• news

 بدھ ‘27  ذیقعد 1445ھ ‘ 5 جون 2024

چمن میں پولیو ورکرز اور انکے سکیورٹی اہلکاروں پر حملہ۔
دیکھ لیں جہالت کس طرح گھنگھرو باندھ کر ہمارے سروں پر ناچ رہی ہے۔ کرنا کیا ہوتا ہے، ہم کیا کرتے ہیں۔ پھر روتے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا۔ اس وقت چمن بارڈر پر پاکستان کی طرف سے افغانستان سے آنے جانے والوں کے لیے پاسپورٹ ویزا کی ٹریولنگ پالیسی کے اجرا کے خلاف بلوچستان کے ٹرانسپورٹوں نے احتجاجی ہڑتال کر رکھی ہے اور صرف یہی نہیں بارڈر پر دھرنا بھی دیا ہوا ہے جو کئی ہفتوں سے جاری ہے۔ کئی بار تصادم کی نوبت بھی آ چکی ہے۔ کوئٹہ چمن شاہراہ پر ہزاروں ٹرک پھنسے ہوئے ہیں۔ اب یہ شور شرابا چل رہا کہ گزشتہ روز مظاہرین کے جتھوں نے اچانک علاقے میں وہاں انسداد پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر ہلہ بول دیا۔ پولیو ورکرز اور ان کی سکیورٹی پر ما مور پولیس والوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر زخمی کر دیا یہ تو وہی طوطے کی بلا بندر کے سریا گرنا کھوتے سے اور غصہ کمہار پر نکالنے والی بات ہے۔ مظاہرہ کس بات پر ہو رہا تھا اور حملہ کن پر کیا گیا جو انہی لوگوں کے بچوں کو معذوری سے بچانے کے لیے گھر گھر جا کر انہیں قطرے پلا رہے ہیں۔ ان کا سامان بیگ بھی توڑ کر ویکسین ضائع کر دی۔ یہ لوگ اس قدر بے حس ہیں کہ انہیں اندازہ نہیں یہ کتنا ظلم کر رہے ہیں اپنی آنے والی نسل پر۔ اس سال اب تک پاکستان میں پولیو کے 4 کیسز سامنے آ چکے ہیں جن میں سے 3 بلوچستان سے ہیں جبکہ ایک سندھ سے ہے۔ ہر سال عالمی اداروں کے تعاون سے بچوں کو اس موذی مرض سے بچانے کے لیے اربوں روپے خرچ کر کے قطرے پلائے جاتے ہیں مگر یہ نیم خواندہ لوگ اس مہم کی راہ میں ہر طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر کے نجانے کونسی نیکی کما رہے ہیں۔ 
سائیکل کے کلچر کو فروغ دیا جائے مریم نواز کا عالمی دن پر پیغام۔
گزشتہ روز دنیا بھر میں سائیکلنگ کا عالمی دن منایا گیا جس کا ماٹو ہے سائیکل چلاﺅ فٹ رہو۔ اس کے علاوہ سائیکلنگ کے فروغ سے ماحولیاتی آلودگی سے بھی نجات ملتی ہے۔ دنیا بھر میں سائیکل کو بطور سواری پسند کیا جاتا ہے۔ اس کے استعمال پر خرچہ بھی کچھ نہیں آتا۔ صحت بھی بہتر رہتی ہے۔ پاکستان میں بھی کچھ عرصہ پہلے تک سائیکل چلانے کا عام رواج تھا۔ شہر ہوں یا دیہات۔ ہر جگہ سائیکل سوار اپنے اپنے کام پر جاتے نظر آتے تھے۔ دفاتر والے بابو ہوں یا فیکٹری ورکرز۔ ان کے علاوہ نوجوان طالب علم بھی سکولوں اور کالجوں میں سائیکلوں پر آتے جاتے تھے۔ اساتذہ کی بھی یہی سواری تھی۔ اس وقت رستم و سہراب ، ایگل اور دوسری سائیکلیں عام تھیں۔ پھر چائنا کی سائیکلیں آئیں جو ذرا فیشن والی تھیں۔ اسی طرح سپورٹس سائیکلوں کو بھی فروغ ملا۔ پھر موٹر سائیکلوں نے یہ خوبصورت کلچر ہم سے چھین لیا۔ سڑکوں پر آلودگی پھیلاتی دھواں اور شور مچاتی یہ سواری مقبول ہوئی۔ اس کے استعمال سے رش بھی بڑھ گیا۔ اخراجات بھی۔ اور انسان بھی تن آسان ہو گیا۔ یوں آہستہ آہستہ سائیکلیں تو کباڑ خانوں کی زینت بن گئیں۔ اب وزیر اعلیٰ پنجاب نے درست کہا ہے کہ سائیکل کلچر واپس لا کر ہم صحت اور آلودگی کے مسائل سے نپٹ سکتے ہیں۔ یہ ایک اچھی ورزش بھی ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں بڑے بڑے لوگ سیاستدان، وزرائے اعظم بڑے فخر سے سائیکل استعمال کرتے ہیں انہیں تو شرم نہیں آتی۔ ہم احساس کمتری کے مارے لوگ نجانے کیوں سائیکل چلاتے ہوئے شرماتے ہیں جبکہ ”آ جا نی بہہ جا سائیکل تے“ والے ابرار الحق کے گانے پر شادیوں میں خوب ہلہ گلہ کرتے ہوئے تو نہیں شرماتے۔ حالانکہ اب تو ایک سے بڑھ کر خوبصورت سائیکل مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ ہاں یاد آیا وہ صدر ضیاءالحق والی سائیکل نجانے کہاں ہے۔ وہ بھی کام آ سکتی ہے۔ ورنہ ہم صرف یورپی ممالک کے حکمرا نوں کی مثالیں ہی دیتے رہیں گے۔
