ڈھٹائی
وکالت کی کلاس میں ایک طالبعلم نے استاد سے بنیادی سا سوال پوچھ لیا،وکالت ہوتی کیا ہے؟ استاد نے کچھ توقف کے بعد جواب دیا، فرض کریں جج کے سامنے دو لوگ پیش ہوئے ایک صاف ستھرا نہایا دھویا تھا اور دوسرا گندا تھا۔ جج نے کہا پہلے نہا کے آو۔ تو کون نہائے گا؟ طالب علم یک زبان ہوکر بولے وہی جو گندا تھا۔ استاد نے کہا نہیں ،نہا کے وہ آئے گا جو صاف ستھرا ہے اسے عادت ہے ،گندے والے کو تو نہانے کی عادت ہی نہیں۔ پھر استاد نے یہی سوال دوبارہ کیا اور پوچھا اب بتاو کون نہا کر آئے گا طالب علم بولے صاف شخص کیوں کہ اسے نہانے کی عادت ہے ،استاد نے نفی میں سر ہلا کر سب کو حیران کردیا نہیں جو شخص صاف ستھرا ہے نہا کر آیا ہے وہ کیوں نہائے گا اسے ضرورت نہیں، نہانے کی ضرورت تو اسے ہے جو گندا ہے وہی نہا کر آئے گا۔ طلبا حیران ہوئے اور لاجواب بھی۔
استاد نے یہی سوال پھر پوچھ لیا ، طلبا نے استاد والا جواب دہرا دیا یقینا گندا آدمی نہانے جائے گا اسے اس کی ضرورت ہے تو استاد نے پھر نفی میں سر ہلا دیا کہا دونوں نہائیں گے کیوں کہ جج نے کسی ایک کا نام تو نہیں لیا صاف ستھرے آدمی کو تو نہانے کی عادت ہے وہ پھر نہا لے گا اور گندے کو اس کی ضرورت ،تو اسے نہانا پڑے گا۔ طالب علم ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ پھر استاد نے پوچھ لیا اب بتاو کون نہائے گا تو طلبا بولے دونوں ،استاد نے پھر نفی میں سر ہلاتے ہوئے جواب غلط قرار دے دیا اور بولا دونوں نہیں نہائیں گے ،طلبا کی حیرانی کو دیکھتے ہوئے استاد بولا دیکھو جو صاف ہے اسے ضرورت نہیں جو گندا ہے اسے عادت نہیں تو دونوں نہیں نہائیں گے۔
سوال کرنیوالے طالب علم نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا یہ کیا، آپ نے اپنی ہی ہر پچھلی بات کو اپنی اگلی بات میں دلیل کیساتھ غلط ثابت کیا، استاد بولا یہی وکالت ہے۔ آپ نے اپنی بات کو دلیل کیساتھ درست ثابت کرنا ہے۔ سیاست اور وکالت کا چولی دامن کا ساتھ ہے ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت وکیل ہی ہیں اور شاید وکیل کامیاب سیاستدان اسی لئے بنتا ہے کہ وہ ہر بات کو درست ثابت کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، ہمارے یہاں کسی جماعت کو وکلا کی سب سے زیادہ ضرورت پیش آئی تو وہ تھی تحریک انصاف ،وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ انہوں نے عمران خان کیخلاف بننے والے کیسز لڑنے تھے بلکہ اس لئے بھی کہ انہوں نے خان صاحب کے ہر روز کے یوٹرنز کا دفاع بھی کرنا تھا آج کی بات کو درست کہتے ہوئے کل اسی بات کو غلط ثابت کرنا یہ کام کوئی تجربہ کار وکیل ہی کرسکتا ہے لیکن بات یہ بھی ہے کہ وکیل ایک حد تک ہی موکل کا دفاع کرسکتا ہے۔ اس کے بعد تو دلائل کی بجائے ڈھٹائی ہی رہ جاتی ہے۔ باقی تو چلیں قیام پاکستان کے وقت ملک کی آبادی کو چالیس کروڑ بنا ڈالنا ،جرمنی اور جاپان کی سرحدوں کو ایک ساتھ ملا دینا، بارہ موسم جیسے بیانات کو زبان کا پھسلنا کہہ کر جان خلاصی کی جاسکتی ہے لیکن خان صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کوئی بھی بات کریں ماضی میں کبھی نہ کبھی انہوں نے اس بات کے یکسر متضاد کوئی نہ کوئی بیان دیا ہی ہوتا ہے۔ اب اس کا دفاع کیسے کیا جائے۔
ماضی کے بیان کو درست کہا جائے تو موجودہ بیان کی نفی اور موجودہ کے حق میں بولا جائے تو ماضی کی غلطی ماننا پڑتی ہے۔ تو یہاں یہ جواز گھڑ لیا جاتا ہے کہ اس وقت کے حالات میں وہ بیان ٹھیک تھا۔ آج یہ۔ اب یہ کوئی دفاع تو نہیں ڈھٹائی ہی ہے۔خان صاحب کی پارٹی اور کارکن سبھی ایک کام پر لگے رہے ہیں۔ خان صاحب کا دفاع ہر چیز کا دفاع اور خان صاحب بھی انہیں اس دفاع کیلئے ایک سے بڑھ کر ایک امتحان میں ڈالتے چلے آرہے ہیں۔ اب نو مئی کے واقعات کا کوئی کیسے دفاع کرسکتا ہے جہاں ایک فاش غلطی کا خمیازہ پوری جماعت نے بھگتا اور بہت سے آج بھی بھگت رہے ہیں لیکن یہاں بھی دفاع کرنیوالوں نے ڈھٹائی کیساتھ خود کو معصوم اور متاثرہ فریق بنا کر ہیش کرنے کی کوشش کی۔
اب بات شیخ مجیب والی اس ویڈیو تک آ پہنچی ہے جو خان صاحب کے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ پر ڈالی گئی۔ تنقید ہوئی تو کسی نے کہا غلطی سے ہوگئی کسی نے کہا ویڈیو ڈالنے والے تو امریکہ میں ہیں خان صاحب کو تو علم ہی نہیں۔ لیکن پھر پارٹی نے اس کا دفاع شروع کردیا کہ اس میں ایسی کونسی بات ہے۔ یہ بات تو فلاں نے بھی کی فلاں نے بھی وغیرہ۔ لیکن خان صاحب کے علاوہ پارٹی کی قیادت بالخصوص وکلا یہ جانتے ہیں کہ یہ ایک اور بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے جس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا،دراصل خان صاحب کا بڑا مسئلہ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی ہے جو انہیں کسی کی بات ماننے دیتی ہے نہ سننے، اور جلدبازی ،غصے اور انتقام کے جذبے سے کئے جانیوالے فیصلے اکثر ایسے ہی ہوتے ہیں جن کا دفاع ڈھٹائی اور انجام پسپائی ہی ٹھہرتا ہے۔ لیکن پھر کیا ہوا، انہوں نے اس پسپائی کا دفاع بھی ڈھٹائی سے ہی تو کرنا ہے۔