اتوار‘24 ذیقعد 1445ھ ‘ 2 جون 2024ء
پاکستانی کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ کیلئے امریکہ روانہ۔ جیت کر آئیں گے: محسن نقوی۔
اب معلوم نہیں چیئرمین پی سی بی یہ دعویٰ کس بنیاد پر کر رہے ہیں۔ انگلینڈ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی دیکھ کر تو ہمیں لگتا ہے۔ ورلڈ کپ کا خواب بھی دیکھنا حقیقت میں دیوانے کا خواب ہے۔
اس وقت سوشل میڈیا پر دیکھ لیں پاکستانی کرکٹ کے شائقین تقریباً رو رہے ہیں۔ برطانیہ میں مقیم تارکین وطن تو پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کے خلاف پھٹ پڑے ہیں کہ ہم اتنے مہنگے داموں ٹکٹ خریدیں اور دوسرے شہروں سے آ کر میچ دیکھیں مگر کھلاڑی تو لگتا ہے اناڑی ہیں وہ کھیلنا بھول گئے ہیں۔ نہ بیٹنگ چل رہی ہے نہ فیلڈنگ۔ حال تو یہ ہے کہ 150 رنز کا ٹارگٹ بھی ہمارے کھلاڑیوں کے لیے پہاڑ بن گیا ہے۔ کیا واقعی یہ ٹیم دوستی اور یاری سے سلیکٹ ہوئی ہے۔ کیا قومی ٹیم میرٹ پر سلیکٹ نہیں ہوئی۔ اگر ایسا ہے تو پھر ورلڈ کپ جیتنا صرف ایک ناکام خواب ہی ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ تو شکر ہے ایک میچ بارش کی نذر ہو گیا۔ ورنہ انگلینڈ نے یہ سیریز 2 کی بجائے3 صفر سے جیت لینی تھی۔ اب محسن نقوی بضد ہیں کہ بابر اعظم کو کچھ نہ کہا جائے۔ غالباً وہ اسے مغل اعظم بنانا چاہتے ہیں۔ بے شک وہ بنا لیں مگر باقی کھلاڑیوں کو بھی تو نو رتن بنا کر دکھائیں۔ ورنہ یہ ملا دو پیازہ اور بیربل قسم کے کھلاڑیوں سے کوئی توقع نہیں۔ کھلاڑی وہ ہوتا ہے جو جان لڑا دیتا ہے۔ جان چھڑانے والے کو کھلاڑی نہیں کہا جا سکتا۔
٭٭٭٭
تحریک انصاف کو روات میں جلسے کی اجازت مل گئی۔
اب معلوم نہیں یہ اجازت ہے یا انکار کی ہی ایک شکل۔ اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف کو جلسے کی مشروط اجازت ملی ہے۔ اب پارٹی کی مجلس عاملہ اس بارے میں بتائے گی۔
ویسے تو لگتا ہے جو اس وقت پی ٹی آئی والوں کا موڈ نظر آ رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے تو مشکل لگتا ہے کہ جلسہ اتنی شرائط کے مطابق ہو۔ البتہ ایک بات پر سب کا اتفاق ہے کہ کسی بھی جماعت کے یا تنظیم کے جلسے میں ملک کے خلاف اداروں کیخلاف نعرے لگانے کی اجازت کسی کو نہیں ہونی چاہیے۔ بہرحال اب حکومت نے اپنے سر سے بلا اتار کر پی ٹی آئی کے سر ڈال دی ہے۔ اب وہ اس ’’سانپ کے منہ میں چھچھوندر‘‘ قسم کی اجازت پر عمل کرتی ہے یا نہیں وہ جانے۔
حکومت تو چین کی نیند سوئے گی کہ ہم نے تو اجازت دیدی تھی۔ اب یہ جلسہ بھی روات میں ہونا ہے جو بہرحال اسلام آباد اور راولپنڈی کو زیادہ متاثر نہیں کرے گا۔ سوائے اس کے کہ جی ٹی روڈ کے مسافر خوار ہوں گے اس دن۔ کیونکہ روات سے سڑک بند ہو گی۔ اس کے باوجود اگر پی ٹی آئی یہ جلسہ کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو اس کے کارکن مزید دلیر ہو جائیں گے۔ مگر جلسے میں شرکت کرنے والوں کو کوئی روکنے کی کوشش ہوئی تو معاملہ بگڑ سکتا ہے تبھی تو حکومت نے پرامن رہنے اور جلسے کی سکیورٹی کی ذمہ داری بھی پی ٹی آئی پر ہی ڈالی ہے۔ اسے کہتے ہیں ایک تیر سے دو شکار۔