عیدالاضحی میں 2 ہفتے باقی، جانوروں کی منڈیوں میں رش کم۔ 
اس بار چونکہ گرمی زیادہ ہے سورج کا پارہ ہائی ہے شاید اسی لیے یا پھر جانوروں کے ریٹ بھی ہائی ہیں اور انہیں سن کر خریداروں کا بی پی ہائی ہو جاتا ہے۔لوگ باہرنہیں آ رہے۔ اس لیے فی الحال مویشی منڈیوں میں وہ رونق نظر نہیں آ رہی جو اس کا خاصہ ہے۔ حالانکہ عید قریب آ رہی ہے۔ ان دنوں میں تو خریداری شروع ہو جاتی ہے۔ گلی محلوں میں جانوروں کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ بچے تو خاص طور پر اس موقع پر خاصے جذباتی ہو جاتے ہیں اور گھر والوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ جلد از جلد قربانی کا جانور گھر لائیں۔ اب کی بار مہنگائی کا جن مویشی منڈیوں میں ناچ رہا ہے۔ مریل سے جانور پر بھی ہاتھ نہیں رکھا جا رہا۔ لوگ قیمتیں سن کر ہی واپس آ رہے ہیں یا پھر جانوروں کو دیکھ کر دل بہلا رہے ہیں۔ بیوپاری کبھی آسمان کی طرف دیکھتے ہیں کبھی جانوروں کی طرف اور کبھی خریداروں کی طرف جو حسرت و یاس کی تصویر بنے منڈیوں میں مٹرگشت کرتے نظر آتے ہیں۔ تاہم ابھی سے ناامید ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ابھی کچھ دن ہیں۔ ریٹ اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں۔ بیوپاری دعا کرتے ہیں منافع مناسب ملے۔ خریدار دعا کرتے ہیں قیمت کم ہو، ان کے علاوہ قصاب دعا کرتے ہیں کہ جانور زیادہ بکیں تاکہ وہ اپنی چھریاں تیز کر کے قربانی کے جانوروں سمیت قربانی کرنے والوں کی کھالیں بھی اتار سکیں۔ خدا کرے ان سب کی دعائیں پوری ہوں اور ملک بھر میں سنت ابراہیمی جوش و خروش سے ادا ہو تاکہ جو لوگ گوشت خرید نہیں سکتے انہیں کم از کم کچھ دن گوشت کھانے کو ملے اور وہ بھی مزے کریں۔ 
جو ہر ٹاون کے ہاسٹل اورفیصل ٹاون کے پارلر میں خفیہ کیمروں کا انکشاف۔
اخلاقی گراوٹ اور ہوس ہی نہیں شیطانیت اور جنسی وحشت نے بھی ہمارے معاشرے کو پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے۔ شرم و حیا اور عزت ہم سے روٹھ کر کوسوں دور چلی گئی ہے۔ لاہور میں گزشتہ دو روز میں یکے بعد دیگرے دو علاقوں جوہر ٹاﺅن اور فیصل ٹاﺅن سے ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ سرشرم سے جھک گیا۔ اگرچہ ایسے شرمناک معاملات پہلے بھی سننے میں آتے رہے ہیں مگر جوہر ٹاﺅن کے گرلز ہاسٹل کے باتھ روم میں خفیہ کیمرے کی خبر افسوسناک بھی ہے کیونکہ سینکڑوں لڑکیاں لاہور میں پڑھنے اور جاب کرنے کے لیے آتی ہیں اور یہاں نجی ہاسٹلز میں ٹھہرتی ہیں۔ اگر وہاں بھی ان کی پرائیویسی محفوظ نہیں۔جن بدکردار مرد و خواتین مالکان نے یہ گھٹیا حرکت کی ہے وہ ناقابل معافی ہیں۔ اور بھی نجانے کس کس ہاسٹلز میں کیا ہوتا ہو گا۔ اسی طرح فیصل ٹاﺅن میں بیوٹی پارلر میں کپڑے بدلنے والی جگہ پر یہی کام ہوتا ہے۔ شرم و حیا ختم ہو چکی جنسی آوارگی اور ہوسناکی نے احترام کو کچل دیا ہے۔ پہلے بھی کئی دکانوں کے ٹرائی روم میں ایسے کیمرے لگنے پر گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غلط کردار والے لوگ اب ہاسٹلز کی، بیوٹی پارلر کی آڑ میں کیسا گھناﺅنا کام کر رہے ہیں۔ اس وقت صوبے کی وزیر اعلیٰ خود بھی ایک خاتون ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ تمام نجی ہاسٹلز کی کڑی نگرانی اور چیکنگ کا حکم دیں تاکہ ایسے اخلاق باختہ کاموں کی روک تھام ہو اور اس کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ ورنہ کئی معصوم زندگیاں تباہ ہونےکاخطرہ ہے۔

ای پیپر-دی نیشن