ستاروں کے مسکن میں
وہ جو اقبال نے کہا تھا کہ محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند تو کچھ غلط نہیں کہا تھا کہ ہماری نسل نو بھی اقبال کے شاہین کی طرح ہے جن کی نگاہ بلند ارادے بلند فکر و سوچ بھی بلند اور نظریں آ سمان پر ہوتے ہیں گزشتہ دنوں ایسے ہی علم و ادب کے ستاروں سے ملنے کا موقع سٹارز گرلز کالج ملتان میں میسر ہوا جہاں 49 درجے سینٹی گریڈ کی گرمی کے باوجود علم و ہنر کی حدت زیادہ نمایاں رہی سٹارز گرلز کالج کے
ایسے ہی ستاروں کے مسکن میں سالانہ تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں ان کے والدین اور اساتذہ کرام بھی شامل تھے بہت عرصہ ہوا اب ہمارے تعلیمی اداروں میں بزم ادب تقریری مباحث اور اس طرح کی دیگر غیر نصابی سرگرمیاں ناپید ہوتی جا رہی ہیں کتاب سے تعلق بھی ختم ہوتا جا رہا ہے اور ہم لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں۔
کاغذ کی یہ مہک یہ نشہ روٹھنے کو ہے یہ اخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی لیکن میں ہمیشہ یہ سمجھتا ہوں کہ کتاب کی کبھی بھی اخری صدی نہیں ہوگی کتاب سے عشق لا زوال ہے کہ کتاب ہمیشہ زندہ رہتی ہے اور کتاب مبین تو ہے ہی ہمیشہ کے لیے اور ہمیشہ سیدھے راستے پہ چلانے کے لییسٹارز کالج کے اس سالانہ فیسٹیول میں جا کر یہ احساس ہوا کہ اگر صرف خوب صورت بلڈنگ اور جدید عمارات پر ہی توجہ نہ دی جائے بلکہ مستقبل کے ان شاہینوں کے مستقبل پر اور ان کی بنیاد بنانے کے لیے اور انہیں مضبوط بنانے کے لیے اور انہیں کچھ بنانے کے لیے ان کی کردار سازی پر بھی پوری توجہ دی جائے تو مثبت نتائج سامنے ا سکتے ہیں اس لحاظ سے سٹارز کالج کے ایم ڈی اور سی او محمد اطہر ملک مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اسی نظریے کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اس تعلیمی ادارے کو مثالی ادارہ بنایا ہے اور ان کا اصل مقصد کمائی نہیں بلکہ مستقبل کے ڈاکٹر انجینئرز آرکٹیکچر اور ہر شعبہ میں نمایاں لوگ تیار کرنا ہے جو سائنس اور جدید ٹیکنالوجی سے بھی ہم اہنگ ہوں اور معاشرے کے مفید شہری بھی کہلا سکیں۔ یہی وجہ تھی کہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے اظہار خیال کرتے ہوئے راقم نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس ادارے سے تعلیم حاصل کرنے والی بہت سے طالبات سی ایس ایس کر کے اشرافیہ میں شامل ہو کر عوام پر حکومت کریں گی۔ بہت سے مسیحا بن کے ضرورت مندوں میں مسیحائی تقسیم کریں گی کہ ضرورت مندوں کے کام آ نا ہی تعلیم کا مقصد عظیم ہونا چاہیے۔ کسی درد مند کے کام آ نا اور کسی ڈوبتے کو ساحل پر اچھال دینا ہی انسانیت کی خدمت ہے ان طالبات میں سے کئی انجینئر بنیں گی کئی سائنٹسٹ بنیں گی کئی کمپیوٹر اور جدید ٹیکنالوجی سے ہم اہنگ ہو کر اچھے مستقبل کو اپنائیں گی ایک وقت تھا تعلیمی اداروں میں بزم ادب ہوتی تھی مباحثے مذاکرے ہوتے تھے شعر و شاعری ہوتی تھی تو صرف زیادہ نمبر لینے یا رینکنگ بہتر بنانے کی دوڑ نہیں لگی ہوتی تھی بلکہ معاشرے میں ہم اچھے انسان بھی بنانے میں کامیاب ہوتے تھے۔
اس تقریب میں چمکتے چہروں کو دیکھ کر ان کے عزم کو دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ہمارے نسل نو میں اعتماد ا رہا ہے ان کو لفظ اور معنی کی سمجھ ا رہی ہے ان کو بولنا رہا ہے انہیں سوال کرنا ا رہا ہے تقریری تحریری مقابلوں میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا جن کے موضوعات میں جدید ٹیکنالوجی کی افادیت اور لوگ کیا کہیں گے جیسے سلگتے سوالوں کے جواب موجود تھے اس مقابلے کی منصفی میں میرے ساتھ معروف افسانہ نگار اور شاعرہ صائمہ نورین بخاری بہاؤالدین زکریا رح یونیورسٹی کی ڈیبیٹنگ سوسائٹی کی عہدے دار وردہ بتول اور ایمرسن ڈبیٹنگ سوسائٹی کے سیکرٹری قمر محی الدین اور ایم ڈی محمد اطہر ملک بھی شامل تھے اور جب رزلٹ ایا تو وہ بھی طالبات کی صلاحیتوں اور ان کی ساتھی طالبات کی داد کے عین مطابق تھا اس موقع پر طالبات میں میڈل اور اسناد بھی تقسیم کیے گئے جو کہ حوصلہ افزائی اور ان کی صلاحیتوں کے اعتراف کے لئے بہت ضروری ہیں۔
اس خوبصورت اور نظم وضبط سے بھرپور پروگرام دیکھتے ہوئے یہ شعر بھی یاد آ یا کہ ارادے جن کے پختہ ہوں یقین جن کا خدا پر ہو تلا طم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے۔ تقریری مقابلوں میں طالبات کا ذوق و شوق دیکھ کر بھی یہی اندازہ ہوا کہ ان کے اساتذہ نے ان کی اچھی تربیت کی ہے اگرچہ ابھی بھی تعلیمی اداروں میں ضرورت ہے کہ شعرو ادب کو مزید فروغ دیا جائے تلفظ کا خاص خیال رکھا جائے اور طلبہ و طالبات کو شعر و ادب کی اصناف سے متعارف کرایا جائے تعلیمی اداروں میں کتاب شناسی کے لئے لائبریریوں اور ادب کے فروغ کے ادبی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ادبی جرائد کو فروغ دیا جائے۔ اعتماد کی بحالی کے لئے فن تقریر ہر توجہ دی جائے کہ بہت سوں کو اسٹیج پر لا کر ہی ان کی صلاحیتوں سے روشناس کرایا جا سکتا ہے یہ اور بات کہ ممبر پہ آ کے کچھ نہ کہیں خاموش لوگ بلا کے خطیب ہوتے ہیں۔ تو اس فصاحت و بلاغت اور خطابت کا ایک حسین اور خوبصورت امتزاج بھی دیکھنے میں آیا۔
ہمارے خطے کے معروف سرائیکی شاعر شاکر شجاع ابادی اور مخمور قلندری کے مقبول اور خوبصورت کلام کا بھی طالبات نے سرائیکی نظم کے مقابلے میں خوب انتخاب کیا اور نہ صرف اس پر داد وصول کی بلکہ انعام بھی وصول کیا اس خوبصورت پروگرام میں پرنسپل وفا عظیم بٹ جنہیں درس و تدریس اور انتظامی امور کا وسیع تجربہ ہے مستعد اور ادبی ذوقِ کی حامل کوارڈینیٹر مس اقصی اور سحرش جعفر کے علاوہ سکول کے تمام اساتذہ کا ٹیم ورک دلچسپی اور مہارت دیکھنے میں ائی یہ خوش آئند بات ہے کہ ہمارے پرائیویٹ تعلیمی ادارے ایک منافع بخش انڈسٹری بننے کے بجائے اپنے طالب علموں کی شخصیت سازی میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے بس اس بات کی کمی ہے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی عبید اللہ علیم نے چاند چہروں اور ستارہ انکھوں کی بات کی تھی تو اس تقریب میں بھی نوجوان نسل کے چاند چہروں پر ان کے مستقبل کی دمکتی چاندنی موجود تھی ان کی انکھوں میں امید کے ستارے چمک دمک رہے تھے اسی لیے تو اقبال نے کہا تھا کہ ستاروں سے اگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق امتحان اور بھی ہیں۔ کتاب سے جڑے رہنے کا پیغام دیتے ہوئے محبت کو عام کرتے ہوئے راقم کا یہی کہنا تھا کہ ہمیں نفرت کے خاتمے اور محبت کو عام کرنے کے پیغام کے ساتھ اگے بڑھنا ہے سٹارز جیسے تعلیمی اداروں کی طرح دیگر کو بھی معیاری اور مثبت تعمیری غیر نصابی سرگرمیوں کو فروغ دینا چاہیے نہ کہ ہلے گلے اور فضول پروگراموں کو فروغ دیا جائے بقول پروین شاکر گلاب ہاتھ میں ہو انکھ میں ستارہ ہو کوئی وجود محبت کا استعارہ ہو۔
٭…٭…٭