• news

 اب کس سے "آزادی" مطلوب ہے؟۔

واشنگٹن میں 2022ء  کے موسم بہار کے دوران تعینات پاکستانی سفیر اسد مجید خان کو امریکی وزارت خارجہ کے ایک اہم افسر نے مبینہ طورپر ایک ’’دھمکی آمیز پیغام‘‘ دیاتھا۔پیغام ملتے ہی فرض شناس سفیر نے سائفر کے ذریعے اسے اسلام آباد بھجوادیا۔ پیغام اپنی منزل تک پہنچا تو سابق وزیر اعظم نے اس کی بابت دہائی مچا دی۔ پاکستان کے شہر شہر جاکر یہ تاثر پھیلایا کہ امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ ان کی آزاد منش پالیسیوں سے ناراض ہوگئی ہے۔ یوکرین کے خلاف جنگ کے آغاز سے عین ایک روز قبل ان کا دورہ ماسکو اسے ہضم نہیں ہوا۔ پاکستانی سفیر سے اس دورے کے بعد ملاقات کے دوران تڑی لگائی گئی کہ چونکہ عمران خان اپنے ’’امریکہ مخالف‘‘ رویے کو ترک کرنے کو تیار نہیں اس لئے انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانا امریکی مفادات کے تحفظ کیلئے لازمی ہوگیا ہے۔ عمران خان سے نجات کے اس منصوبے پر عملدرآمد کے لئے پاکستان کی تمام حکومت مخالف جماعتوں کو یکجا کردیا گیا۔ان سب نے باہم مل کر قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کردی۔
تحریک انصاف کے نامزد کردہ قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر مگر اس تحریک پر گنتی کروانے میں لیت ولعل سے کام لیتے رہے۔ عمران خان دریں اثنا شہر شہر جاکر اپنی حکومت کے خلاف ’’امریکی سازش‘‘ کو بے نقاب کرتے رہے۔ مذکورہ سازش بے نقاب کرتے ہوئے انہوں نے قومی سلامتی امور کے چند نگہبانوں کی نیت پر بھی سوال اٹھانا شروع کردئے۔ ’’میر جعفر و میر صادق‘‘ کے حوالے دینے لگے۔ان کا بیانیہ عوام کی بے پناہ تعداد نے دل وجان سے قبول کرلیا تو تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کردی گئی۔ ان دنوں کے وفاقی وزیر فواد چودھری نے ایک طولانی تقریر کے ذریعے مذکورہ تحریک کو قومی مفاد اور وقار کے منافی قرار دیا۔ قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے ان کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کروانے کے بجائے اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔
وزیر اعظم کے خلاف باقاعدہ انداز میں پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد پر گنتی نہ کروانا آئین کی دیدہ دلیر خلاف ورزی تھی۔ اسی باعث سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لے کر اس پر گنتی کا حکم دینا پڑا۔ گنتی ہوئی تو بانی تحریک انصاف وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوگئے اور فراغت کے بعد اپنے عہد کے مطابق ’’مزید خطرے ناک‘‘ بھی۔ عوام سے براہِ راست خطاب اور ریگولر وسوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال کے ذریعے انہوں نے عوام کی کثیر تعداد کو قائل کردیا کہ ’’سامراجی مزاج‘‘ کے حامل امریکہ نے انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کے لئے ’’رجیم چینج‘‘ نامی حربے کا استعمال کیا ہے۔ یہ حربہ ایران کے وطن پرست رہ نما ڈاکٹر مصدق اور چلی کے عوام دوست صدر آلندے کے خلاف بھی استعمال ہوا تھا۔ ’’رجیم چینج‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے اگرچہ انہوں نے پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے خلاف 1977ء  میں چلائی تحریک کا ذکر نہیں کیا۔ حقائق جوبھی رہے ہوں۔ بانی تحریک انصاف عوام کی کثیر تعداد کو اس امر پر قائل کرنے میں کامیاب رہے کہ ان کی جانب سے سائفر کے حوالے سے سنائی داستان برحق ہے۔
