مخصوص نشستیں کیس ، بلے کے نشان والے فیصلے پر لوگوں کو مِس گا ئیڈ کیا گیا ، جسٹس جمال
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ عوام کو کبھی انتخابی عمل سے الگ نہیں کیا جاسکتا، عوام نے کسی آزاد کو نہیں سیاسی جماعت کے نامزد افراد کو ووٹ دیے۔ انتخابی نشان واپس ہونے کے بعد تاثر دیا گیا سیاسی جماعت ختم اور جنازہ نکل گیا۔ چیف جسٹس فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 13 ججز پر مشتمل فل کورٹ بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی گئی۔ فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے گزشتہ سماعت کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے کہا یہاں 2 مختلف درخواستیں عدالت کے سامنے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل خیبرپی کے نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ میں ہماری حکومت کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر ہے، سپریم کورٹ پہلی سماعت پر پشاور ہائیکورٹ کا متعلقہ فیصلہ معطل کر چکی ہے۔ کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کنول شوزب نے فریق بننے کی متفرق درخواست دائر کی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فیصل صدیقی کو دلائل مکمل کرنے دیں پھر آپ کو بھی سنیں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کیس میں فریق مخالف کون ہیں؟ بینیفشری کون تھے جنہیں فریق بنایا گیا؟۔ فیصل صدیقی نے بتایا کہ جنہیں اضافی نشستیں دی گئیں وہی بینیفشری ہیں، مجموعی طور پر 77 متنازعہ نشستیں ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے پوچھا کہ قومی اسمبلی کی کتنی اور صوبائی اسمبلی کی کتنی نشستیں ہیں، تفصیل دے دیں؟۔ جس پر فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے بتایا قومی اسمبلی کی 22 اور صوبائی کی 55 نشستیں متنازعہ ہیں۔ سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے کہا کہ ن لیگ، جے یو آئی اور پیپلزپارٹی کو اضافی اقلیتی نشستیں دی گئیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو اضافی نشستیں دوسری جماعتوں کو دی گئی ہیں اس کا جواب الیکشن کمیشن سے لیں گے۔ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ پنجاب میں سنی اتحاد کونسل کی21 مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دے دی گئیں، پنجاب میں 19 ن لیگ، استحکام پاکستان پارٹی اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کو ایک ایک متنازعہ نشست دی گئی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں بینیفشری جماعتوں کا بتا دیں، جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آپ نے 20 نشستیں بتائی ہیں، جس پر وکیل نے بتایا کہ اقلیتوں کے کوٹے پر ایک پیپلز پارٹی، ایک ن لیگ ایک جے یو آئی کو ملی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اب الیکشن کمیشن سے پوچھیں گے یہ 22 نشستیں ہیں یا 23 ہیں، اب صوبائی اسمبلی کی نشستیں بھی ہمیں بتا دیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا کہ ان جماعتوں نے اپنی نشستیں کتنی جیتی ہیں؟ جس پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے عدالت کو تمام جماعتوں کی نشستوں کی تفصیل بتادی۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) نے سنی اتحاد کونسل کی اپیل کی مخالفت کردی۔ چیف جسٹس نے جے یو آئی (ف) کے وکیل کامران مرتضی سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ کی جماعت کا پورا نام کیا ہے؟ جس پر کامران مرتضی نے بتایا کہ ہماری جماعت کا نام جمیعت علما اسلام پاکستان ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا اگر آپ کی جماعت سے ف نکال دیں تو کیا حیثیت ہوگی؟ جس پر وکیل کامران مرتضی نے کہا پارٹی کا لیڈر نکل جائے تو پارٹی کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ اے این پی اور استحکام پاکستان پارٹی کی طرف سے کوئی ہے؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ اے این پی اور استحکام پاکستان کی طرف سے کوئی نہیں ہے۔ دوران سماعت سپریم کورٹ میں بجلی چلی گئی جس پر وکیل صدیقی صدیقی نے کہا کہ یہاں تو اب لائٹ بھی چلی گئی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بجلی چلی گئی تو پھر یہ جنریٹر سے کیوں نہیں آئی؟ یہ ٹی وی اور لائٹس تو چل رہی ہے، میرے خیال میں صرف کمرہ عدالت کے اے سی نہیں چل رہے۔ وکیل سنی اتحاد کونسل نے عدالت کو بتایا کہ امیدواروں نے سرٹیفکیٹ لگایا تھا الیکشن کمیشن نے کہہ دیا آپ آزاد امیدوار ہیں، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن کو یہ اختیار ہے کہ کسی کو خود آزاد ڈیکلئیر کر دے؟ جب پارٹی بھی کہہ رہی ہو یہ ہمارا امیدوار ہے، امیدوار بھی پارٹی کو اپنا کہے الیکشن کمیشن کا اس کے بعد کیا اختیار ہے؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میرا آفس بند کردیا گیا ہے کچھ دستاویزات نہیں لاسکا، اس پر چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ ایسی باتیں عدالت میں نہ کریں، اگر آپ کا دفتربند ہے، کوئی مسئلہ ہے تو درخواست دیں، ہم حکم جاری کریں گے۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹرگوہر نے روسٹرم پر آکر بات کرنے کی کوشش کی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم صرف وکلاء کو سنیں گے، فیصل صدیقی آپ بات کریں، عدالت میں سیاسی باتیں نہ کی جائیں۔ جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس منیب اختر نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی ایڈوکیٹ سے سوالات پوچھے۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے فیصل صدیقی ایڈووکیٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ فیصل صدیقی میں آپ کو ریسکیو کرنا چاہتا ہوں لیکن آپ خود ریسکیو ہونا نہیں چاہ رہے، عدالت پہلے آپ کو سننا چاہتی ہے، آپ اپنے دلائل مکمل کریں۔ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے چیف جسٹس سے استفسار کیا کہ آپ نے بھی ابھی تک سوالات نہیں پوچھے، جس پر قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں سوالات ضرور آئیں گے، اگر دلائل میں چیزیں واضح نہیں کریں گے تو کیس کیسے سمجھیں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 22 دسمبر کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی، جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی اپیل پر سپریم کورٹ نے 13 جنوری کو ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا انتخابی نشان واپس ہونے کے بعد آرٹیکل 17 کے تحت قائم سیاسی جماعت ختم ہوگئی تھی؟ کیا انتخابی نشان واپس ہونے پر سیاسی جماعت امیدوار کھڑے نہیں کرسکتی؟ تاثر تو ایسا دیا گیا جیسے سیاسی جماعت ختم ہوگئی اور جنازہ نکل گیا۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے پوچھا کہ کیا انتخابی نشان واپس ہونے سے سیاسی جماعت تمام حقوق سے محروم ہوجاتی ہے؟۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا یہ اخذ کرسکتے ہیں کہ پی ٹی آئی بطور جماعت برقرار تھی؟۔ مخصوص نشستوں کی فہرستیں بھی جمع کرائی تھیں؟ جس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی نے فہرستیں جمع کرائیں لیکن الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سوالات کو چھوڑیں اپنے طریقے سے جواب دیں، جس پر فیصل صدیقی نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ شکر ہے ابھی آپ نے سوال نہیں پوچھے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فل کورٹ میں بیٹھنے کا مزا اور تکلیف یہی ہے، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کسی سیاسی جماعت کے خلاف جا سکتا ہے؟۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو آرٹیکل 218 (3) کا حوالہ دینا بہت پسند ہے، نوٹیفکیشن کے مطابق سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں کوئی نشست نہیں جیتی تھی، الیکشن کمیشن کے احکامات میں کوئی منطق نہیں لگتی، الیکشن کمیشن ایک جانب کہتا ہے سنی اتحاد الیکشن نہیں لڑی ساتھ ہی پارلیمانی جماعت بھی مان رہا، اگر پارلیمانی جماعت قرار دینے کے پیچھے پی ٹی آئی کی شمولیت ہے تو وہ پہلے ہوچکی تھی۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر سنی اتحاد کونسل سے غلطی ہوئی تھی تو الیکشن کمیشن تصحیح کر سکتا تھا، عوام کو کبھی انتخابی عمل سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر ایسا ہوجائے تو نشستیں پی ٹی آئی کو ملیں گی سنی اتحاد کو نہیں، عوام نے کسی آزاد کونہیں بلکہ سیاسی جماعت کے نامزد افراد کو ووٹ دیے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایک بار پھر فیصل صدیقی کو ججزکے سوالات کے جواب دینے سے روک دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے دلائل نہیں دیں گے تو مجھے کیا سمجھ آئے گی کہ آپ کی جانب سے کیا لکھنا ہے، میرا خیال ہے ہم آپ کو سننے بیٹھے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ ایک غیر ذمہ دارانہ بیان ہے، فل کورٹ میں ہر جج کو سوال پوچھنے کا اختیار اور حق حاصل ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ فیصل صاحب آگے بڑھیں میں نے ہلکے پھلکے انداز میں بات کی تھی، جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اس قسم کا غیرذمہ دارانہ بیان تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے آزاد امیدواروں کوسنی اتحاد کونسل میں شمولیت سے نہیں روکا، الیکشن کمیشن کہہ سکتا تھا اس جماعت نے تو الیکشن نہیں لڑا، الیکشن کمیشن نے مگر ایسا نہیں کیا لوگوں کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کو تسلیم کیا، جب 3 دن کا وقت گزرگیا اس کے بعد الیکشن کمیشن نے کہہ دیا آپ کوتو مخصوص نشستیں نہیں ملنی، اب وہ لوگ کہہ سکتے ہیں آپ نے شمولیت کروائی اب میں اپنا حق مانگنے آیا ہوں، الیکشن کمشین پہلے شمولیت درست مانتا ہے بعد میں مخصوص نشستیں بھی نہیں دیتا، رکن اسمبلی کہہ سکتا ہے پہلے شمولیت سے روکا نہیں تواب حق بھی دیں۔جس پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ پشاورہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقراررکھا تھاجسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کیا آزاد امیدوار کے لیے لازمی ہے کہ سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرے؟ آزاد امیدوار رجسٹرڈ سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتا ہے، مخصوص نشستیں خودکار نظام کے تحت تو نہیں مل سکتیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ بلے کے نشان والے فیصلے پر لوگوں کو مس گائیڈ کیا گیا، آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں بھی شامل ہوسکتے تھے کوئی پابندی نہیں تھی۔جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس کے بعد چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ آپ پی ٹی آئی کی جانب سے نہیں بول سکتے، میرے قلم نے آدھے گھنٹے سے کچھ نہیں لکھا، آپ نے آدھے گھنٹے سے کچھ بھی نہیں لکھوایا۔جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں پہلے حقائق آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں، آپ لکھ لیں کہیں قلم سوکھ نہ جائے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہم حقیقت کو کیوں نہ دیکھیں، سنی اتحاد کونسل ہمارے سامنے اس لئے ہے کہ اس میں پی ٹی آئی کے جیتے لوگ شامل ہیں۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کو دلائل میں کتنا وقت لگے گا؟ جس پر فیصل صدیقی نے بتایا کہ میں دلائل میں دوسے تین گھنٹے لوں گا اورکچھ دستاویزات پیش کروں گا۔سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے کہا کہ قانون کے مطابق مخصوص نشستوں کے لیے کسی جماعت کا الیکشن لڑنا ضروری نہیں، آزاد امیدوار بھی جماعت میں شامل ہوجائیں تومخصوص نشستیں دی جانی ہیں، ماضی میں ایک قانون آیا تھا کہ مخصوص نشستوں کیلئے الیکشن لڑنا اور پانچ فیصد ووٹ لینا لازم تھا، وہ قانون بعد میں ختم کردیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا حقیقی پوزیشن یہی ہے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ جی سارا تنازعہ یہی ہے، الیکشن کمیشن اس کے بعد سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کر چکا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا یہی تو مسئلہ بنا ہوا ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان نے کہا کہ یہ بھی شامل کرلیں کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ بھی نہیں دی تھی۔