بانی تحریک انصاف کی نقصان کے "ازالے" کی کوشش۔
عاشقان عمران خان اپنے قائد کو بہت سادہ شمار کرتے ہیں۔ ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے لیکن میں ان کا بطور سیاستدان 1996ء سے بغور جائزہ لینے کو مجبور تھا اور میرا مشاہدہ ان کے حوالے سے پنجابی کا وہ محاورہ یاد دلاتا ہے جو ایک سادہ دکھتی دوشیزہ کو بالآخر یہ اعلان کردینے کو اکساتا ہے کہ وہ ’’بھولی تو ہے مگر اتنی بھی نہیں‘‘۔
بدھ کی سہ پہر سے بانی تحریک انصاف کے حوالے سے یہ فقرہ یاد آئے چلاجارہا ہے۔ ٹی وی شو کی تیاری میں مصروف تھا تو خبر ملی کہ اڈیالہ میں قید بانی تحریک انصاف نے عالمی سطح پر جانے پہچانے اور ’’باغیانہ روش‘‘ کے حامل صحافی -مہدی حسن- کو ایک انٹرویو دیا ہے۔ ظاہر ہے مذکورہ انٹرویو بالمشافہ ملاقات کی بدولت نہیں ہوا۔ مہدی حسن نے لکھے ہوئے چند سوالات قیدی نمبر804کو کسی طرح پہنچادئے۔ قیدی نے ان کے جواب لکھے یا اپنے کسی ملاقاتی کو لکھوائے۔ جو اب تیار ہوکر مہدی حسن کو بھجوادئے گئے تو اس نے وضاحتوں کے لئے مزید سوالات بھجوائے یا نہیں؟ اس کے بارے میں راوی خاموش ہے۔
تفصیلات میں الجھنے کے بجائے مذکورہ انٹرویو کے کلیدی پیغام پر توجہ دیتے ہیں۔ میری دانست میں ’’کلیدی پیغام‘‘ اس سوال کے جواب میں موجود ہے جو مہدی حسن نے سادہ ترین الفاظ میں پوچھا تھا۔ وہ جاننا چاہ رہا تھا کہ بقول عمران خان کے ’’دہشت گردوں کے لئے مختص‘‘ حصے میں رکھے قیدی نمبر 804اپنی مشکلات کا حقیقی ذمہ دار کسے شمار کرتے ہیں۔ قائد تحریک انصاف کو مذکورہ سوال کا جواب دینے کے لئے تین نام بھی دئے گئے۔ ان کے ’’سیاسی مخالفین‘‘ کے علاوہ امریکہ اور پاک فوج کا نام بھی اس ضمن میں پیش ہوا۔ اپریل 2022ء سے سائفر کہانی کی بنیاد پر امریکہ کو پاکستان میں ’’رجیم چینج‘‘ کا ذمہ دار ٹھہرانے والے عمران خان نے مگر اپنے جواب میں یہ الزام فراموش کردیا۔ پاک فوج کو بھی بطور ادارہ اپنی مشکلات کا ذمہ دار قرار دینے سے گریز کیا۔ صرف اور صرف قمر جاوید باجوہ کا نام لیا اور مصر رہے کہ ان کو مشکلات سے دو چار کرنے والی گیم قمر جاوید باجوہ ہی نے نہایت ’’باریک بینی‘‘ سے لگائی تھی۔
قمر جاوید باجوہ کو ذمہ دار ٹھہرانے والے حصے کو میں نے تین بار غور سے پڑھا۔ عاشقان عمران سے جان کی امان پاتے ہوئے عرض کروں گا کہ اس حصے کو پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں انگریزی کا ایک لفظ آیا اور وہ تھا "Damage Control"یہ لفظ اس خواہش کیلئے استعمال ہوتا ہے جو آپ کسی غلطی کے ازالے کیلئے بروئے کار لا تے ہیں۔
میرے ذہن میں آئے خیال کو رد یا قبول کرتے ہوئے آپ کو یاد رکھنا ہوگا کہ چند ہی روز قبل عمران خان سے منسوب ایک پیغام سوشل میڈیا پر مقبول ترین رہا۔ اب ایکس کہلاتے پلیٹ فارم کے ذریعے بانی تحریک انصاف نے حمود الرحمن کمیشن کی یاد دلائی جو 1970ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے مشرقی پاکستان کی ہم سے جدائی کے اسباب ڈھونڈنے کیلئے تشکیل دیا تھا۔ حمود الرحمن کمیشن اپنی تحقیقات کے دوران اس حقیقت سے بے خبر رہا کہ ’’وقت کرتا ہے پرورش برسوں-حادثہ ایک دم نہیں ہوتا‘‘۔ اس نے تمام تر توجہ 1970ء کے انتخابات کے بعد لئے فیصلوں پر مرکوز رکھی۔
