پیر ‘25 ذیقعد 1445ھ ‘ 3 جون 2024ء
پٹرول کی قیمت میں کمی کے نام پر عوام سے مذاق
ایک تو ہماری حکومت مذاق بہت کرتی ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کئی دنوں سے شور تھا کہ پٹرول کی قیمت میں 15 روپے فی لٹر کمی ہو گی مگر گزشتہ روز جب اعلان ہوا تو وہ سب امیدوں پر پانی پھیرتا ہوا ’’کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا‘‘ کے مصداق بہت ہی کم نکلا۔ لوگ تو بڑی توقع لگائے ہوئے تھے اور اب بقول غالب
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیا کسی سے گلہ کرے کوئی
کہتے پھررہے ہیں۔ لوگ بے چارے بے قوف ہیں جو افواہوں پر یقین کر لیتے ہیں۔ اب یہ 15 روپے فی لٹر کمی کی بھی تو افواہ ہی تھی مگر بھولے بھالے لوگ یقین کر بیٹھے اب جو صرف پونے پانچ روپے کے لگ بھگ کمی ہوئی تو سب دل تھام کر رہ گئے۔ اس کے علاوہ اور وہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ میاںمحمد بخش کھڑی شریف والے نے کیا خوب کہا تھا
ماڑے دا کی زور محمد
نس جانا یا رونا
اب یہ بھی شکر کریں اتنا بھی ہو گیا ورنہ اگر یہ بھی نہ ہوتا تو وہ کیا کر لیتے۔ آج تک ان کے چاہنے یا ناں چاہنے سے کیا ہوا ہے‘ جو اب وہ امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ لہٰذا اب بھی وہ بھاگتے چور کی لنگوٹی پر ہی اکتفا کریں یہی غنیمت ہے۔ ویسے ہمارے حکمرانوں کی بھی کیا بات ہے‘ جب کسی چیز کی قیمت بڑھانا ہو تو 10 یا 20 روپے سے کم نہیں زیادہ ہی بڑھاتے ہیں اور اگر کم کرنی ہو تو صرف 2 یا 3 روپے کو ہی خطیر کمی سمجھتے ہوئے عوام پر احسان جتاتے ہیں۔ اب معلوم نہیں بجٹ میں یہ کمی کا شاخسانہ کہیں ہمیں پٹرولیم کی قیمتوں میں پھر اضافہ کی شکل میں نہ بھگتنا پڑے۔ اکثر یہی ہوتا آیا ہے۔ باقی کیا ہوتا ہے جلد پتہ لگ جائے گا۔
٭٭٭٭٭
میرا منہ نہ کھلوائیں میں سب کو جانتا ہوں۔ شیر افضل مروت
شبلی فراز ، عمر ایوب اور بیرسٹر گوہر کی سنہری تکون نے جس طرح تحریک انصاف میں برمودا ٹرائی اینگل کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس کی زد میں آ کر شیر افضل مروت کا ٹائی ٹینک بھی ڈوب گیا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ تباہ کن جہاز اس طرح سیاسی گرداب میں پھنس کر اپنا وجود ہی کھو دے گا۔ مگر کیا کریں پیارے اس بازار سیاست میں دلوں کے نہیں جیبوں کے سودے ہوتے ہیں۔ یہاں جذبات کو بھی پھولوں کی طرح مصلحت کے قدموں تلے کچلا جاتا ہے۔ حالانکہ مروت کا گناہ کچھ زیادہ نہیں تھا جو کچھ پارٹی کے بانی کہتے تھے۔ وہی مروت اور گنڈا پور بھی کہتے تھے۔ اسد قیصر اور علی محمد خان بھی کہتے ہیں مگر یہ برق صرف اور صرف مروت کے سر ہی کیوں گری۔ غالب نے بھی کسی ایسی ہی حالت پر کہا تھا ’’گری ہوں بجلیاں جس پر وہ میرا آشیاں کیوں ہو‘‘
اب مروت نے گزشتہ روز کافی خاموشی کے بعد جب چپ کا روزہ توڑا تو اپنے پرانے روایتی انداز میں خوب گرجے بھی اور برسے بھی۔ ان کا یہ کہنا کہ ’’میرا منہ نہ کھلوائیں میں سب کو جانتا ہوں‘‘یہ تمام حالات کی عکاسی کرتا ہے۔ پی ٹی آئی کے عام کارکن بھی شیر افضل مروت کے خون ناحق پر خوش نہیں۔ کیونکہ انہیں جس قسم کا رہنما چاہیے وہ مروت ہی ہے یا پارٹی کا قائد۔ اس کے علاوہ امین گنڈاپور ہی تحریک کے کارکنوں کو لبھا سکتے ہیں۔ باقی سب تو اتوار کامیٹنی شو ہیں جو ہاف ٹکٹ پر عوام کی تفریح کا ذریعہ ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
گرمی کے ستائے آوارہ کتوں کے کاٹنے سے ہزاروں افراد زخمی
جس طرح سردی اور گیس کی قلت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اسی طرح گرمی اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کا ازلی ساتھ ہے۔ آج سے 50 سال پہلے کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں اس وقت بھی یہی پاکستان کا اہم مسئلہ تھا کہ گرمیوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ سے عوام تنگ آئے نظر آتے تھے آج بھی صورتحال یہی ہے۔ گرمی اس بار جو پڑ رہی ہے وہ واقعی ریکارڈ توڑ ہے۔ بڑے شہروں سے لے کر چھوٹے شہروں تک میں درجہ حرارت خطرے کی نشان کو کراس کرتا نظر آتا ہے۔ درجنوں افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ ہسپتال مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ اب اس کے ساتھ ایک نئی مصیبت نے لوگوں کو گھیر لیا ہے۔ پہلے ہی ہیضہ، پیچش، خسرہ کی وبا سے لوگ پریشان ہیں اور ہسپتالوں میں جگہ نہیں ہے کہ اب اطلاعات کے مطابق گرمی سے ہلکائے ہوئے بائولے کتوں نے اب تک 10 ہزار افراد کو کاٹ کر زخمی کر دیا ہے۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ جہاں بخار اور سردرد کی گولیاں دستیاب نہ ہوں وہاں کتے کے کاٹے کی لگائے جانے والی ویکسین جو کافی مہنگی ہوتی ہے‘ کہاں ملے گی۔ یوں ہزاروں افراد کی زندگیاں دائو پر لگ گئی ہیں۔ حکومت فوری طور پر کتوں کے کاٹنے کی وارداتوں کے تدارک کے لیے کتا مار مہم شروع کرے اور ہزاروں کی تعداد میں آوارہ پھرنے والے کتوں کو ختم کرے۔ ورنہ یہ انسانوں کو ختم کر دیں گے۔ اس کے لیے ریبسیس کی ویکسین فوری طور پر متاثر علاقوں میں مہیا کی جائے تاکہ لوگوں کی جان بچائی جائے۔ جب تک یہ آوارہ خطرناک کتے سڑکوں گلیوں میں پھرتے رہیں گے تو بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو ان کے خوفناک حملوں سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اس لیے برطانوی دور کی طرح فوری طور پر کتا مار مہم شروع کی جائے۔ جانوروں سے محبت کے باوجود انگریز ہر سال کتا مار مہم میں ہزاروں آوارہ کتوں کو تلف کرتے تھے۔
٭٭٭٭٭
’’اکھ لڑی بدوبدی‘‘ کی پھر دھوم ۔چاہت فتح علی خان کے بعد ابرارالحق نے بھی گایا۔
چاہت فتح خان نے موسیقی کا بیڑہ غرق کیا یا نہیں کیا‘ یہ تو فن موسیقی کے ماہرین ہی جانتے ہوں گے البتہ لوگوں کی اکثریت اسے فن موسیقی کا آخری گرتا ہوا مینار تصور کرتے ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے گزشتہ دنوں پاکستانی فلم انڈسٹری کی شاہکار فلم بنارسی ٹھگ کے مشہور عالم گانے ’’اکھ لڑی بدوبدی‘‘ کو اپنے انداز میں گا کر ‘یا رو کر ‘برصغیر میں ایک بار شہرت دی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ آج پاکستان کے علاوہ بھارت کے طول و عرض میں یہ گانا وہاں کے مقامی فنکار اپنی اپنی موسیقی کا تڑکا لگا کر گا رہے ہیں۔ کیا مشرقی پنجاب ‘کیاہریانہ‘ چندی گڑھ جموں کشمیر، ہماچل پردیش جہاں جہاں پنجابی ہے، یہ گانا لاکھوں دفعہ سنا جا چکا ہے اور وہاں کے مقامی فنکاروں نے اپنے اپنے انداز میں گا کر اسے مزید مقبول کر دیا ہے۔ اب اس کے بعد چاہت فتح علی خان کے سابقہ گناہ تو معاف سمجھیں۔ سوشل میڈیا پر جب کشمیری، پنجابی، پہاڑی، ہماچلی، ڈوگری و دیگر گلوکار ’’اکھ لڑی بدوبدی‘‘ گاتے ہیں تو لاکھوں افراد جھوم رہے ہوتے ہیں۔اب تو ابرارالحق نے بھی اسے اپنے اندازمیں گاکراسے نیا ا نداز دیاہے۔ اپنے دور میں بھی یہ گانا عروج پر تھا۔ آج پھر عروج پر جا رہا ہے۔ یہ معلوم نہیں نور جہاں کی آواز کا کمال تھا یا موسیقار اور نغمہ نگار کا یا پھر فلم میں اداکار ممتازکے ڈانس کا؟؟؟
٭٭٭٭٭