وزیراعظم کا دورہ چین، اقتصادی استحکام کی نوید
وزیراعظم محمد شہباز شریف آج 4 جون سے 8 جون تک چین کا دورہ کررہے ہیں۔ وزیراعظم کے دورہ چین کی مصروفیات سے متعلق جاری اعلامیے کے مطابق شہباز شریف کا چینی شہر شینزین کا دورہ 4 اور 5 جون کو ہوگا جبکہ 6 اور 7 جون کو وہ چین کے دارالحکومت بیجنگ کا دورہ کریں گے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ شہباز شریف 8 جون کو چین کے شہر ژیان کا دورہ کریں گے اور اسی روز دورہ مکمل کر کے وطن واپس پہنچیں گے۔ وزیراعظم دورہ چین میں حکومتی عہدیداروں بالخصوص چینی صدر شی جن پنگ اور اپنے چینی ہم منصب لی کیانگ سے ملاقات کریں گے۔ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ یہ دورہ سرمایہ کاروں کو پاکستان میں پر امن اور قابلِ عمل ماحول دینے میں کردار ادا کرے گا۔ اعلامیے کے مطابق، دورے سے چینی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنے کا موقع ملے گا۔ وزیراعظم کے دورے سے پاکستان اور چین کے درمیان دو طرفہ تجارت میں اضافہ ہوگا۔ یہ دورہ پاک چین اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کی جانب ایک اور اہم قدم ہے۔ مضبوط کاروباری شراکت داریاں قائم کرنے سے دونوں ممالک کو طویل مدتی فوائد ملیں گے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ شہباز شریف کے چین کے دورے سے پاکستان کو چین کی معروف ٹیک کمپنیوں تک رسائی ملے گی۔ وزیراعظم چین میں بڑے پیمانے پر کاروباری شراکت داری کے خواہاں ہیں۔
یہ اطلاعات بھی منظر عام پر آئی ہیں کہ وزیراعظم کے اس پانچ روزہ دورے کا وفاقی بجٹ کی تیاری پر تو کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن اس دوران چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے فیز 2 کا اعلان کیا جائے گا جس میں اربوں ڈالرز کے 4 منصوبے شامل ہیں۔ ان منصوبوں میں پہلے زراعت اور دوسرے نمبر پر ایم ایل ون منصوبہ پر کام شروع کرنے کا اعلان ہوگا۔ ایم ایل ون منصوبہ تقریباً 6.7 بلین ڈالر کا ہے۔ تیسرے منصوبہ بزنس ٹو بزنس ڈیل سے متعلق ہے جبکہ چوتھے منصوبے میں قراقرم ہائی وے کی ری الائنمنٹ شامل ہے۔ اس دورے میں وزیراعظم چین کے جن دو صوبوں میں جائیں گے وہ معیشت کے حوالے سے اپنی پہچان رکھتے ہیں۔
جمعے کے روز شہباز شریف کے دورے کی تصدیق کرتے ہوئے چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ماو نِنگ نے کہا کہ دونوں ممالک کے قائدین کی رہنمائی میں چین اور پاکستان نے حالیہ برسوں میں نہ صرف اعلیٰ سطحی وفود کے تبادلے کیے ہیں بلکہ مستحکم طور پر سی پیک کے سلسلے میں عملی تعاون کو آگے بڑھایا ہے اور بین الاقوامی اور علاقائی امور میں دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط رابطے اور ہم آہنگی برقرار رکھی گئی ہے۔
کہا جارہا ہے کہ دوسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد شہباز شریف کا یہ پہلا دورہ چین دونوں ملکوں کے مابین حکومتی اور کاروباری سطح پر باہمی تعاون کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے جس کا مقصد توانائی اور زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔ علاوہ ازیں، اس دورے کے دوران خصوصی اقتصادی زونز کے بارے میں بھی بات چیت ہوگی۔ وزیراعظم کے اس دورے کی وجہ سے ہی وفاقی بجٹ پیش کرنے میں تاخیر کی جارہی ہے اور امید ہے کہ شہباز شریف کی وطن واپسی پر 10 جون یا اس کے بعد وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
ایک طرف حکومت معیشت کی بہتری کے لیے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دے رہی ہے تو دوسری جانب یہ خبر منظرِ عام پر آئی ہے کہ پاکستان کے مقامی قرضوں میں 4 ہزار 622 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ مارچ تک مقامی قرض بڑھ کر 43 ہزار 432 ارب روپے ہوگیا۔ ملک پر قرضوں کا بوجھ ساڑھے 6 فیصد بڑھ کر 61 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ رواں مالی سال کے آغاز پر پاکستان پر مقامی قرضوں کا حجم 38 ہزار 809 ارب روپے تھا۔ اس کے ساتھ یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ رواں مالی سال بیرونی قرضے 89 ارب روپے کم ہو کر 21 ہزار 941 ارب روپے ہو گئے جبکہ حکومت کے ذمے بیرونی واجبات 6 فیصد بڑھ کر 3 ہزار 284 ارب روپے پر پہنچ گئے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ڈیل سے مقامی و بیرونی قرضوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔
یہ ایک نہایت افسوس ناک بات ہے کہ مقتدر حلقوں کی طرف سے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایسے ہی دیگر اداروں پر انحصار کر کے ملک کی معیشت کو تباہ کردیا گیا ہے۔ اگر ماضی میں بھی قرضے مانگنے کی بجائے دوست ممالک کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے پر توجہ دی جاتی تو آج ملک اس حال میں نہ ہوتا۔ حد تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف جیسے اداروں کی ناروا شرائط مان کر عوام پر بوجھ اس قدر بڑھایا جاچکا ہے کہ اب لوگ جمہوریت اور جمہوری اداروں کے ساتھ ساتھ ریاست سے بھی بدگمان دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اب ہی وہ اپنا قبلہ درست کر لے اور مسلسل آئی ایم ایف کے در پر کشکول لے کر کھڑے ہونے کی بجائے ان دوست ممالک کے ساتھ معاملات بہتر بنائے جو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
سی پیک منصوبے کے تحت چین پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کررہا ہے۔ دونوں دوست ممالک کے مابین زراعت کے شعبے میں تعاون کا منصوبہ ایک خوش آئند پیشرفت ہے۔ لیکن مقامی اور بیرونی قرضوں کا حجم بڑھنا اقتصادی ماہرین اور پالیسی سازوں کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد اگر ان میں مزید اضافہ ہوا تو حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔ معاشی استحکام کے لیے ٹھوس پالیسی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اپنے دیرینہ اور معاون دوست چین کو بھی مطمئن کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں تمام سٹیک ہولڈرز کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور اس بات پر ساری توجہ مرکوز کرنی چاہیے کہ چین اور متحدہ عرب امارات سمیت ان تمام دوست ممالک کو سرمایہ کاری کے لیے بہترین ماحول فراہم کیا جائے جو اس مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس موقع پر اگر ہم نے غیر ملکی سرمایہ کاری کی اہمیت کو نہ سمجھا تو آئندہ ہمارے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا جس کی وجہ سے ریاست مزید کمزور ہوگی۔ حکمرانوں کے چاہیے کہ وہ اب سیاسی بلیم گیم کے کلچر سے باہر نکل کر ساری توانائیاں معیشت کو بہتر بنانے کے لیے خرچ کریں۔