ایس آئی ایف سی کے خلاف پراپیگنڈا اور حقائق
انسانی تاریخ میں بادشاہتوں ، ملکوں ، قوموں اورقبیلوں کے درمیان جتنی جنگیں قدرتی وسائل ، اناج غلہ اور مال و دولت کے لیے لڑی گئی ہیں کسی اور مقصد کے لیے کم ہی لڑی گئی ہونگی۔
پچھلے بیس تیس سالوں میں عراق ، شام ، لیبیا ، افغانستان ، یوکرائن پر مسلط کی گئی جنگوں کا مقصد بھی کہیں سے تیل تو کہیں سے کوئی اور دولت چھیننے کے لیے ہی ثابت ہوا ہے۔ کہیں کیمیکل ہتھیاروں کیخلاف نعرہ لگا کر جنگ مسلط کی گئی تو کہیں جمہوریت کا نعرہ لگا کر ملک تباہ کردیے گئے۔ غزہ پر قیامت توڑنے کے پیچھے بھی علاقے کو ہتھیانے اور تجارتی راستے آسان بنانے کا ہی معاملہ بتایا جا رہا ہے۔
پہلے یہ جنگیں طاقتور ملک کمزور ملکوں پر مسلط کرتے تھے لیکن اب دنیا کی بڑی بڑی سرمایہ پرست قوتیں یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ کس ملک کے وسائل کس طرح سے ایکسپلائٹ کرنے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر دنیا کو سود پر قرضے بیچنے والے ادارے اس وقت سب سے زیادہ طاقتور تسلیم کیے جا رہے ہیں۔ انکے پیچھے بینکوں ، ملٹی نیشنل کمپنیوں ، آ?ل اینڈ گیس ، سونا ، کان کنی کرنے والی کمپنیوں ، فارماسیوٹیکل کمپنیوں اور ” مشروبات“ کی کمپنیوں کے مالکان ہیں۔
پاکستان کے حالات سمجھنے کے لیے یہ سب کچھ سمجھنا اشد ضروری ہے کہ ان بین الاقوامی تجارتی اور فنانشل قوتوں کے نزدیک پاکستان ایک تو اپنی جغرافیائی پوزیشن کے حوالے سے بہت اہم ہے اور دوسرا سود پر مجبوراً پیسے ادھار لینے والا ایک گاہک بھی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام جو اس وقت پوری دنیا پر مسلط ہے اسکے پنجے پوری دنیا کے نرخرے میں اتنی گہرائی تک اترے ہوئے ہیں کہ عام آدمی اس کا تصور تک نہیں کرسکتا۔ آپ خود سوچیں کہ آخر کیا وجہ ہے جب بھی پاکستان معاشی خود مختاری کے ٹریک پر چڑھنے لگتا ہے اس کے پیروں کے نیچے سے سیڑھی کھینچ لی جاتی ہے۔ آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ ہمارے یہاں میڈیا پر بیٹھے مخصوص ماہرین اس پرائیوٹائزیشن کو عبادت بنا کر پیش کرتے ہیں اور جلد از جلد اثاثے فروخت کرنے کے لیے حکومت پر اس طرح دباﺅ ڈالتے نظر آتے ہیں جیسے ان کی ڈیوٹی لگائی گئی ہو۔ یہ پرائیویٹائزیشن جس کا مطلب دراصل ملک و قوم کے اثاثے کسی پرائیویٹ کاروباری کمپنی کو فروخت کرکے اس سے پہنچنے والا فائدہ ملک کی عوام کی بجائے کسی پرائیوٹ کمپنی کو پہچانا ہے اور یہ یقینی بنانا ہے کہ پرائیویٹ کیے جانے کے بعد کمپنی وہ سہولت اپنی مرضی کے منافع پر انہیں لوگوں کو بیچ سکے جن سے ہتھیائی گئی تھی ۔ آئی پی پیز یعنی بجلی بنانے والی کمپنیوں کی مثال آپ کے سامنے ہے کہ جو بجلی ہم استعمال بھی نہیں کرتے یہ ہماری ہڈیوں میں سے اسکے پیسے بھی نکال لیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کمپنیوں کے زیادہ تر مالکان ہمارے سیاسی لیڈرز ہیں یا پھر ان کے عزیز و اقارب ہیں۔
آج کل آپ نے دیکھا ہوگا کہ پاکستان سٹیل مل اور پی آئی اے جیسے منافع بخش ادارے کیسے نیچے گرے اور حکمرانوں کے اثاثے کس تیز رفتاری سے اوپر اٹھے۔ پہلے اداروں کو برباد کیا گیا اور اب ان پر برائے فروخت کا بورڈ لگا دیا گیا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے تربیت یافتہ ماہرین اقتصادیات اور تجزیہ کار اس طرح جلد از جلد پرائیوٹائز کرنے پر زور دے رہے ہیں جیسے اگر یہ اثاثے اونے پونے داموں بیچ نہ دیے گئے تو پاکستان معاشی طور پر تباہ ہوجاے گا۔
