• news

عورت 

لفظ ’’عورت‘‘ ہجے اور ادائیگی میں جتنا پیچیدہ ہے‘ اسکی ذات اور اس سے وابستہ معمولات اور حالات بھی اتنے پیچیدہ ہیں۔ لفظ ’’مرد‘‘ ہجے اور ادائیگی میں بھی آسان ہے۔ انگریزی کا لفظ Man مختصر ہے لیکن لفظ Woman نہ صرف طویل ہے بلکہ M کو الٹا کرکے W بنایا گیا ہے۔ اس طرح اور بہت سے فرق ہیں۔ اس سلسلے میں میرا آج کا کالم میرے قارئین کو بہت سی معلومات اور لطف مہیا کریگا۔ 
سب سے پہلے ایک امریکی رسالے میں چھپی ایک کہانی سنیں۔ رائٹر لکھتا ہے: 
’’میں نے عورت کے بارے میں بہت سی ریسرچ کے بعد یہ ایک علامتی اور تصوراتی کہانی لکھی ہے۔ خدا نے ابتداء میں جب کائنات میں مرد عورت کو پیدا کیا تو جب انہیں بھوک‘ پیاس محسوس ہوئی تو وہ دونوں خوراک ڈھونڈنے کیلئے جنگل میں نکل گئے۔ دو چار پرندے شکار کئے اور درخت سے لکڑیاں کاٹ کر جب واپس اپنے ٹھکانے کی طرف آنے لگے تو عورت تھک کر ایک مقام پر بیٹھ گئی۔ مرد کو بہت غصہ آیا۔ کیونکہ وہ بھوک سے نڈھال تھا اور جلد سے جلد اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر شکار کی ہوئی خوراک کھانا چاہتا تھا۔ کچھ دنوں تک تو یہ معمول چلتا رہا پھر مرد نے عورت سے کہا کہ تم ٹھکانے پر رہو‘ میں اکیلا جاتا ہوں کیونکہ تمہارے بیٹھ جانے سے وقت ضائع ہوتا ہے۔ ایک دن مرد جب روزی روٹی کی تلاش میں نکلا تو موسمی حالات نے اسے گھیر لیا۔ اکیلا ہونے کی وجہ سے زیادہ پریشان ہو گیا۔ جب ٹھکانے پر واپس آیا تو دیکھا کہ عورت بڑے سکون سے ایک جگہ بیکار بیٹھی ہوئی تھی۔ مرد کو سخت غصہ آیا۔ اس نے عورت کو بازو سے پکڑا اور خدا کے پاس جا کر کہا‘ اسے واپس لو‘ میں اس بیکار ساتھی کو قبول نہیں کر سکتا۔ کچھ دنوں بعد جب اسے تنہائی کا احساس ہوا تو دوبارہ خدا کے پاس گیا اور دوبارہ عورت کو مانگ لیا۔ جب خدا کے پاس مرد کی یہ آنیاں جانیاں روز روز کا معمول بن گئیں تو خدا کو بھی غصہ آگیا۔ اس نے مرد کو ڈانٹ کر کہا‘ اسے لے جائو‘ دوبارہ میرے پاس نہ آنا۔ ‘‘
تاریخ انسانی کو دیکھیں تو ابتداء میں عورت کو بالکل فالتو اور اور بیکار سمجھا جاتا تھا۔ عیسائیت میں عورت کو بائبل کو ہاتھ لگان کی اجازت نہیں تھی اور برملا کہا جاتا تھا کہ عورت گناہ کی ترغیب اور مشکلات کی گٹھڑی ہے اور اسے نن بنا کر چرچ میں قید کر دیا جاتا تھا تاکہ وہ گناہ نہ پھیلائے۔ قبل اسلام بیٹی کی پیدائش کو عذاب کاری سمجھ کر زندہ زمین میں دفن کر دیا جاتا تھا۔ ہندو ازم میں عورت کو اپنے شوہر کی موت کا سبب سمجھا جاتا تھا۔ اسے بدبخت سمجھ کر شوہر کی چتا میں زندہ پھینک دیا جاتا تھا۔ پھر وقت بدلا‘ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بہت سے مرد مارے گئے اور بیوائوں کو روزی کی خاطر گھر سے باہر نکلنا پڑا۔ اس نے زلفیں کٹوا کر مختصر لباس پہنا اور دفتروں اور کارخانوں میں ملازمت کی خاطر پھیل گئیں۔ اس وقت بالو کا کٹوانا اور مختصر لباس عورت کو اپنے وقت کی بچت کرنا تھا جو بعد میں فیشن بن کر بے راہ روی کی علامت بن گیا۔ یہی وہ وقت تھا جب عورت ملازمت کی خاطر گھر سے باہر آئی اور پھر اسے گھر واپس جانا مشکل اور بیزار کن لگا۔ حالانکہ جنگی صورتحال بدل جانے اور ارتقائی دور میں آجانے کے بعد اسے ملازمت کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ مردوں نے ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں۔ مگر اب عورت کو آزادی کی لت لگ چکی تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب عورت اپنی نفسی کمزوری اور بیوقوفی کا شکار ہو کر اپنا سب کچھ لگاڑ بیٹھی۔ وہ آزادی کی وقتی خوشی کیلئے ملازمت اور گھر بار کا دوہرا بوجھ بھی اٹھانے کیلئے تیار ہو گئی اور نفسیاتی امراض کا شکار ہو گئی۔ بچے رل گئے‘ مجرم بن گئے اور والدہ کی کمائی سے آئی سہوالیات بھی انہیں صحیح راستہ نہ دکھا سکیں اور وہ دین اور دنیا دونوں کو کھو بیٹھی۔ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی جو عورت پر مشتمل ہے‘ اسے گھر بٹھا کر بیکار نہیں کیا جا سکتا لیکن گھر جو عورت کی سلطنت ہے‘ کیا اس میں اسکی ذمہ داریاں کم ہیں کہ وہ باہر کی سلطنت میں جھانکے۔ ملازمت سے مالی ضروریات کا بھی ایک بہانہ ہے۔ عورت کی تعلیم بہت ضروری ہے لیکن اس تعلیم کو ملازمت سے وابستہ کیوں کیا جاتا ہے۔ پیشہ ورانہ تعلیم کو بھی گھر میں رہ کر اختیار کیا جا سکتا ہے۔ ’’میری کیوری‘‘ جو ایک عظیم سائنس دان تھی‘ اس نے اپنے تجربات کی لیبارٹری گھر میں بنا رکھی تھی۔ اس طرح وہ جب بھی اپنے کام سے تھوڑی دیر کیلئے فارغ ہوتی تو اپنے شوہر اور بچوں کے کام نبٹا آتی تھی۔ 
حضرت خدیجہ اعلیٰ درجے کی ’’تاجر‘‘ تھیں۔ وہ خود کبھی بھی مال تجارت لے کر گھر سے باہر نہیں گئی تھیں۔ کمائی کے سارے کام گھر کے اندر بیٹھ کر بھی کئے جا سکتے ہیں۔ عورت ناقص البدن سہی لیکن ناقص العقل نہیں ہے۔ بس صرف اس حقیقت کو تسلیم کرلے کہ مرد جسمانی اور ذہنی طور پر اس سے برتر ہے۔ جس دن عورت نے اپنا یہ مذہبی اور نسبی سبق یاد کرلیا‘ وہ خود بھی پرسکون ہو جائیگی اور معاشرہ بھی امن میں آجائیگا۔ آخر میں اس چیختی چلاتی حقیقت بھی عورت پر واضح کر دوں کہ عورت کو ملازمت اور باہر رہنے پر اسکی حوصلہ افزائی بھی مرد کی ایک چالاکی اور چال ہے کیونکہ اسکی ملازمت سے مرد دہرے فائدے کماتا ہے۔ مالی کمائی اور ذہنی عیاشی۔ گھر میں بیوی کی صورت میں ایک ہی ڈش کھاتے کھاتے وہ منہ کا ذائقہ بدلنے کیلئے اسکے اردگرد کرسیوں پر پڑی ہوئی مختلف ڈشیں اسے ذہنی اور جسمانی عیاشی بزور شمشیر حاصل کرنے کا موقع مہیا کرتی ہیں۔ اسی وجہ سے شادیاں ٹوٹ رہی ہیں‘ طلاق اور علیحدگی‘ جنس بے مول ہو گئی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں بالکل کوئیخوف نہیں کہ عورت واقعی Genaticaly احق اور کم عقل ہے۔ (میں خود کو بھی اسی زمرے میں رکھتی ہوں)
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن