• news

گلے،شکوے اور تجزیے

میں بھی باقی خاص و عام 'مردوں' کی طرح ایک عدد بیوی کا نامراد شوہرِ نامدار ہوں۔ یہ مت سمجھنا کہ میں بھی کم و بیش اْسی انداز میں زندگی کے باقی ماندہ شب و روز پورے کر رہا ہوں جس طرح دیگر شادی شدہ مرد گن گن کر گزارتے ہیں۔ یقین مانیں، میں بہت سے معاملات میں باقی پیٹی بھائیوں سے بہتر، افضل اور خوش بخت ہوں کیونکہ میری زوجہ محترمہ مجھ پر شک ہی نہیں کرتی۔ شاید وہ مجھے اِس قابل ہی نہیں سمجھتی۔ تاہم وہ وقت، جو عام بیویاں شک کرنے کے مختلف مراحل میں صرف کرتی ہیں، میری بیوی اْس قیمتی وقت کو کسی اور مناسب وقت کے لئے بچا رکھتی ہے۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ وہ میرا موبائل فون بھی چیک نہیں کرتی۔ عام روایتی بیوی کے برعکس، وہ بہت قناعت پسند واقع ہوئی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ مجھ جیسے شوہر پر ہی قناعت کر گئی۔ 
میں کسی اور کے بارے میں تو رائے زنی نہیں کر سکتا مگر اپنی بیوی کے بارے میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ خود کو عقلِ کل سمجھتی ہے۔ موقع میسر آتے ہی وہ اپنی مذکورہ عقل کا بھر پور استعمال کر گزرتی ہے۔ ہمارے ہمسائے میں ایک لیڈی ڈاکٹر رہتی ہے۔ کئی دنوں سے اْس کی دو سالہ بیٹی کا بخار نہیں اتر رہا تھا۔ ہم تیمارداری کے لئے گئے تو وہ خاصی پریشان نظر آئی۔ میری بیوی تین چار جڑی بوٹیوں کا نام لے کر کہنے لگی، "بچی کو ان کا قہوہ بنا کر وقفے وقفے سے دیتی رہیں، بخار اتر جائے گا۔ اور ہاں! احتیاطاً بچی کو دم بھی کرا لیں، ہو سکتا ہے کسی منحوس کی نظرِ بد کا شکار ہو گئی ہو"۔ وہاں مزاج پرسی کے لئے آنے والی ڈاکٹر کی تین چار رشتہ دار خواتین نے گھور کر میری بیوی کو اور ڈاکٹر نے اْسی انداز میں اْن کو دیکھا۔
گھر واپس آ کر میں نے سمجھانے کی کوشش کی تو کہنے لگی، "مانا کہ وہ ڈاکٹر ہے مگر میرا ذاتی تجربہ بھی ایک اتھارٹی ہی ہے"…..۔ قہوے کے استعمال کا تو پتہ نہیں البتہ اگلے ایک دو روز اْن کے گھر دم کرنے والوں کا تانتا ضرور بندھا رہا۔ 
ایک دن میری بیوی نہایت حسین اور رومان پرور موسم میں بھی اداسی کی فضا پیدا کرتے ہوئے کہنے لگی، "میری طرح ہر تیسری عورت 'گوڈوں' کے عارضے میں مبتلا یے، اکثر قدرت کی اِس ناانصافی کے بارے میں سوچتی ہوں تو خیال آتا ہے کہ مردوں کے گوڈے اِس موذی مرض سے کیوں متاثر نہیں ہوتے؟" اِس بات میں طب (medical) کی بجائے جنس (gender) کا تاثر غالب نظر آیا تو مجھ سے نہیں رہا گیا۔ کہا، "بیوی شوہر کے گوڈوں کو آرام کہاں کرنے دیتی ہے، گھر آنے کی دیر ہوتی ہے، بے چارے کو چار چیزیں منگوانے کے لئے کم از کم تین دفعہ بازار ضرور بھیجا جاتا ہے، منگوائی ہوئی اشیاء واپس کرنے یا بدلوانے کے چکر علیحدہ لگتے ہیں۔ اِس مشقت نما ورزش سے اْس کے تمام جوڑ درست حالت میں کیسے رہ سکتے ہیں"۔ موقع غنیمت جانتے ہوئے مزید کہا، "شادی کے بعد عورتوں کے برعکس ہر تیسرے مرد کو دل کا عارضہ لاحق ہوتا ہے۔ دیگر بیماریاں اِس کے علاوہ ہیں جو عورتوں کو کم ہی لاحق ہوتی ہیں"۔ میری بات سن کر وہ ہلا کے سرد لہجے میں بولی، "یہ تو 'تیلی رے تیلی، تمہارے سر پہ کولہو' والی بات ہی کر دی ہے تم نے…۔ اِسی لئے تو میں تم سے intellectual talk نہیں کرتی۔‘‘
