقت کٹتا نہیں اور دل لگتا نہیں، اگر اسے کچھ بچے بھجوادیے جائیں تو وہ انہیں پڑھا بھی لیا کرے گا اور اس کا دل بھی لگا رہے گا، شاہ جہان نے عالمگیر کو خوش کرنے کیلئے اس موقع پر کوہ نور ہیرا بھی دربار میں بھجوادیا۔ شاہ جہان کی یہ خواہش دربار تک پہنچی تو عالمگیربولا ’’گویا والد صاحب اب بچوں کے سامنے اپنا دربار لگایا کریں گے، افسوس سلطنت جاتی رہی اور تاج و تخت چھن گیا، لیکن والد صاحب کی خوئے سلطانی نہیں گئی‘‘۔اورنگزیب کوہ نور ہیر ے کی چمک دمک دیکھ کر مسکرایااور امراء کے بچے پڑھنے کیلئے آگرہ قلعہ روانہ کردیے۔
میاں صاحب نے پارٹی صدر منتخب ہونے کے بعد اپنے خطاب میں واجپائی کا تذکرہ کیا کہ وہ لاہور آئے پاکستان بھارت تعلقات بہتر ہو رہے تھے۔مودی نواز تعلقات بھی گرم جوشی پر مبنی تھے مگر مودی کا میاں صاحب کے خطاب میں تذکرہ شاید بے محل ہوتا۔آج نریندر مودی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے تیسری بار وزیر اعظم بنتے نظر آ رہے ہیں اور اب شاید پہلے دو انتخابات کے مقابلے میں مزید بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کریں۔ دو تہائی سے بھی بڑھ کر یا کم از کم دو تہائی تو کہیں نہیں گئی۔ بی جے بی کا انتخابی مہم میں سلوگن تھا اب کی بار چار سو پار، یعنی اس مرتبہ بی جے پی کا ٹارگٹ 543 میں سے4 سو سے زائد نشستیں حاصل کرنے کا ہے۔ مودی نے چائے والے سے ہندوستان کے چودھری ہونے کا سفر طے کیا۔ دو مرتبہ وزیر اعظم بنے تیسری بار بھی امکان نظر آ رہا ہے۔ مودی کی کامیابی کا راز ان کے ہاتھ آنے والا پاکستان اور مسلمان دشمنی کا ہتھیار ہے۔ یہ ماضی میں نہرو خاندان اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی بھی استعمال کرتے رہے مگر جس مہارت اور بے دردی سے نریندر مودی نے استعما ل کیا اس کی شدت نے انہیں شدت پسندوں کی آنکھ کا تارا بنا دیا۔ پاکستان اور مسلمانوں سے نفرت میں شدت پسند ہر ہندو فروعات کو نظر انداز کر کے مودی کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ متشدد ہندو مودی کو مسلمانوں سے نجات دلانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان کو لگتا یہی ہے کہ وہ سورما ہے جو مسلمانوں سے ہزاروں سال کی غلامی کا حساب چکتا اور پاکستان کو تباہی سے دوچار کرسکتا ہے۔مودی نے جہاں بھارت کے سیکو لر سٹیٹ ہونے کے تصور کو تباہ کر کے اسے ہندو شدت پسند سٹیٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔ وہیں بھارت کو ترقی سے بھی ہمکنار کرا دیا ہے۔ وہ اپنی معیشت کا موازنہ پاکستان سے شروع کر کے برطانیہ تک لے جاتے ہیں۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر11ارب ڈالرز کے مقابلے میں بھارت کے چھ سو ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔ برطانیہ عالمی رینکنگ میں چوتھے نمبر پرتھا۔ بھارت اس کی جگہ لے چکا ہے۔ مودی کے ادوار میں غربت کم ہوئی ہے۔ لوگوں کی زندگی آسان ہوئی ہے۔ ہر سال10لاکھ بھارتی غیرہنرمند بیرون ممالک چلے جاتے ہیں۔
چارجون کو بھارت میں ہونے والے مرکزی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہو رہا ہے۔ بھارت میں چھتیس ریاستیں یا صوبے ہیں ان میں قبائلی علاقے بھی شامل ہیں جن کو یونین ٹیریٹری کا نام دیا جاتا ہے۔ان چھتیس صوبوں میں ڈیڑھ ماہ میں انتخابات ہوتے ہیں۔انتخابات کا سلسلہ سات مراحل پر مشتمل ہے۔پہلا مرحلہ سے 19 اپریل سے شروع ہوتا ہے۔ ساتواں یکم جون کو اختتام پذیر ہوتا ہے۔ صوبائی یا ریاستی اسمبلیوں کے الگ سے الیکشن ہوتے ہیں۔ ان کا مرکزی الیکشن سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ انتخابات الیکڑانکس ووٹنگ مشین کے ذریعے ہوتے ہیں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کرانے کا سلسلہ 1982ء سے جاری ہے۔ ایک کروڑ سے زائد تارکین وطن بھی ووٹ کاسٹ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
مودی کی بی جے پی کے مقابلے میں کانگریس تین میں نظر آتی ہے نہ تیرہ میں۔ 2019ء کے انتخابات میں بی جے پی نے 303 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ کانگرس کو صرف 52 نشستیں ملی تھی۔ووٹر کی عمر 18 سال رکھی گئی ہے جبکہ الیکشن لڑنے کے لیے امیدوار کا 25 سال کا ہونا لازمی ہے۔حکومت سازی کے لیے پانچ سو 43 میں سے 272 نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔مودی اور ان کی پارٹی کی لیڈرشپ کا دعوی ہے کہ وہ 400 سے زیادہ نشستیں آسانی کے ساتھ حاصل کر لیں گے۔