ارکانِ پارلیمان اور سرکاری افسران کے اثاثے پبلک کرنے کا مطالبہ
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے ایک بار پھر وزراء، ارکان پارلیمان اور سرکاری افسران کے اثاثے پبلک کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اثاثے ظاہر کرنے پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔ وزراء اور ارکان پارلیمنٹ الیکشن کمیشن کے قواعد کے مطابق اثاثے ظاہر کرنے کے پابند ہیں، دوسری صورت میں ان کی رکنیت معطل ہو جاتی ہے۔ لیکن سرکاری ملازمین پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ کئی سرکاری افسران کے اسی وقت اثاثے سامنے آتے ہیں جب ان کے خلاف نیب میں کیس درج ہو جاتا ہے۔ بعض بیوروکریٹس کی تو اربوں روپے کی جائیدادیں سامنے آتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ کے گھر سے 73 کروڑ روپے برآمد ہوئے۔ اس کے علاوہ پرائز بانڈ، ڈیپازٹ، سرٹیفکیٹس، سونے کے زیورات اور جواہرات بھی چھاپے کے دوران ان کے گھر سے ملے تھے۔ حال ہی سامنے آنے والی دبئی لیکس میں بھی حیران کن انکشافات ہوئے ہیں۔ آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ کے اعداد وشمار کے مطابق، ایک درجن سے زیادہ ریٹائرڈ بیوروکریٹس اور ان کے خاندانوں کی دبئی کے مہنگے اور اعلیٰ درجے کے علاقے میں جائیدادیں سامنے آئی ہیں۔ ان میں سول پولیس اور فوجی افسران شامل ہیں۔ جب یہ لوگ بھرتی ہوتے ہیں تو ان کی جائیدادیں کتنی ہوتی ہیں؟ ملازمت کے دوران اربوں کھربوں کی جائیدادوں کے مالک کیسے بن جاتے ہیں؟ کئی افسران تو بیرون ممالک جزیروں کے بھی مالک ہیں۔ یہ سوال عام آدمی کے لیے حیران کن بلکہ پریشان کن ہے۔ ایسے لوگوں کو منی ٹریل کا پابند کرنا ناگزیر ہے۔ عوام کے سوالات کے جواب نہیں آئیں گے تو ان میں بے چینی بڑھے گی۔ ریاست سے بیزاری میں اضافہ ہوگا۔ اس کی قیمت جمہوریت ادا کرے گی، جمہوری ادارے ادا کریں گے اور ریاست بھی ادا کرے گی۔ ایسے بیوروکریٹس پر جمہوریت اور ریاست کو قربان نہیں کیا جا سکتا۔ اثاثے ظاہر کرنے کا مطالبہ آئی ایم ایف کی طرف سے کیا گیا ہے جس کی ہر پاکستانی حمایت کرتا ہے۔ یہ مطالبہ پاکستان کے اندر سے آتا اور اس پر عمل ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔ ہو سکتا ہے کچھ بیوروکریٹ جدی پشتی امیر ہوں۔ ان کی اولادوں کو بھی لوگ کرپٹ نوکر شاہی کی صف میں ہی کھڑا کریں گے۔ ان کو اپنے اثاثے ظاہر کرنے کا آغاز کر دینا چاہیے۔ جو نہیں کرتے ان کے ساتھ سختی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