سابق وزیر اعظم جس توانائی اور یکسوئی کے ساتھ اپنی داستان سناتے رہے اس کا توڑ ان کی مخالف سیاسی جماعتیں(اور ریاستی قوتیں بھی) ڈھونڈ نہ پائیں۔ تحریک انصاف کی جگہ آئی بھان متی کا کنبہ دکھتی حکومت وزارتوں کی بندربانٹ میں مصروف رہی۔ حکومت سنبھالتے ہی شہباز حکومت کو یہ فکر بھی لاحق ہوگئی کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے  سے کیسے محفوظ رکھا جا ئے۔ دیوالیہ سے بچنے کی خاطر پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہوا۔ عوام پر مہنگائی کا عذاب مسلط کرتے ہوئے عمران مخالف سیاست دان عوام کو یہ حقیقت بھی سمجھا نہیں پائے کہ مہنگائی کا اصل ذمہ دار آئی ایم ایف سے ہوا وہ معاہدہ ہے جو عمران حکومت کے دوران ڈاکٹر حفیظ شیخ نے بطور غیر منتخب ٹیکنوکریٹ طے کیا تھا۔ موصوف کی جگہ آئے بینکر سے وزیر خزانہ ہوئے شوکت ترین نے انتہائی رعونت سے مذکورہ معاہدے میں طے کردہ شرائط پر عملدرآمد سے انکار کردیا تو آئی ایم ایف نے مٹھی بند کرلی۔آئی ایم ایف کسی ملک کی مدد کو آمادہ نہ ہو تو اس کے قریب ترین اور ’’برادر‘‘ ملک بھی سہارا دینے کو آمادہ نہیں ہوتے۔ مہنگائی کا عذاب اس ملک کے عوام ہی کو برداشت کرنا ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ اْٹھے قضیہ کے علاوہ روس کی یوکرین کے خلاف شروع کی جنگ نے بھی تیل اورگیس کی قیمتوں کو آسمان کی جانب اٹھانا شروع کردیا۔
جو حالات تھے وہ اس امر کے متقاضی تھے کہ شہباز حکومت مستعفی ہوکر نئے انتخابات کی جانب بڑھتی۔ وہ مگر پاکستان کو دیوالیہ ہونے  سے بچانے میں مصروف ہوگئے۔ ’’میر جعفر‘‘ کا طعنہ سننے کے باوجود قمر جاوید باجوہ بھی تحریک انصاف کے نامزد کردہ صدر علوی کی وساطت سے بانی تحریک انصاف کو ’’ٹھنڈا‘‘ کرنے کی فکر میں مبتلا رہے۔ سیاسی اور ریاستی اداروں کی کوتاہ بینی نے جو خلا پیدا کیا اس نے عدلیہ کو متحرک ترین بنادیا۔ وہ عوامی جذبات کی ’’حقیقی ترجمان‘‘ محسوس ہونا شروع ہوگئی۔ سیاسی بحران کی بدولت آبادی کے اعتبار سے ہمارا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ایک سال تک منتخب حکومت سے محروم رہا۔ ایسے حالات میں 8فروری کے روز ہوئے انتخاب نے عمران مخالف سیاسی قوتوں کو مزید کمزور بنادیا۔ان کے مخالف محلاتی سازشوں میں ملوث ’’موروثی سیاست‘‘ بچانے کو ہاتھ پا?ں مارتے نظر آنے لگے۔ ’’قیدی نمبر804‘‘ حق وصداقت اور ثابت قدمی کی واحد علامت شمار ہونا شروع ہوگئے۔
اپریل 2022ء سے وطن عزیز میں جو خلفشار برپا ہے اس کے ہوتے ہوئے ’سائفر‘‘ جیسے حساس معاملہ پر سابق وزیر اعظم کے خلاف بنائے مقدمے کو بہت بھونڈے انداز میں چلایا گیا۔ اس حوالے سے جیل میں ہوا ٹرائل عجلت کی وجہ سے مزید بھونڈا نظر آنے لگا اور پیر کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس مقدمہ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے۔ سائفر کیس تو ختم ہوگیا مگر پاکستان کے سادہ لوح عوام آج تک یہ جان نہیں پائے ہیں کہ اسد مجید خان کی جانب سے بھیجے پیغام کی ایک نقل وزارت خارجہ میں واپس کیوں نہیں آئی۔ اس کی ’’گمشدگی‘‘ کا ذمہ دار کون ہے۔ دنیا میں کسی بھی ریاست کیلئے خواہ وہ کمزور ترین ہی کیوں نہ ہو سائفر پیغام حساس ترین دستاویز شمار ہوتی ہے۔ اس کی نقل کا غائب ہوجانا برداشت کیا ہی نہیں جاسکتا۔ ہمارے ہاں مگر سب چلتا ہے والا رویہ ہے۔ سائفر کیس لہٰذا تمام شد۔ سوال اس کے بعدبھی مگر یہ اٹھانا لازمی ہے کہ اپریل 2022ء  میں عمران حکومت کو ہٹانے کی اصل ذمہ دار امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ تھی یا نہیں۔ نظر بظاہر نہیں کیونکہ ایک معروف بین الاقوامی صحافی مہدی حسن کو تازہ ترین انٹرویو دیتے ہوئے بانی تحریک انصاف نے اپنی تمام تر مشکلات کا ذمہ دار فقط قمر جاوید باجوہ کو ٹھہرایا ہے۔ امریکہ سے ’’حقیقی آزادی‘‘ کی جنگ تمام ہوئی۔ اس کے باوجود سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اب کس سے ’’آزادی‘‘ مطلوب ہے؟

ای پیپر-دی نیشن