روس۔چین دوستی کے فائدے
دہائیوں قبل عالمی اُفق پر دو تسلیم شدہ سُپر پاورز موجود تھیں دنیا واضح طور پر دو بلاکس میں منقسم تھی تب سے لمحہ حاضر کے حالات کے پس منظر ۔ تمام رونما ہوچکے حالات کی تصویر میں جو ممالک ”روس“ کے ساتھ کھڑے رہے اُنھوں نے بے پناہ فوائد سمیٹے ۔ جنگی سازو سامان کا آسانی کے ساتھ حصول ۔ معاشی ترقی کے اہداف مکمل ۔ فنی تعلیم میں عروج ۔ روس نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مخلص ساتھی کا سلوک کیا۔ کم ہی ہوگا کہ کبھی کِسی سے ناراض ہوا یا اُس کو دھمکایا ۔ مسلسل دباو¿ میں رکھا۔ اُس پر کوئی پابندیاں لگائیں جبکہ ”امریکہ“ کاساتھ دینے والے کم ہی اپنے پاو¿ں پر کھڑے ہو پائے ۔ دنیا کی اکثریتی حصہ کو بارودخانہ بنانے میں زیادہ سرگرم کردار ادا کیا۔ دنیا کو ایسے تصادم ۔ تنازعات۔ عصیبتوں میں دھکیلا جو آج بھی نہ صرف لا یخل ہیں بلکہ مزید تباہی کا باعث بنیں گے۔
دو اعلان شدہ عالمی طاقتوں کی جاری گرم و سرد جنگ کے دوران معاشی و سیاسی لحاظ سے کمزور ایک قوم نے خاموشی کے ساتھ اپنے اندر کی خامیوں ۔ کمزوریوں کو جہد مسلسل ۔ استقامت ۔ بھرپور عمل کے ذریعہ ایک مضبوط معاشی قوت میں بدل ڈالا ۔ ”20سال“ تک بیرونی معاملات سے لاتعلق رہنے والی چینی قوم ایک ایسی عظیم قوت بن کر اُبھری کہ بڑی قوتیں دنگ رہ گئیں ۔ افغان جنگ کے بعد مختصر عرصہ کے لیے روس اپنے اندرونی مسائل کے باعث بیرونی معاملات سے لاتعلق ہوا تو اِس خلا کو تب واحد موجودہ قوت نے انہتائی من پسند ۔ جابرانہ طریقوں سے پُر کیا۔
”آج کے حالات“
مسلسل چھٹی میعاد کے لیے صدر منتخب ہونے کے بعد” صدر پیوٹن“ نے پہلے بیرونی دورے کے لیے چین کا ارادہ کیا۔ ماضی کے ایک وقت کے مضبوط دوست ۔ مختصر عرصہ کی مخالفت کے بعد دونوں پھر ایک سٹینڈ پر نظر آتے ہیں۔ دونوں وسیع البنیاد اسٹرٹیجک تعاون کے لیے بھر پور عمل پیرا ہیں ۔ عصرِ نو کی عالمی مخدوش تصویر کے تناظر میں اِس دورہ سے کچھ ممالک بے حد پریشان ہیں ۔ اِس اعلان کے باوجود بقول ”صدر پیوٹن“ روس چائنا تعلقات کِسی کے خالف نہیں بلکہ دنیا میں استحکام کی علامت ہیں ۔اب مستقبل کی نقشہ بندی اِس دورہ کی غیر معمولی اہمیت ظاہر کرے گی۔ چین عالمی طور پر تسلیم شدہ اقتصادی قوت ہے جبکہ روس ایک وقت میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے طور پر تاریخ کا حامل ہے۔ چین نے کِسی بھی تنازعہ کے وقوع پذیر ہونے پر مسئلہ کے حل کے لیے ہمیشہ مذاکرات کی راہ دکھائی ۔باہم متحارب فریقین کو اکٹھا کیا ۔ حالیہ سال میں ایران ۔ سعودی عرب کی تاریخی صلح سب سے بڑا ثبوت ہے۔ صرف ریاستیں ہی نہیں بلکہ ہر دو ممالک کے عوام بھی خوشحال ۔ تعلیم یافتہ اور اپنے حکمرانوں سے مطمن ہیں ”صدر شی جن پنگ اور صدر پیوٹن“ ۔ مضبوط لیڈرز ۔ عوام میں مقبول اور عوامی فلاح کے منصوبوں کے کامیاب عملی تخلیق کار ہیں۔ بہت مختصر عرصہ قبل ”ماسکو“ میں ”عالمی یوتھ سمٹ“ کا کامیاب انعقاد بہت بڑی کامیابی تھی۔ ”20ممالک “ سے 20ہزار نوجوانوں کی بھر پور شرکت ۔ یوکرین سے جاری جنگ کے باوجود یوتھ کا بڑے پیمانے پر سمٹ میں شرکت اور اِس موقع کے لیے خاص طور پر بنایا گیا شہر ۔ یقینا با وسائل ۔ اہل اقوام ہی مواقع کا انتخاب اور فنی و تعلیمی میلے سجانے کی اہلیت رکھتی ہیں۔