اسی طرح ملکوں کو سود پر قرضے دینے والے ادارے پہلے ملکوں کو غریب کرتے ہیں تاکہ ان کو سود کے جال میں جکڑسکیں۔ ان کے پاس کسی بھی ملک کی معیشت تباہ کرنے کے بڑے چوکس طریقے ہیں۔ یہ کبھی دہشت گردی کروا کے تو کبھی سیاسی بحران پیدا کرکے یا پھر جنگیں مسلط کرکے ملکوں کی معیشت تباہ کرتے ہیں ، پھر ان پر تجارتی پابندیاں لگاتے ہیں پھر انہیں بلیک اور گرے لسٹوں میں ڈالتے ہیں اور پھر کہتے ہیں اب قرضے نہ لیے تو ڈیفالٹ ہوجاو¿ گے اور اگر ڈیفالٹ ہوگئے تو دنیا کا کوئی ملک آپ سے تجارت نہیں کرے گا۔ لہٰذا اگر زندہ رہنا ہے تو ہماری شرائط پر قرضے خریدو۔ شرائط کیا ہوتی ہیں عوام کا قیمہ کترا کرنے اور ہڈیاں چبانے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ پیٹرول مہنگا کرو نہیں تو قرضہ نہیں ملے گا ، بجلی مہنگی کرو نہیں تو قرضہ نہیں ملے گا ، زندگی کی ہر سہولت یعنی کفن سے لیکر قبر تک ہر شے پر ٹیکس لگاﺅ ، کسی کو آسانی سے سانس بھی نہ لینے دو ورنہ قرضہ نہیں ملے گا۔ اگر لوگ گزارا کرنے کے لیے سولر لگا رہے ہیں تو اس پر بھی ٹیکس لگا کر ان کی زندگی عذاب بنا دو۔ جو جو کاروبار چل رہا ہے اس پر اتنا ٹیکس لگاﺅ کہ لوگ کاروبار کرنا خود ہی چھوڑ دیں۔
یہ اتنے گھناﺅنے ہیں کہ قرضہ دے کر ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سے بس ہماری پچھلی قسطیں ادا کرو اور خبردار اگر کسی پیداواری منصوبے پر پیسہ خرچ کیا تو۔ ورنہ اگلی قسط نہیں ملے گی۔ کہتے ہیں اکنامک گروتھ نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس سے مہنگائی بڑھے گی اور یہ نہیں بتاتے کہ ٹیکس پر ٹیکس ، ٹیکس پر ٹیکس لگانے سے اور ڈالر مصنوعی دباﺅسے بھی مہنگائی بڑھتی ہے۔ حالانکہ ہمیشہ اکنامک گروتھ ہی سے معیشت میں استحکام آتا ہے۔ لیکن یہ ظالم جھوٹ نہ صرف بولتے ہیں بلکہ ثابت بھی کر دکھاتے ہیں۔ ان کی ریٹنگ کمپنیاں ، اکنامک ریویوز ، سروے اور رپورٹس وہ حربے ہیں جن سے یہ غریب ملکوں کی حکومتوں کو مفلوج بناتے ہیں۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ عین اس وقت ایس آئی ایف سی کے خلاف رپورٹس آنا شروع ہوئی ہیں اور پورے ملک میں پراپیگنڈا شروع کیا گیا ہے جب ایس آئی ایف سی اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی نظر آئی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تربیت یافتہ ماہرین اچانک پاکستان میں انویسٹمینٹ کی ریشو تاریخی طور پر اتنی کم سطح پر پہنچی بتا رہے ہیں جتنی ذوالفقار علی بھٹو کے پرائیویٹ انڈسٹری کو قومیانے کے وقت گری تھی۔ بھئی یہ کیا تجزیہ ہوا یعنی جب ذوالفقار علی بھٹو نے سرمایہ دارانہ نظام کے چ±نگل سے ملک و قوم کی گردن نکالنے کے لیے اقدامات کیے تو آپ کے سرمایہ داروں نے سرمایہ کاری روک دی۔ اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ جنرل سیدعاصم منیر نے ایس آئی ایف سی کو فعال اور کامیاب بنا کے ملک کو معاشی بدحالی سے نکالنے کی جو کوشش کی ہے وہ آپ کے لیے قابل قبول نہیں کیونکہ آپ پاکستان کو اپنے ظالمانہ سودی چنگل سے نکلتا دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ اسی لیے ملک بھر میں آپ کے کرائے پر چلنے والی مشینری یکدم حرکت میں آگئی ہے۔
ہر باشعور پاکستانی کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جب بھی کوئی حکومت سود پر قرضے دینے والے اداروں کی ہر طرح کی ظالمانہ شرائط مانتے ہوئے ان کے پیروں میں گر پڑتی ہے تو چاروں طرف سے اس کے حق میں رپورٹس ، ریٹنگ اور سروے شائع ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور جیسے ہی کوئی حکومت ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے اقدامات کرتی ہے تو ان کےخلاف فلاں بینک ، فلاں اکنامک تھنک ٹینک اور فلاں فنانشل رسالہ وغیرہ سے منفی خبریں ، رویو اور تجزیے آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ اکنامکس کی درست تصویر کبھی بھی ان کے تجزیے نہیں بلکہ ملک کے عام آدمی کا معیار زندگی بتاتا ہے۔ پٹرول کی قیمتیں نیچے آنے سے اشیاءخورد و نوش کی قیمتوں میں واضح کمی بتا رہی ہے کہ ایس آئی ایف سی نے پاکستان کی معیشت کا پہیہ درست ٹریک پر چلا دیا ہے۔ ہر پاکستانی جان لے کہ ملک کو ڈیفالٹ لائن سے نکال کے معاشی بحالی کے راستے پر ڈال دیا گیا ہے۔ نہ انویسٹمینٹ گری ہے نہ ایس آئی ایف سی کا مورال گرا ہے بلکہ دن بہ دن بلند ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ انشاءاللہ اگر اپنوں نے دشمنوں کی کچھاروں میں بیٹھ کر پاکستان کی پیٹھ میں چھرا نہ گھونپا تو جلد ہی ہمارا شمار دنیا کی خود مختار معیشتوں میں ہوگا۔