یوں ساری توجہ ان دنوں کے فوجی آمر یحییٰ خان اور موصوف کے قریبی ساتھیوں کے رویے کی جانب مرکوز ہوکر رہ گئی۔ اس کے انجام پر پیغام یہ ملا کہ جنرل یحییٰ پاکستان میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوئے پہلے الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے۔ شیخ مجیب ان نتائج کی بدولت اکثریتی جماعت کے قائدبن کر ابھرے تھے۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ انہیں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال کر دستور سازی کا عمل شروع کرنے کی دعوت دی جاتی۔ معاملہ مگر اتنا سادہ بھی نہیں تھا۔ شیخ مجیب نے1970ء کا انتخاب 6نکات کا نعرہ بلند کرتے ہوئے جیتا تھا۔ اس کی قیادت میں پاکستان کیلئے جو سیاسی بندوبست طے ہوتا وہ ان دنوں کے مشرقی پاکستان کو تقریباََ خودمختار ملک بنادیتا۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے مابین ایک ہزار میل کا فاصلہ ہونے کی وجہ سے شاید مشرقی پاکستان کی زیادہ سے زیا دہ خودمختاری برداشت کی جاسکتی تھی۔ مطلوب خودمختاری اس کے بعد مگر مشرقی پاکستان تک ہی محدود نہ رہتی۔ مغربی پاکستان کے بلوچستان، سندھ، پنجاب اور ان دنوں سرحد کہلاتے صوبے بھی اپنے لئے ویسی ہی ’’خودمختاری‘‘ کا تقاضہ کرتے اور یوں پاکستان کی وحدت مسلسل خطروں سے دوچار رہتی۔
بہرحال محض جنرل یحییٰ کی ذات اور فیصلوں پر توجہ مرکوز رکھنے کی وجہ سے حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کی بدولت سادہ اور سازشی داستان یہ پھیلی کہ وہ فوجی آمر نہ صرف اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ ذاتی حوالوں سے سنسنی خیز حد تک قومی بحران کے سنگین ترین دنوں میں بھی کامل عیاشی میں مصروف رہا۔ تاریخی حوالوں سے محمد شاہ رنگیلا والا رویہ جو ’’دلی دور است‘‘ کہتے ہوئے درباری زندگی کی رنگینیوں میں محو رہا تھا۔
اس سوال کا جواب ابھی تک ڈھونڈ نہیں پایا ہوں کہ مئی 2024ء کے آخری ہفتے میں عمران خان کو 1970ء کی دہائی میں قائم ہوئے حمود الرحمن کمیشن کی یاد کیوں ستائی۔ اس کا حوالہ دیتے ہوئے وہ ’’غدار کون؟‘‘ والا سوال اٹھانے کو مجبور کیوں ہوئے۔ یہ سوال اٹھاتے ہوئے اپنی تصویر کے ساتھ ریاست کے ایک طاقتور ترین منصب دار کی تصویر چسپاں کرنا بھی کیوں ضروری محسوس کیا۔ وجہ جو بھی رہی ہو۔ قیدی نمبر804کو حمود الرحمن کمیشن کی یاد ستائی تو ان کے مداحین وپرستاروں نے سوشل میڈیاپر’’عوامی مینڈیٹ کے منکر‘‘ افراد واداروں کے خلاف مذمتی پیغامات کا طوفان برپا کردیا۔ یوں محسوس ہوا کہ ’’دورِ حاضر کا شیخ مجیب‘‘ عوام کو ریاستی قوت کے اجارہ داروں کے خلاف ’’آخری معرکہ‘‘ کے لئے تیار کررہا ہے۔
یہ پیغام اجاگر ہوا تو تحریک انصاف کے صدر بنائے بیرسٹر گوہر خان مدافعانہ انداز اختیار کرتے ہوئے یہ کہانی پھیلانے کو مجبور ہوئے کہ ان کے جیل میں قید ہوئے رہ نما کو اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس پر کامل کنٹرول میسر نہیں۔ اس سوال کے جواب دینے سے اگرچہ قاصر رہے کہ اگر وہ درست ہیں تو مذکورہ پیغام کا اصل مصنف کون تھا۔ انگریزی محاورے والا "Damage" ہوگیا۔ میری دانست میں مہدی حسن کو دئے انٹرویو کے ذریعے بانی تحریک انصاف نے نقصان کے ازالے کی کوشش کی ہے۔ قمر جاوید باجوہ کو اپنی حکومت کے زوال اور موجودہ دنوں کی مشکلات کا یک وتنہا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے وہ ریاست کے مقتدرہ اداروں اور ان کی موجودہ قیادت کو سفید جھنڈا دکھاتے ہوئے مذاکرات کے طلب گار سنائی دئے۔ دیکھتے ہیں ’’وہ‘‘ کیا لکھتے ہیں جواب میں۔