اقوام متحدہ ۔ برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے بین الاقوامی کثیر الجہتی فورمز پر دونوں ممالک کو عالمی امن کے قیام ۔ چھوٹے ممالک کی ترقی میں موثر کردار ۔ غریب ممالک کو قرضوں کے جنگل سے نجات دلانے کے لیے قابل عمل ٹھوس حل تلاش کرنا چاہیں عالمی برادری کو ذِمہ داری کے مظاہر اقدامات اُٹھانے اور منصفانہ معقول ۔ عدل پسند عالمی گورننس نظام کے قیام کو فروغ دینا اولین توجہ میں رکھنا چاہیے ۔ دنیا کو اِسوقت جنگیں نہیں معاشی تحفظ ۔ امن درکار ہے۔ تصادم کبھی بھی امن پسند اقوام کا انتخاب نہیں رہا اس خواہش کے باوجود امن ۔ آزادی کے نام پر دنیا کے غالب حصہ کو توپ و تفنگ کی بُو سُنگھائی گئی ۔ خود مختاری کی آڑ میں علاقے ہتھیائے گئے ۔ قدرتی وسائل پر جبراً قبضہ گیری کی سینکڑوں مثالیں ہیں ۔ ہر قوم کا آزادی کے ساتھ جینے کا حق تسلیم کر کے ہی امن قائم کرنا ممکن ہوگا۔ ”کشمیر۔فلسطین“ انسانی احترام کی پامالی ۔ حقوق تلفی ۔ جانوں کے ناروا اتلاف کی دوبڑی تکلیف دہ تصویریں امن قائم کرنے کے اعلان پر قائم ہونے والے”
اداروں“ کی دیواروں پر ٹنگی انصاف۔ عدل کی منتظر ہیں ۔ بلاشبہ اخلاص کے ساتھ بات چیت کا عمل کامیاب ہو سکتا ہے بڑی طاقتوں کو اپنے وسائل ۔ رقبہ ۔ اہلیت۔ طاقت کے حساب سے امن کے عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرانے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے تبھی ہم اچھی فضا ۔ اُمید اور خوشحالی کی توقع باندھ سکتے ہیں۔
رواں سال چین اور روس کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی ”75ویں “ سالگرہ منائی جارہی ہے۔ چین اور روس کے تعلقات ایک صدی کے تین چوتھائی عرصے سے گزرے اور بین الاقوامی تبدیلیوں کے امتحان پر پورا اترے ہیں جس نے بڑے ممالک اور ہمسایوں کے درمیان باہمی احترام ۔ ہم آہنگی اور باہمی فائدے کی مثال قائم کی ہے۔ ”چینی صدر“ نے نشاندہی کی کہ گزشتہ برسوں کے دوران ان کی ”صدر پوٹین“ سے چالیس سے زائد مرتبہ ملاقات ہوئی ہے۔ دونوں سربراہان نے قریبی رابطہ برقرار رکھا ہے اور چین روس تعلقات کی مثبت۔مستحکم اور ہموار ترقی کو یقینی بنانے کے لیے اسٹریٹجک رہنمائی فراہم کی ہے۔ آج چین روس تعلقات جس سطح پر ہیں وہ سخت محنت کا نتیجہ ہیں اور یہ دونوں فریقوں کی طرف سے قدر کے مستحق ہیں۔ چین روس تعلقات کی مسلسل ترقی نہ صرف دونوں ممالک اور ان کے عوام کے بنیادی مفادات کے مطابق ہے بلکہ خطے اور دنیا بھر میں امن ۔ استحکام اور خوشحالی کے لیے سازگارہے۔ نئے سفر میں چین روس کے ساتھ ایک اچھے شراکت دار کے طور پر کام کرنے ۔ دونوں ممالک کے عوام کی دوستی کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے۔ مشترکہ طور پر ایک دوسرے کی ترقی اور احیا ءکے حصول اور دنیا میں عدل و انصاف کو برقرار رکھنے کے لیے مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے۔ روسی وزیر خارجہ سر گئی لاوروف کا کہنا تھا کہ روس اور چین کی باہمی تجارت میں اب ایک ڈالر بھی استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس وقت 90فیصد سے زائد سودے دونوں ممالک کی قومی کرنسیوں میں کیے جاتے ہیں ۔ مغربی ممالک کی جانب سے اسے روکنے کی مسلسل کوششوں کے باوجود روس چین کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعاون فعال طور پر ترقی کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ چند سال قبل روس چین نے تجارتی معاملات میں ڈالرز کے استعمال میں کمی لا کر اپنی کرنسی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کا فیصلہ کیا تھا۔
کئی دیگر ممالک کے درمیان بھی اِس نوعیت کے معاہدے ہوئے مگر عمل کم ہوا۔ شنید ہے کہ مستقبل میں بڑے ممالک کے مابین اِس طرز کے تاریخی فیصلے طے پا رہے ہیں یا پا چکے ہیں۔اِس نوع کے کِسی بھی اقدام کا مقصد کِسی کی نفی یا راہ روکنا نہیں ہونا چاہیے ہاں البتہ ”اجارہ داری“ کا خاتمہ عزم ہو۔ مسلط شدہ یک طرفہ فیصلوں کا انسداد مقصود ہو۔ بین الاقوام اِس طرح کی پالیسیاں موثر سہولتوں ۔ آرام کا باعث بنتی ہیں ۔ سرحد جُڑے ممالک کے مابین بارٹر سسٹم فروغ پانا چاہیے ۔ معاشی بگاڑ کا سب سے بڑا عنصر دو یکسر کرنسیوں کا باہم تبادلہ بنتا ہے۔ تب جب ایک کرنسی انتہائی کمزور اور دوسری انتہائی مضبوط ہو۔
حالیہ دنوں ”امریکی صدر“ بائیڈن نے بڑا اچھابیان دیا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر ”امریکہ“ ”بڑے بھائی“ کاکردار ادا کرے تو دنیا میں امن کا قیام تو یقینی ہوگامزید براں عالمی برادری ایک امن پسند ”بڑے بینر“ کے تلے پناہ معاشی فوائد سمیٹ سکے گی اور انگنت صنعتی ترقی کے مواقع پیدا ہونگے۔ باہم تبادلہ سے دنیا بھر کی اقوام اپنے شہریوں کے لیے لاتعداد ملازمتوں کے گراف کو بلند ہوتا دیکھ سکے گیں۔ کل کا امن آج ”بڑی طاقتوں“ کے بروقت ۔ عملی پر عادلانہ ۔ منصفانہ فیصلوں سے جُڑا ہوا ہے ۔ لمحہ موجود میں چند ایک کو چھوڑ کر پوری عالمی برادری مظلوم فلسطینوں کے حق میں نہ صرف آواز بلند کر رہی ہے بلکہ انتہائی خوش آئیندبات ہے کہ بڑے ممالک ”فلسطین “ کو بطور ایک آزاد۔ خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے اعلانات کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔”مقبوضہ کشمیراور فلسطین“ دنیا بھر کے لیے امن کے لیے خطرے کی علامت بن چکے ہیں اِس خطرے کودانشمندی حق انصاف۔ عدل کے ساتھ ٹالنا ہوگا۔ ہر ”دو اقوام“ کو آزادی سے جینے کا حق دیدیں ۔ تمام اندیشے ۔ خدشات ۔خطرات از خود اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ اب بڑی طاقتور اقوام لازمی طور پر دنیا کو درپیش سنگین اقتصادی و سیاسی مسائل ۔ امن پر لٹکتی تلواریں ہٹانے واسطے ضرور متحد ۔متفق ہونے جارہی ہیں۔احساسات سب کے جاگ چکے ہیں بس اب عملی ۔دیرپا ۔مفید نتائج کے حامل فیصلوں کا ہونا باقی ہے۔