فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ سے معیشت کو بے پناہ نقصانات
تحریر : سید شعیب شاہ رم
shoaib.shahram@yahoo.com
خبروں میں کچھ روز قبل گندم کا مسئلہ بہت گردش میں تھا، جس میں حکومت کی غلط پالیسی اور جلد بازی کے فیصلے نے کسانوں اور پورے فوڈ سیکٹر کو مشکلات سے دوچار کر دیا تھا، لیکن یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ پاکستان کے عوام اور کاشتکار حکومتی فیصلوں کی بھینٹ چڑھیں ہوں۔ کہنے کو تو ہم معاشی بحران سے گزر رہے ہیں، آئے روز خبروں میں یہ نقطہ اٹھایا جاتا ہے اور معیشت پر اس کے منفی نتائج کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ لیکن یہ نئی بات نہیں۔ کورونا کے وبائی مرض کے دوران پیدا ہونے والے عالمی معاشی بحران سے پاکستان بھی نہ بچ سکا، اور مسلسل کسی نہ کسی مسئلہ کا سامنا کر رہا ہے۔ تاہم دنیا کے دیگر ممالک بہتر پالیسی اور حکمت عملی سے اس بحرانی کیفیت سے نکلنے میں کامیاب ہوئے لیکن بدقسمتی سے پاکستان اس بحران سے نہ نکل سکا بلکہ اس میں مزید پھنستا چلا گیا۔ پھر حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے ایسے اقدامات بھی ہیں جس کے منفی نتائج پوری معیشت کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ پاکستان جو ایک زرعی ملک ہے لیکن گزشتہ چند سالوں سے ہماری ناقص پالیسی اور انتظامیہ کی نااہلی کے باعث ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم، چینی، سبزیاں درآمد کرنے لگے ہیں۔ نتیجتاً درآمدات میں بے پناہ اضافہ، برآمدات میں کمی کے باعث تجارتی خسارہ، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور پھر اس کمی کو پورا کرنے کیلئے قرضوں کا بوجھ، جس میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ ہماری معیشت کا انحصار اب قرضوں پر ہی ہے۔ اگر مناسب منصوبہ بندی کی جاتی اور درست وقت پر درست فیصلے کئے جاتے تو پاکستان آج اس مقام پر نہ ہوتا۔ جیسا کہ ابتدائی کلمات میں کسانوں کی مشکلات کا ذکر کیا، کسانوں کا ایک مسئلہ تو ایسا سے جس پر عرصے سے مٹی ڈال کر دبا دیا گیا ہے۔ ہم پڑوسی ملک پر تنقید کرتے ہیں کہ وہاں کسانوں کا بے دردی سے استحصال کیا جا رہا ہے لیکن ہمارے ملک میں کسان اور کاشتکار جن مشکلات سے گزر رہے ہیں اس پر ہم توجہ نہیں دیتے۔
حکومت کی جانب سے گزشتہ سال فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو 10 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دیا گیا۔ حکومت کی توقع تھی کہ اس سے ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہوگا، کیونکہ پاکستان میں اس وقت جوس اور نیکٹر انڈسٹری تیزی سے پھل پھول رہی تھی اور 50 ارب روپے کے حجم تک پہنچ گئی تھی، اس وقت ماہرین کی توقع تھی کہ یہ انڈسٹری 70 ارب روپے تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن حکومت کی جانب سے اس انڈسٹری پر FED کی مد میں 10 فیصد اضافہ کر دیا گیا، جس کا منفی اثر اس انڈسٹری پر پڑا اور انڈسٹری کا حجم بڑھنے کی بجائے گھٹ کر 40 ارب روپے پر آگیا اور مزید کم ہوتا جا رہا ہے۔ ایک سال کے دوران تیزی سے ترقی کرتی یہ انڈسٹری تنزلی کا شکار ہوگئی۔کیونکہ پاکستان میں عوام کی قوت خرید محدود ہے تو FED میں اضافہ کے باعث مہنگے ہوتے جوس اور پلپ کے باعث فروخت میں خاطر خواہ کمی ہوئی، جس کا براہ راست اثر کسانوں پر پڑا۔
پاکستان میں پھلوں اور سبزیوں کو محفوظ رکھنے کے معقول انتظامات نہیں، جس کی وجہ سے کاشتکاروں کو مجبوراً پھل اور سبزیوں کو فوری طور پر جیسے تیسے فروخت کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں پھل اور سبزیوں کے ضائع ہونے کا تناسب دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے بہت زیادہ ہے، اگرچہ پاکستان کی پھل اور سبزیوں کی مانگ دنیا میں بہت زیادہ ہے لیکن پھلوں سبزیوں کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ اس کا توڑ جوس انڈسٹری نے یہ نکالا تھا کہ کسانوں کے ساتھ مل کر پھلوں کے پلپ کو نکالنے اور انہیں فوری طور پر پراسیس کرنے سے ضائع ہونے کے تناسب پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا تھا، اور یہاں تک کہ ایک لاکھ ٹن تک پہنچ گیا تھا۔ تاہم FED لگنے کے بعد کمپنیوں نے نقصان سے بچنے کیلئے آپریشنز اور ملازمین کی تعداد میں کمی کی، انڈسٹری کو مجبوراً 40 فیصد ملازمت میں کٹوتی کرنی پڑی اور پھر دوبارہ سے پھلوں سبزیوں کی بڑی تعداد ضائع ہونے لگی جس کی وجہ سے کسانوں کاشتکاروں کے پاس اپنی فصل کو اونے پونے داموں فروخت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ نتیجتاً کسان کو ان کی محنت کا وہ صلہ نہیں ملتا جس کی انہیں توقع ہے۔ دوسری جانب حکومت نے ٹیکس ریونیو میں اضافہ کا جو تخمینہ لگا رکھا تھا اس میں اضافہ ہونے کی بجائے کمی ہوئی اور حکومت کی آمدن گھٹ گئی۔
اسی لئے ضروری ہے کہ حکومت پیکجڈ جوس انڈسٹری پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں کمی کرے کیونکہ اعداد و شمار کے مطابق کاربونیٹڈ ڈرنکس یا جنہیں ہم عام زبان میں کولڈ ڈرنک کہتے ہیں صحت کیلئے زیادہ نقصاندہ ہیں اور ان میں پھلوں کے پلپ بھی نہیں ہوتا، جبکہ پھلوں کے مشروبات میں پلپ کا تناسب 50 سے 100 فیصد تک ہوتا ہے۔ تو ضروری ہے کہ عوام کو اصل پھلوں کے پلپ والے ڈرنکس کی فراہمی کریں اور حکومت کو ایک بڑی انڈسٹری کو ڈوبے سے بچائیں جس سے حکومت کو کم ہونے والے ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہو۔ ضروری نہیں کہ ٹیکس کا تناسب بڑھانے سے ریونیو میں بھی اضافہ ہو، بعض اوقات ٹیکس شرح میں کمی سے ریونیو میں اضافہ ہوسکتا ہے یہ بات ہم نے بہت تلخ تجربہ حاصل کرکے سیکھی ہے اور وقت ہے کہ اس غلطی کو درست کیا جائے اور FED کی شرح کم کرکے دوبارہ 5 فیصد مقرر کی جائے، اس سے نہ صرف حکومت بلکہ انڈسٹری، ملازمت کے بڑھتے مواقع، کسانوں کاشتکاروں کی آمدن میں اضافہ، اور پھلوں اور سبزیوں کے ضیاع کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