دیکھا جائے تو ایک کنوارہ اپنی محبوبہ کی محبت میں ناکامی کے بعد خودکشی کرکے اپنی جان تو گنوا دیتا ہے مگر دل کے عارضے سے فوت نہیں ہوتا۔ یہ دکھ اْس کے نصیب میں شادی کے بعد ہی کیوں لکھا جاتا ہے؟ شاید میڈیکل سائنس کو اِس نقطے پر شدید سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔ بیوی ایک دو بچے پیدا کرنے کے بعد موٹا ہونے کو اپنا فطری حق سمجھنے لگتی ہے۔ اْس کا خیال ہوتا ہے کہ خاوند کو اب صرف بچوں پر ہی فوکس کرنا چائیے۔ واک کرنا یا کوئی اور ورزش کرنا تو اْس کے نزدیک فارغ لوگوں کے چونچلے ہیں۔ موٹاپے کا تعلق تو وہ تدبر و حکمت سے جڑا ہوا سمجھتی ہے۔
میرا ایک نوکری پیشہ دوست میٹرک کی سند پر لکھی گئی تاریخ پیدائش کے لحاظ سے اپنی بیوی سے کوئی بارہ سال پہلے ریٹائر ہو گیا تھا۔ اْس کی بیوی کو یقین ہے کہ وہ اْس سے بارہ نہیں بلکہ اٹھارہ سال بڑا ہے۔ بقول میرے دوست کے، "ہم دونوں گستاخانہ اور عاجزانہ طرز پر اپنی ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں، یعنی بیوی گستاخانہ اور میں عاجزانہ انداز میں"۔ ایک دن تو وہ بے چارہ پھٹ ہی پڑا، کہنے لگا، "کیا کروں یار! بیوی کا گستاخانہ رویہ میری شوگر کی سطح بڑھنے کے تناسب سے بھی کہیں زیادہ بڑھ رہا ہے۔ اب ہم ایک گھر میں تو رہ رہے ہیں مگر ایک بیڈ روم میں نہیں۔ ظالم علیحدہ کمرے میں شفٹ ہو گئی ہے۔ ہماری ملاقاتیں بچوں کے ساتھ کھانے کی میز پر ہی ہوتی ہیں۔ بعض اوقات تو وہ کھانا بھی میرے کمرے میں بھجوا دیتی ہے۔ بچوں کے سامنے بھی وہ اپنے احساسِ برتری کے جنون کو کم نہیں ہونے دیتی"۔ 'او ہو' کہہ کر میں نے رویوں میں بْعد کی وجہ جاننا چاہی تو وہ بھولا خود کو قدرے سنبھالتا ہوا بولا، "یار کیا بتاؤں! اْس کا تعلق لشکرِ یوتھ سے ہے اور میں گروہِ نون سے ہوں …۔ میں اپنی سبکی تو برداشت کرتا آیا ہوں مگر کیا کروں، لیڈر شپ کی بے عزتی برداشت نہیں ہوتی۔ کبھی کبھار اندر کا مجاہد بیدار کرکے اْس کے رہبر پر انتہائی شائستہ انداز میں چند تنقیدی فقرے بول دوں تو وہ خودکش بمبار کی مانند پھٹ پڑتی ہے۔کہیں بھی اور کبھی بھی وہ مجھے فائِزْ المَرام نہیں ہونے دیتی"۔کپل شرما شو میں معروف کرکٹر وسیم اکرم سے پوچھا گیا، "آپ کی آسٹریلین بیوی اور والدہ کے درمیان کیسے تعلقات ہیں"؟ وسیم اکرم قہقہہ لگاتے ہوئے کہنے لگے، "بہت اچھے ہیں۔ ان کے درمیان کبھی لڑائی نہیں ہوتی"۔ کپل شرما نے وجہ پوچھی تو پہلے سے بھی بلند قہقہہ لگا کر کہا، "والدہ بیوی کی انگریزی اور بیوی والدہ کی پنجابی نہیں سمجھتی، اِس لئے دونوں کی لڑائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا"۔ 
ایک دن اسلام آباد ائرپورٹ پر دراز قد، سرخ و سفید رنگت، متناسب جسامت، تیکھے نقوش اور تراشیدہ لمبے بالوں والی خوبصورت خاتون کو سگریٹ نوشی کرتے دیکھا۔ اْس کا خاوند بچوں کے لئے ٹک شاپ سے کھانے پینے کی اشیاء لے کر آیا اور نسوانی سلیقے سے بیوی کے پاس رکھ کر بچوں کے ساتھ وقت گزارنے میں مصروف ہو گیا۔ میرا دوست کہنے لگا، "یار! کسی اور کی خوبرو بیوی سگریٹ پیتی ہوئی کتنی اچھی لگتی ہے"۔ 
میرا ایک اور دوست اپنی بیوی کی موت پر توقع سے کہیں زیادہ آزْردَہ خاطِر تھا۔ چند ماہ بعد میں نے اْسکے بڑے بھائی سے اْس کی نئی شادی کے بارے میں بات کی۔ ترنت بولا، "غریب کا اتفاق سے سر چھوٹ ہی گیا ہے تو تم کاہیکو دوبارہ پھنسوانا چاہتے ہو"؟
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن