شیخ مجیب اور عمرانی ٹویٹ
کہتے ہیں تاریخ کو نہ کبھی مٹایا جا سکتا ہے اور نہ ہی کبھی چھپایا جا سکتا ہے اور تاریخ سے حاصل ہونے والے اسباق سے اقوام اپنے راستے اور ضابط متعین کرتی ہیں اور ہمیشہ کے لیے ایسی لائنیں کھینچی جاتی ہیں کہ جن کو عبور کرنے والا یا تو غدار یا پھر باغی کہلاتا ہے اور یہی حال کچھ حالیہ دنوں عمران خان نیازی صاحب کا ہے جو کہ سقوط ڈھاکہ کو اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر ایک ماڈل بنا کر پیش کرنا چاہ رہے تھے مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ مثال ان کے گلے کی ہڈی بن جائے گی خان صاحب کی اس نئی شدنی پر بعد میں بات کرتے ہیں لیکن پہلے سانحہ مشرقی پاکستان کے فلیش بیک میں جا کر دیکھنا ہوگا کہ آخر کیوں سقوط ڈھاکہ کا لگا گہرا زخم پاکستانیوں کے لیے کبھی مندمل نہ ہو پائے گا اور اپنے ہرے پن کی بنا پر آج بھی 53 سال بعد 2024کی پاکستانی سیاست میں باعث تکلیف اور ہزیمت ہے اس کی وجہ وہ ذمہ داری کا تعین ہے جس کی بنا پر پاکستان دو لخت ہوا 1971 کی سیاسی حکومت اور افواج پاکستان ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے رہے لیکن دیکھا جائے تو بنگالیوں کو پاکستان سے الگ کرنے میں مرحوم ذلفقار علی بھٹو کلیدی کردار رکھتے تھے جنہوں نے محض اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ادھر ہم اور ادھر تم کا نعرہ لگا کر ایسے حالات کو تقویت بخشی کہ افواج پاکستان بھی بے بس ہو گئی جبکہ اس ضمن میں شیخ مجیب اور مکتی باہنی تحریک نے دوسرا اہم بنیادی کردار ادا کیا اور یہی وجہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمن سرکاری سطح پر پاکستانیوں کے لیے ناپسندیدہ ترین شخصیت ہے مگر کیا ہوا کہ آج کا ایک پاکستانی لیڈر اس کے گھناؤنے فعل کو درست قرار دے رہا ہے وہ لیڈر جس نے ساڑھے تین سال وزارت عظمیٰ کی مسند پر مزے لوٹے وہ اپنے اوپر بنے مقدمات کا سامنا کرنے کی بجائے جیل میں بیٹھ کر بھی اس گہرے زخم کو اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایک پریشر ٹیکٹکس کے طور پر استعمال کر رہا ہے اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی قانونی نظام میں اتنا سقم موجود ہے کہ پاکستانی جیل میں ایک قیدی نہ صرف شاہانہ انداز سے زندگی گزار رہا ہے بلکہ اتنا با اثر ہے کہ جیل سے بیٹھ کر اخبارات کو انٹرویوز دیتا ہے اور سوشل میڈیا پر ٹویٹ کرتا ہے کیا کوئی بتائے گا کہ دنیا کی کس جیل میں کس مجرم کو ایسی وی وی آئی پی سہولیات میسر رہی ہیں یعنی قید خانہ نہ ہو گیا بلکہ خالہ جی کا گھر ہو گیا جہاں سے جو جی یا جو من چاہے کر لیا جائے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو بے نظیر بھٹو ،نواز شریف ،مریم نواز ،زرداری اور مولانا مودودی میں سے کوئی ایسا جو جیل سے بیٹھ کر ارٹیکل لکھتا رہا ہو انٹرویو دیتا رہا ہو ٹویٹ کرتا رہا ہو یا کہ جیل کو اپنی پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں کے ہیڈ افس کے طور پر استعمال کرتا رہا ہو بالکل کوئی بھی نہیں بلکہ نواز شریف جب جیل میں تھے تو ان کو کلثوم نواز کے انتقال کی اطلاع بھی کء گھنٹوں بعد دی گئی جب وہ بستر مرگ پر پڑی اپنی بیوی کی آخری لمحات میں خبر گیری بھی نہیں کر سکے لیکن نیازی کے معاملے میں وہ کون سے غیبی محرکات ہیں کہ ایک مصدقہ مجرم کو کھلے بندوں اسیری میں ایسا کرنے کی اجازت ہے دیکھا جائے تو قصور موجودہ حکومت یا پھر اسٹیبلشمنٹ کا ہی ہے جس نے سیاسی انارکی پھیلانے کے لیے خود دروازے کھلے چھوڑ رکھے ہیں یہ بات روزے روشن کی طرح عیاں ہے کہ عمران خان کا یہ تخریبی ٹویٹ نہ ہی ریاست اور نہ ہی حکومت کو ہضم ہو پایا ہے اور نہ ہی ہضم ہو پائے گا جس میں شیخ مجیب اور جنرل یحیٰی کو اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ایک استعارے کے طور پر پوسٹ کیا گیا اب جب کہ اس کی سنگینی سامنے ارہی ہے اور حکومتی عملی کاروائی کا اغاز ہو چکا ہے تو اس ٹویٹ کے حوالے سے تحریک انصاف کے ترجمانوں کے اختلافی بیانات اس معاملہ کو مزید کنفیوز اور پیچیدہ کر رہے ہیں یاد رہے کہ خان صاحب کے ٹویٹر اکاؤنٹ کے فالورز اس وقت دو کروڑ سے تجاوز کر چکے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی فین فالوونگ رکھنے والے اکاؤنٹ کو کسی اناڑی کے حوالے کر دیا جائے یا اسے بیکار چھوڑ دیا جائے بلکہ آج کل ڈیجیٹل سوشل میڈیا کا دور ہے اور آپ کی بات چند ہی سینکڈوں میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہے اور اس پوسٹ کی ری پوسٹنگ کی رفتار نے حکومت کو مخمصے میں ڈال دیا ہے۔
حکومتی موقف کے مطابق یہ عوام میں بے چینی پیدا کرنے اور ان کو اشتعال پر اکسانے کی ایک گھناؤنی اور بھونڈی سازش ہے اور ایف آئی اے نے اس متنازعہ ٹویٹ پر عمران سمیت پی ٹی آئی کے دیگر تین بابوں سے بھی جواب طلبی کر لی ہے مگر ہٹ دھرمی دیکھیں کہ ابھی تک یہ ٹویٹ پی ٹی آئی کے آفیشل پیج کے ساتھ نہ صرف منسلک ہے بلکہ ٹاپ ٹرینڈنگ جا رہا ہے چاہیے تو یہ تھا کہ اسے ریموو کر دیا جاتا مگر اس کا برقرار رہنا یہ بتا رہا ہے دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے اس ملک دشمن پوسٹ سے ایک نظریہ جو کہMyth کی حیثیت رکھتا تھا وہ کامل یقین میں بدل گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کی جانب سے تمام ریاست اور ملک دشمن سوشل میڈیا مہم میں بیرون ملک سے اپریٹ ہوتی ہیں تو پی ٹی ائی ترجمان روف حسن نے اقرار کر لیا ہے کہ ہمارا سارا سوشل میڈیا امریکہ سے چلتا ہے مطلب سیاست پاکستان میں اور انتشار باہر سے پھیلایا جاتا ہے بات یہاں ختم نہیں ہوتی جیل میں بیٹھا عمران نیازی اپنے ترجمانوں کے ذریعے اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو خراج تحسین پیش کر کے باور کروا رہا ہے کہ جو کرنا ہے کر لو میں ہی ہوں جبکہ اس ٹویٹ میں حمودالرحمن کمشن رپورٹ کا تذکرہ کو ایک راز ظاہر کیا گیا ہے حالانکہ یہ رپورٹ نہ صرف جلد کی صورت میں بازار میں دستیاب ہے بلکہ نیٹ پر بھی موجود ہے۔جس بہت سے ایسے حقائق موجود ہیں جو کہ تحریک انصاف کے ریاست مخالف پروپیگنڈا کو زائل کرنے میں مددگار و معاون ثابت ہو سکتے ہیں لہذا سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے پاکستانی کو حمودالرحمن کمشن رپورٹ کو ضرور پڑھ لینا چاہیے تاکہ آنے والی نسلوں کو کسی مبالغہ کے بغیر پاکستانی تاریخ سے روشناس کروایا جا سکے اس کے ساتھ حکومت کو سختی سے ہر اس سیاسی جماعت کے تمام سوشل میڈیا بیجز کو بلاک کر دینا چاہیے جو نتائج اخذ کیے بغیر اشتعال انگیز پوسٹیں کرنے میں دیر نہیں لگاتے
٭…٭…٭