”لندن پلان “کی اصل کہانی کیا ہے؟
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں برطانیہ کے شہر لندن کو ہمیشہ ایک امتیازی حیثیت حاصل رہی ہے۔ پاکستانی سیاستدانوں کے لیے نہ صرف یہ ایک سیاسی پناہ گاہ ہے بلکہ آئے دن اس سے جڑی ہوئی سیاسی اورسازشی کہانیوں کے الزامات اور جوابی الزامات میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔حال ہی میں نواز شریف نے ایک بار پھر اپنی جماعت کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی سے ایڈ ریس کر تے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان ، طاہر القادری اور لیفٹینینٹ ظہیر السلام(ر) نے مل کر انکی حکومت کو 2014ءمیں ختم کر ڈالا۔ انہوں نے بتایا کہ 2013ءمیں حکومت ملنے کے بعد سب سے پہلے انہوں نے جو کام کیا وہ عمران خان سے بنی گالا میں بالمشافہ ملاقات تھی تاکہ وہ ان سے مل کر ایک ورکنگ ریلیشن شپ قائم کر سکیں لیکن باہمی انڈر سٹینڈنگ کے باوجود وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ برطانیہ چلے گئے۔ ان کی سازش کے نتیجے میں ان کی واپسی پر ان کے خلاف گلی کوچوں میں مظاہرے شروع ہوگئے۔"اگر عمران خان کو میرے خلاف کوئی تحفظات تھے تو انہیں میرے سامنے لانا چاہیے تھا۔ بظاہر یہ ایک تکلیف دہ معاملہ ہے کہ ایک بندہ آپ سے خلوص نیت کی بنیاد پر تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔ آپ مل کر کام کرنے کا وعدہ بھی کرتے ہیں اور دوسری طرف پیٹھ میں چھرا گھونپ دیتے ہیں"۔لیکن۔یہ تو نوازشریف کی اپنی اسٹیٹمنٹ ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف لند ن پلان کیسے شروع ہوا؟۔
نیوز میڈیا کے سینئرصحافی اور تجزیہ نگار مبشر بخاری کے مطابق منہاج القران کے چیئر مین طاہر القادری 2012ءمیں پاکستان میں تشریف لائے۔ لاہور سے اسلام آباد کے لانگ مارچ کے دوران انہوں نے قادری صاحب سے انٹرویوکے دوران پوچھا کہ انکی جنرل ریٹائرڈ شجاع پاشا اور انکے ساتھیوں کے ساتھ جو ٹیلیفونک یا بالمشافہ ملاقات ہوئی اس کے بارے میں کچھ بتائیں؟اس پر قادری صاحب نے جواب دیا کہ "تم ملٹری جنرلز کے ساتھ میر ی ملاقاتوں کی بات کر تے ہو۔۔ میں اس بات کی وضاحت کرتا ہوں کہ میں نے کبھی کسی آرمی آفیسر سے نہ تو فون پر اور نہ ہی ذاتی ملاقات کی ہے"پھراسی صحافی نے انہیں یاد دلایا کہ 12 اکتوبر 1999ءکو جب ہر قسم کی کمیونیکیشن ، لینڈ لائنز اور موبائل وغیرہ کے
ذرائع بند تھے تو اسی شام طاہر القادری لاہور پریس کلب میں ایک ارجنٹ پریس کانفرنس شروع ہی کرنے والے تھے کہ ایک شخص ہال کے اندر داخل ہوا ،جس نے اپنے ہاتھ میں ایک کارڈ لیس فون اٹھایا ہوا تھا۔ اس نے کہا کہ آپ کے لیے" اعلیٰ اتھاریٹیز"کی طر ف سے ایک ارجنٹ کال ہے۔ قادری صاحب نے فون کو پکڑا اور ہال سے نکل گئے!۔۔تین چار منٹ کے بعد وہ دوبارہ ہال میں آئے اور انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ انہیں ایک جنرل نے فون پر بتایا ہے کہ انہوں نے" ٹیک اوور "کر لیا ہے اور نواز شریف کی حکومت کو ختم کردیا گیا ہے۔ نہ صرف یہ صحافی بلکہ میڈیا کے دیگر لوگ بھی پریشان تھے کیونکہ کسی قسم کی کوئی فون سروس موجود ہی نہ تھی بلکہ میڈیا والے بھی اپنی خبریں اپنے اپنے اخبارات کو بھیجنے سے قاصر تھے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک پیغام آپ کو فون پر مل گیا ہو؟تو انہوں نے جواب دیا کہ۔۔۔یہ ایک "سپیشل فون تھا"!اس واقعہ کے بعد اس صحافی نے پوچھا کہ اسی شام آپ نے یہ بات چیت فون پر کیوں کی؟یہ سوال سننے کے بعد قادری صاحب نے کہا کہ میں بہت "ٹائرڈ"یعنی بہت تھک گیا ہوں اور۔۔۔اب ہمیں یہ انٹرویویہیں ختم کرنا پڑے گا! اس کے بعد قادری صاحب نے نہ صرف لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کو لیڈ کیابلکہ ڈی چوک میں کچھ دنوں کے لیے دھرنا بھی شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ پیپلز پارٹی کے عمائدین ان سے بات چیت کے لیے ان تک پہنچ گئے۔اسی اثناءمیں چوہدری شجاعت حسین بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ دھرنے والی جگہ پرپہنچ گئے جنہوں نے چند دنوں کے بعد ان سے ایک ایسا ایگریمنٹ کیا جس کے نتیجے میں انہوں نے لانگ مارچ ختم کیااور وہ کینیڈا سدھار گئے۔ اب ہم دوبارہ 1999ءکے مشرف کے مارشل لاءکے بعد 2012ءکے دوسرے لندن پلان کی طرف آتے ہیں۔نواز شریف کے مطابق عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے جنرل ظہیر السلام (ر) کے ساتھ مل کر 2014ء میں لند ن پلان کے تحت سازش تیار کی۔تاہم ڈاکٹر طاہر القادری اس بات سے انکاری ہیں کہ اس سلسلے میں کسی آرمی آفیسر سے کوئی بھی ان کی ملاقات ہوئی ہے۔یاد رہے کہ جب نواز شریف اپنی سینٹرل ورکنگ کمیٹی سے بات کر رہے تھے تو وہ اسی سیکنڈ لندن پلان کی ہی بات کر رہے تھے۔ادھر عمران خان بھی اس بات سے مسلسل انکاری ہیں کہ ان کی ڈاکٹر طاہر القادری سے اس سلسلے میں کوئی ملاقات ہوئی ہے۔گویا لندن پلان کی سازش ایک ایسا مسئلہ ہے جو نہ سمجھنے کا اور نہ ہی سمجھانے کا ہے۔ تاہم ڈاکٹر طاہر القادری کے قریبی ساتھی نواز گنڈاپور اور پی ٹی آئی کے جاوید ہاشمی اس بات کے گواہ ہیں کہ 2018ءمیں ایسی ملاقاتیں ہوئی
تھیں اور خرم نواز گنڈا پور نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس بات کو تسلیم کیا کہ لندن پلان کی کہانی ایک حقیقت تھی اور انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جون 2014ءکے شروع میں چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہٰی بھی لندن میں موجود تھے۔ گنڈا پور کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس قسم کے الائینسسزکا بنانا کوئی ایسا غلط کام بھی نہیں تھاتاہم عمران خان اس بات سے مسلسل انکاری ہیں کہ وہ کسی بھی صورت میں لندن پلان یا کسی بھی میٹنگ حصہ رہے ہیں اور اس قسم کی کسی بھی میٹنگ کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ہم یہاں بھی آسانی کے ساتھ مل سکتے تھے اور اس مقصد کے لیے لندن جانا بھی ضروری نہیں تھااور اب‘جاوید ہاشمی جنہوں نے دھرنے کے دوران ہی پی ٹی آئی کو چھوڑ دیا تھا وہ اس بات کو کنفرم کرتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے اپنے مدد گاروں کے ساتھ فون پر کئی میٹنگیں کیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے! قصہ مختصر لندن پلان کے تحت کچھ بھی حاصل نہیں ہوا سوائے اس کے کہ نواز شریف کو مسلسل پریشر میں رکھا جائے۔ آخر کار نواز شریف کو کورٹ آرڈر کے ذریعے اقتدار سے باہر کیا گیا لیکن نواز شریف کا کہنا ہے کہ کورٹ آرڈر بھی لندن پلان ہی کا ایک حصہ تھا۔اب آتے ہیں تیسرے لند ن پلان کی طرف جو عمران خان کی اڈیالہ جیل میں 2024 ءکی گفتگوکے نتیجے میں سامنے آیا اور ان کی حکومت کے خلاف بنایا گیا جوکہ نہ صرف ان کی حکومت کو عدالتوں کے ذریعے ختم کرنے ان کی پارٹی کو دیوار سے لگانے اور کسی نہ کسی طریقے سے نواز شریف کے مقدمات کو ختم کرنا مقصود تھا۔ نہ صرف عمران خان بلکہ پی ٹی آئی کے دوسرے لیڈرز بھی کہتے ہیں کہ اگرچہ پی ٹی آئی کی حکومت کو No Confidence کے ذریعے ہٹایا گیا تھا لیکن یہ بھی لندن پلان کا ہی حصہ تھا جس میں ریٹائرڈ جنرل قمر باجوہ عملی طور شریک تھے۔
نواز شریف کےخلاف جوکچھ 1999ئ، 2013ء یا ماضی میں جو کچھ بھی ہواوہ اس کو وہ یاد کر کے کہتے ہیں کہ جو لوگ میری حکومت کو ختم کرنے اور ملک جو ترقی کی منزلیں طے کر رہا تھا اس کو" ڈی ریل" کرنے کی پاداش میں ایسے لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔انہوں نے قوم سے گلہ کرتے ہوئے کہا کہ ذرا سوچیں کہ قوم کی زیادہ خدمت کس نے کی اور ماضی میں مہنگائی کو کس نے ختم کیا؟لوگوں کو چاہیے کہ ووٹ کاسٹ کرنے سے پہلے ضرور سوچیں کہ میری کارکردگی بہتر تھی یا دوسرے لوگوں کی ؟ وزیر اعظم کو صرف اس لیے حکومت سے نکالا جاتا ہے کہ اس نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ وصول نہیں کی لوگ خاموشی کے ساتھ اس بات کو دیکھ رہے ہیں امید ہے کہ آئندہ پاکستان میں لندن پلان اور اس جیسی سازشی کہانیوں کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو جائےگا۔پاکستا ن۔ اب گلی کوچوں میں پروٹیسٹ کے نام پر ہنگاموں اور لانگ مارچوں کو برداشت نہیں کر سکتا۔لیکن، عوام یہ بات سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ اب کس کا ساتھ دیں ؟اگر پاکستان کی موجودہ ہسٹری کو دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ نہ صرف نواز شریف ، عمران خان،بلکہ فوج اور ایسٹیبلشمنٹ کی موجودگی اپنی اپنی جگہ پر ایک تلخ حقیقت ہے جس سے کوئی بھی آنکھیں چرا نہیں سکتا۔کیا یہ سیاسی جنگ و جدل جاری رہے گی ؟ کیا کوئی ایسا حل موجود ہے کہ سیاسی رہنما اپنی اپنی انا?ں کی قربانی دے کر مل بیٹھیں۔ لیکن یہاں پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟۔