اندیشہ نہیں ہے، پلاننگ ہے صاحب!۔
جس طرح کئی لوگوں کو دولت اچانک ملتی ہے اور بعض کو نرالے ڈھنگ سے ملتی ہے، ویسے ہی ماجرا شہرت کا بھی ہے۔ ایک ’’نیو کلاسیکل" مثال پی ٹی آئی کے رہنما رئوف حسن کی ہے۔ چند ہفتے پہلے تک آپ پی ٹی آئی کے غیر معروف ترین رہنمائوں میں سرفہرست تھے حالانکہ آپ نے متعدد بار شہرت کے منچ پر آنے کیلئے سرتوڑ کوششیں کیں۔ ایک بار چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو گالیاں دینے کیلئے پریس کانفرنس کی۔ خاصی دیر گالیاں دیتے رہے۔ پی ٹی آئی نے ان کی یہ پریس کانفرنس سو طرح سے سوشل میڈیا پر ڈالی۔ سنگین ’’سپارک‘‘ نہ ہو سکا۔ پھر آرمی چیف کے خلاف پہلے سے بھی زوردار پریس کانفرنس کی، لوگوں نے سنا، کچھ تنقید وغیرہ بھی کی لیکن نظرانداز کر دیا گیا۔ کوئی اور ہوتا تو پکڑ لیا جاتا اور یوں شہرت مل جاتی لیکن یہ موقع بھی ہاتھ سے گیا۔ اور پھر اچانک شہرت چھپر پھاڑ کر آئی اور برسر سڑک آئی۔ ان کا آمنا سامنا خواجہ سرائوں کے ایک گروپ سے ہو گیا جس کی ویڈیو ایسی وائرل ہوئی کہ اگلے پچھلے سارے شکوے دور ہو گئے۔ خواجہ سرائوں نے آپ کے لب و رخسار پر نذرانہ ہائے عقیدت ثبت کئے لیکن چوٹ آپ کو کمر اور ٹانگوں پر لگی اور آپ دو دن تک ویل چیئر پر پھرتے رہے۔ اس ’’پیرا نارمل‘‘ نتیجے کو بھی شہرت ملی۔
تو نئے نئے شہرت یافتہ ر ئوف حسن نے کل پھر ایک پریس کانفرنس کی جو پوری کی پوری قومی الیکٹرانک میڈیا پر چلی لیکن اخبارات میں اس کا پورا متن نہ آ سکا۔ یہ اپنی جگہ حیرت افزا ماجرا ہے۔ پریس کانفرنس پاکستان کے بارے میں ’’شہد‘‘ سے بھری تھی، شاید اخبارات کے صفحات اس قدر زیادہ شہد کا تحمل نہیں کر سکتے ہوں گے۔ چنانچہ میں بھی اس کی تفصیل بتانے کے بجائے ایک یا دو سطر کا خلاصہ بیان کرنے پر اکتفا کروں گا۔ آرمی چیف کو جی بھر کر ملّاحیاں سنانے کے بعد انہوں نے سقوط ڈھاکہ کا اعادہ ہونے کی دھمکی دی پھر دو خبریں سنائیں۔ ایک یہ کہ اس وقت بلوچستان آزاد کشمیر اور گلگت کے حالات بہت خراب ہیں جبکہ ’’کے پی‘‘ تو اون دی ورج ہے یعنی وہ تو بس الگ ہونے ہی والا ہے اور دوسری خبر یہ دی کہ کیا مستقبل کا پاکستان صرف دو صوبوں یعنی سندھ اور پنجاب تک محدود ہو گا۔ مطلب یہ کہ کے پی تو ’’اون دی ورج‘‘ ہے ہی، یہ باقی تین مذکورہ علاقے بھی پاکستان سے الگ ہو جائیں گے۔
_____
کوئی اتنی بھی نئی بات انہوں نے نہیں کی اگرچہ اس میں کچھ نئے پہلو انہوں نے اضافہ کئے ہیں۔ پاکستان کے تین ٹکڑے ہو جائیں گے، رئوف حسن کے گرو جی یہ بات دو سال سے مسلسل کر تے آ رہے ہیں۔ پاکستان کے تین ٹکڑے کرنے کے علاوہ وہ فوج کے بھی تین حصے ہو جانے کی خبر دیتے رہے ہیں۔ ایک بار انہوں نے پاکستان پر ایٹم بم گرانے کی خواہش بھی ظاہر کی اور یہ اظہار ازراہ تفنن نہیں تھا لیکن پی ٹی آئی کے کسی رہنما کی طرف سے مستقبل کا نقشہ اتنا کھول کھول کر پہلے کسی نے پیش نہیں کیا تھا جس طرح رئوف حسن نے پیش کیا۔
گلگت کا معاملہ اس سے کافی پرانا ہے۔ جب سے سی پیک کی بات چلی ، تب سے ہے۔ امریکہ اور بھارت کا ’’قومی‘‘ اتفاق رائے ہے کہ یہ چھوٹا سا علاقہ پاکستان سے الگ کر دیا جائے تو چین کو بحرہند کے سارے علاقے سے کاٹا جا سکتا ہے، سی پیک کا تو پھر سوال ہی کہاں رہے گا۔ تازہ معاملہ یہ ہے کہ خان صاحب مہاراج نے جو چار جماعتی اتحاد بنایا ہے اور جسے انہوں نے چھ جماعتی اتحاد کا نام دیا ہے ، اس میں ایک جماعت ایسی ہے جو گلگت تک محدود ہے اور جس کے لوگ گلگت کو الگ کرنے، اسے بھارت سے ملانے کا مطالبہ کرتے یا دھمکی دیتے رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اب بھی یوٹیوب پر موجود ہے۔ اگر یہ محض اتفاق ہے تو بڑا ہی منفرد اتفاق ہے۔
کے پی کے میں ان دنوں کچھ لوگ جو اپنا تعلق ایک ’’آزادی پسند انقلابی پارٹی‘‘ سے چھپاتے نہیں ہیں، یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ پختونوں کے دو ملک ہوں گے۔ ایک افغانستان، دوسرا پشتونستان جو کے پی کے، شمالی بلوچستان، پنڈی، اٹک اور میانوالی کے اضلاع پر مشتمل ہو گا اور گلگت بھی اس کا حصہ ہو گا۔ یہ لوگ اس پشتونستان کے نقشے بھی اٹھائے پھرتے ، دیواروں پر اسے چسپاں کرتے اور تقسیم کرتے نظر آتے ہیں۔ نقشے کے ایک کونے میں بڑی عقیدت کے ساتھ ’’گریٹ خان‘‘ کی تصویر بھی حاشیے میں سجا رکھی ہے۔ ایک سال پہلے تک ’’اکھنڈ افغانستان‘‘ کی بات ٹی ٹی پی کی طرف سے کہی جاتی تھی، ایسا افغانستان جس کی سرحد دریائے سندھ تک (لیکن اسلام آباد سمیت) ہو گی اور کوئٹہ ، چمن ، پشین کے علاقے بلکہ چاغی بھی اس کا حصہ ہو گا۔ اب کچھ عرصہ سے ٹی ٹی پی اکھنڈ افغانستان کی بات نہیں کرتی، موخر الذکر وہ ترمیم شدہ منصوبے کی بات کرتی نظر آتی ہے یعنی ’’ایک پیج‘‘ پر ہے۔
’’سقوط ڈھاکہ ‘‘ پھر سے ہونے کی سنائو نیاں بھی ایک دم تیز ہو گئی ہیں، ہر انٹرویو، ہر ٹاک شو، ہر ٹویٹ، ہر پوسٹ پر پی پی آئی کے مردان انقلاب یہی بات کرتے نظر آتے ہیں۔
رئوف حسن نے پیرایہ اندیشے کے اظہار کا رکھا ہے لیکن صاف نظر آ رہا ہے کہ ع:
اندیشہ نہیں ہے ، پلاننگ ہے صاحب۔