ٹویٹ، ویڈیو، تعلقی، لاتعلقی اور مہنگائی میں کمی کا دعوی!!!!!
بانی پی ٹی آئی کے ایکس اکاؤنٹ سے کوئی بھی چیز عوام تک پہنچے وہ بھی ان حالات میں کہ وہ جیل میں ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے، کیا بانی پی ٹی آئی اس کے ذمہ دار نہیں، کیا اکاونٹ ان کا نہیں ہے، اگر وہ اس تحریر سے لاتعلقی کر سکتے ہیں تو وہ کسی بھی الزام یا جرم سے لاتعلقی کر سکتے ہیں، کیا صرف ان کی لاتعلقی سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کے ایکس اکاؤنٹ سے شیئر ہونے والی ویڈیو کے حوالے سے پی ٹی آئی کے مختلف رہنماؤں کی وضاحت، تردید اور ردعمل اس معاملے کو مزید سنجیدہ اور خطرناک بنا رہا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک ہی مسئلے پر پی ٹی آئی کے مختلف رہنماؤں کی طرف سے مختلف بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ انیس سو اکہتر کی ایک ویڈیو یا تحریر کے ذریعے شر انگیزی اور نفرت پھیلانے کے بعد اگر کوئی یہ کہے کہ میں اس معاملے سے لاتعلقی کرتا ہوں تو کیا یہ سہولت پاکستان کے ہر شہری کو دی جا سکتی ہے، کیا یہ سہولت پاکستان میں ہر قیدی کے پاس ہے کہ وہ جیل میں بیٹھ کر اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے مزے بھی لے سکے، اس سہولت سے فائدہ اٹھائے، تفریح کرے یا نفرت پھیلائے اگر قانون اس کی اجازت نہیں دیتا تو یقینی طور پر یہ ایک غیر قانونی عمل ہے۔ بہرحال پی ٹی آئی قیادت کی قلابازیوں نے اس معاملے کو اور زیادہ پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اب تو یہ بھی بحث ہو رہی ہے کہ "کیا ہم کوئی غلام ہیں جو آپ کہیں وہ کر لیں" کا نعرہ لگانے والے اور امریکہ کو پاکستان کا دشمن قرار دینے والوں کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز ہی امریکہ سے آپریٹ ہو رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن کے مطابق "بانی پی ٹی آئی کا ایکس اکاؤنٹ بیرون ملک سے آپریٹ کیا جا رہا ہے اور سوشل میڈیا کا سربراہ امریکا میں ہوتا ہے۔" کیا یہ ایک مضحکہ خیز بیان نہیں ہے، کیا یہ بیان اس ملک کے کروڑوں لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں ہے، کیا یہ بیان اس ملک کے اداروں کے لیے لمحہ فکریہ نہیں ہے، آخر یہ کیا ہو رہا ہے، کوئی اس بیان سے اعلان لاتعلقی کر رہا ہے، کوئی اعتراف کر رہا ہے، کوئی اسے ملکی سیاسی حالات کے عین مطابق قرار دے رہا ہے۔ رؤف حسن کہتے ہیں "انہیں تفتیش کرنی پڑے گی کہ بانی پی ٹی آئی کے ایکس اکاؤنٹ پر شیخ مجیب الرحمان والی ویڈیو کس نے اپ لوڈ کی۔"
اگر کسی جماعت کے سربراہ کا سوشل میڈیا بیرون ملک سے آپریٹ کیا جا رہا ہو تو کیا پی ٹی آئی اسے ملک دشمن یا غدار قرار دینے میں کوئی دیر کرے گی، کیا یہ جماعت کسی دوسری جماعت کو اس سہولت سے فائدہ اٹھانے دے گی۔ بہرحال جب ایف آئی اے نے ویڈیو کی انکوائری کا اعلان کیا تو رؤف حسن کا جواب تھا کہ انہوں نے تو ابھی یہ ویڈیو خود بھی نہیں دیکھی۔ اب ترجمان خود ہی ترجمہ کے لیے کسی کا محتاج ہو تو اس کی لاعلمی اور بے بسی کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔
کیونکہ ترجمان صاحب اس معاملے کی مکمل انکوائری کا مطالبہ تو کر رہے ہیں لیکن وہ خود اس معاملے سے لاعلم ہیں اور پی ٹی آئی کور کمیٹی اس ویڈیو کی تحقیقات کو بھی مسترد کر چکی ہے جب کہ بانی پی ٹی آئی نے بھی اس معاملے میں ایف آئی کو بیان دینے سے انکار کر دیا تھا۔ رکن قومی اسمبلی علی محمد خان کہتے ہیں کہ "بانی پی ٹی آئی کو اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے شیئر ہونے والی ویڈیو کا علم ہی نہیں ہے، 1971 سے 2018 تک کے حالات دوبارہ نہ پیدا کیے جائیں۔ آئندہ بانی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جو بھی مواد شیئر ہو گا وہ ان کی مرضی کے بغیر نہیں ہو گا۔"
شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی کہتے ہیں کہ "ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ خان صاحب کے اکاؤنٹ کو باہر سے کوئی کررہا ہے، عمران خان پابند سلاسل ہیں وہ اپنا اکاؤنٹ خود تو نہیں کرسکتے تو پارٹی کو کرنا پڑتا ہے اور پارٹی ہی خان صاحب کی ٹوئٹس کرتی ہے، ان کی اپروول سے کرتی ہے، ان کی انڈوسمنٹ سے کرتی ہے، اس میں ایسی کوئی دو رائے نہیں ہے، اب اس کو جتنا کھینچ لیں بال کی کھال اتار لیں وہ ان کی مرضی ہے، زین کے مطابق بانی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جو بھی آتا ہے وہ پارٹی پالیسی ہوتی ہے اور جماعت کے بانی کی ہدایات پر ہی آتا ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ اپنی سیاسی حیثیت بچانے کے لیے وہ کب تک غلط بیانی اور جھوٹ کا سہارا لیتے رہیں گے۔ یہ کوئی معمولی بات تو نہیں کہ ملک میں نفرت پھیلانے کا سلسلہ جاری رکھیں، لوگوں کو کہا جائے امریکہ ہمارا دشمن ہے اور خود وہیں سے مدد، تعاون اور سہولت کے طلب گار ہوں، لوگوں کو ریاستی اداروں کے خلاف بھڑکایا جائے اور خود کو انقلابی ثابت کرنے کی کوششیں کرتے رہیں۔ سو پاکستان تحریک انصاف کے بانی ان کی قیادت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ جھوٹے بیانیے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ہر روز احتجاج، ہر روز غیر ضروری اختلاف، ہر روز ایک نیا جھوٹ، ہر روز یو ٹرن اور قلا بازیاں نظام ایسے نہیں چلا کرتے۔ اگر یہ اپنے ایکس اکاؤنٹ سے لاتعلقی کر رہے ہیں تو اس طرح یہ دیگر درجنوں الزامات سے بھی لاتعلقی کر سکتے ہیں تو کیا اس بنیاد پر مقدمات ختم کر دئیے جائیں، تحقیق و تفتیش کو روک دیا جائے۔ یہ غیر سنجیدہ رویہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کے لیے زہر قاتل ہے۔ یہ بنیادی طور پر قوم کو گمراہ کرنے اور نفرت پھیلانے کے مترادف ہے۔
وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کے مطابق پنجاب "صوبے میں قیمتیں گزشتہ چھ سال کی کم ترین سطح پر آ گئی ہیں۔ سبزیوں کی قیمتوں میں سو فیصد تک کمی ہوئی ہے۔ لاہورمیں درجہ اول کے آلو ستر اور درجہ دوم کے ساٹھ روپے کلو فروخت ہو رہے ہیں۔ تین ماہ پہلے ڈھائی سو روپے کلو ملنے والا پیاز آج سو روپے کلو ہے۔درجہ اول کے ٹماٹر سینتیس سے چالیس روپے کلو جبکہ چار سو روپے کلو والی بھنڈی ایک سو پچاس روپے میں مل رہی ہے۔ گرمی بڑھنے سے لیموں کی طلب میں اضافہ ہوا اس لیے قیمت بڑھ گئی ہے، کوشش ہے عیدالاضحی پر سبز مصالحہ جات کی قیمتوں کو ایسے ہی برقرار رکھا جائے۔"
اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں کمی تو آئی ہے، حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی کمی کی ہے لیکن بجلی کا مسلسل مہنگا ہونا عام آدمی کے لیے تکلیف دہ ہے۔ سبزیوں، پھلوں، دالیں، چکن، گوشت، ادویات، آٹا اور چاول سمیت دیگر اشیاء کی قیمتوں میں مزید کمی کی ضرورت ہے۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ ناجائز منافع خوری کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، مصنوعی مہنگائی کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں حکومت کو کسی قسم کی نرمی نہیں کرنی چاہیے۔ شہریوں کو مہنگی بجلی اور گیس سے نجات دلانے پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
آخر میں احمد سلمان کا کلام
شاخِ امکان پر، کوئی کانٹا اْگا، کوئی غنچہ کھلا، میں نے غزلیں کہیں
زعمِ عیسٰی گریزی میں جو بھی ہوا، میں نے ہونے دیا، میں نے غزلیں کہیں
لوگ چیخا کئے، وہ جو معبود ہے، بس اسی کی ثنا ، بس اسی کی ثنا
میری شہ رگ سے میرے خدا نے کہا، مجھ کو اپنی سنا، میں نے غزلیں کہیں
حبسِ بیجا میں تھی شہر کی جب ہوا، آپ جیتے رہے، آپ کا حوصلہ
میں اصولوں وغیرہ کا مارا ہوا، مجھ کو مرنا پڑا، میں نے غزلیں کہیں
کوئی دْکھ بھی نہ ہو، کوئی سْکھ بھی نہ ہو، اور تم بھی نہ ہو، اور مصرعہ کہیں
ایسا ممکن نہیں، ایسا ہوتا نہیں، لیکن ایسا ہوا، میں نے غزلیں کہیں
عشق دوہی ملے، میں نے دونوں کیے، اک حقیقی کیا، اک مجازی کیا
میں مسلمان بھی، اور سلمان بھی، میں نے کلمہ پڑھا، میں نے غزلیں کہیں