٭٭٭٭
ٹرمپ بددیانتی کے مجرم قرار، 136 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
مگر دیکھ لیں ٹرمپ نے بھی وہی وطیرہ اختیار کیا ہے جس کے لیے ہم ایشیائی لوگ بدنام ہیں۔ انہوں نے نہایت ڈھٹائی سے اسے دھاندلی زدہ جج کا دھاندلی زدہ فیصلہ قرار دیا ہے۔
ٹرمپ پر ایک اداکارہ کے ساتھ تعلقات اور اس کے عوض اسے خطیر رقم دے کر خاموش رہنے کے معاہدے کی رقم اثاثوں میں غلط رنگ دے کر جمع کرانے کے جرم میں مجرم قرار دیا گیا ہے۔ مگر فکر نہ کریں اس سے ان کی سیاست پر کوئی اثر نہیں پڑنے کا۔ کیونکہ اول تو اس سزا کے خلاف اپیل کا حق ہے اور ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ اپیلٹ کورٹ اس سزا کو اڑا کر رکھ دے گی۔
اسی طرح یہ بھی واضح ہو کہ ٹرمپ کے صدارتی الیکشن پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ جبھی تو انہوں نے کہا یہ کہ عوام کے ووٹ اس فیصلے کو مسترد کر دیں گے۔ لگتا بھی ایسا ہی ہے کیونکہ ٹرمپ کے حامی بہت پرجوش ہیں اور وہ کائو بوائے سٹائل کی سیاست پسند کرتے ہیں۔
کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ ہمارے ہاں بھی سیاسی طور پر ایک ایسے ہی سیاستدان کے ساتھ ایسی ہی صورتحال ہوتی نظر آ رہی ہے جس کا ٹرمپ جیسا کائو بوائے سٹائل اس کے چاہنے والوں کو بہت پسند ہے اور وہ بھی کسی سے بات کرنے سے پہلے اس کو اڑانے کی دھمکیاں دیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں یوٹرن کے نام پر انہی لوگوں سے مفاہمت کی بات بھی کرتا ہے۔ چاہے مولانا فضل الرحمن ہوں یا اسٹیبلشمنٹ۔
٭٭٭٭
ملالہ کی طرف سے آکسفورڈ یونیورسٹی میں فلسطینی طلبہ کے لیے سکالر شپ کا اعلان۔
ہمارے بعض طبقے ابھی تک ملالہ یوسفزئی کے بارے میں دل صاف نہیں کر پائے۔ اس کی لڑکیوں کی تعلیم کے لیے حمایت اور اس سلسلے میں دہشت گردی کا نشانہ بننے تک کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ اس کے بعد ملالہ کی علاج کے لئے امریکہ روانگی وہاں تعلیم اور عالمی سطح پر اپنی اور پاکستان کی نیک نامی میں تعلیمی میدان میں اہم کردار ادا کرنے پر جب انہیں نوبل کا عالمی ایوارڈ ملا۔ وہ بھی بہت سے لوگوں کو ابھی تک ہضم نہیں ہو سکا۔ ان میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو عورتوں کی تعلیم کے دشمن ہیں ان کے نزدیک تعلیم سے پھیلانے والا شعور عورتوں کو خراب کرتا ہے جبکہ ضرور ی نہیں ایسا ہوتا ہو تاہم منفی پراپیگنڈا سادہ لوح اور نیم خواندہ ذہنوں کو متاثر کرتا ہے۔ اس کا علاج یہی ہے کہ ملک بھر میں لڑکیوں کو تعلیم دی جائے۔ چاہے شرپسند کتنے ہی سکول جلائیں انہیں پھر آباد کریں بسائیں۔ کیونکہ جہالت کی تاریکی کا مقابلہ صرف علم کا نور ہی کر سکتا ہے۔
اب یہی دیکھ لیں ملالہ نے فلسطینی علاقوں میں کالجز یونیورسٹیوں اور سکولوں کی تباہی پر آواز بلند کی اور اسرائیل کی مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں فلسطینی طلبہ کو سکالر شپ دیں گی تاکہ وہ یہاں آ کر اپنی تعلیم مکمل کریں یاد رہے دنیا بھر کی جامعات کی طرح آکسفورڈ میں بھی فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔
٭٭٭٭