• news

عظمیٰ کا سفرنامہ’’جہاں بینی‘‘

عظمیٰ سلیم نے بذریعہ ڈاک اپنی کتاب ’’جہاں بینی‘‘ مجھے ارسال کی…میں نے جب اسے پڑھنا شروع کیا تو مجھے اس کی کتاب خاصی دلچسپ لگی…اور میں بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھتی گئی۔
پنجاب سرگودھا میں پیدا ہونے والی لڑکی بیاہ کر گلگت  بلتستان میں چلی گئی…سچ ہے...جہاں کسی کا دانا پانی ہوتا ہے وہ کھنچتا ہوا وہاں ہی پہنچ جاتا ہے۔ وہ پورے شمالیات میں گھومی پھری… خوبصورت موسم اور حسین مناظر کو انجوائے کیا…وہ لکھتی ہیں۔خوبصورت مناظر دیکھتے دیکھتے بہت سی سختیاں جھیلی۔شاید نئی نسل کے لئے یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے۔  لیکن سب تجربات نے بہت سکھایا ہے۔  گلگت  بلتستان کے موڑ طے کرتے ہوئے ذہن کو تیار کیا۔  میرے بچوں کی نشوونمامیں ان سفروں نے بہت کردار ادا کیا ہے۔یقین کیجئے گلگت  بلتستان کے اکثر سفر ایک مکمل اور انوکھی کہانی لئے ہوتے ہیں۔  ایسا ہر گز نہ سمجھئے کہ سکردو کا سفر صرف جہاز کے ذریعے کیا جاتا ہے۔  یہاں ایک اور ایڈونچر بھی ہے۔  جسے بائی روڈ کا نام دیا جاتا ہے۔ گلگت اور سکر دوکا سفر طویل اور مشکل بھی ہے۔  تمام راستے پہاڑی اور انتہائی خطرناک ہیں۔ اکثر حادثے کھائی اور دریا میں گرنے سے ہوتے ہیں۔
خیر یہ باتیں لکھتے لکھتے عظمیٰ نے ان علاقوں کے خوبصورت مناظر کی بڑی حسین تصویر کشی کی ہے.  وہ لکھتی ہیں۔یہاں خزاں میں بھی اتنی خوبصورتی ہے کہ دور دور سے سیاح دیکھنے کیلئے آتے ہیں.  پتوں کے رنگ،پیلے نارنجی،سرخ مہرون بنقشی اس سرعت سے ہوتے ہیں کہ خود اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔  پانی کے رنگوں میں دلکشی ہے۔ دو گھنٹے دیکھتے رہنے سے بھی آنکھیں سیر نہیں ہوتیں۔ایک جگہ لکھتی ہیں۔برف باری میں جب ہر شے سفید چادر تان لیتی ہے تو اس کی الگ خوبصورتی ہے.  رات کو آپ کھلے میدان میں نکلیں تو یہ فیصلہ کرنے میں مشکل ہوتی ہے کہ آسمان کے تاروں کو دیکھیں یا زمین پر جگمگاتی ہوئی روشنیوں کو۔
عظمیٰ ایک کالج میں پرنسپل تھیں…اچانک انہیں خبر ملی کچھ لوگ ایران جا رہے ہیں تو یہاں کی بڑی شخصیت علامہ شیخ محمد حسن جعفری کے ہاتھوں سلیکشن ہونی ہے.  خواتین و حضرات کو سلیکٹ کیا جانا ہے اور مختلف زیارات بھی کروائی جانی ہیں۔  یہ تمام پروگرام ایرانی حکومت کی سرپرستی میں ہونا ہے.  انہوں نے عظمیٰ کا نام بھی اہل سنت خواتین کی نمائندگی کیلئے دیا ہے.  اس کا قافلے میں جانے کا پہلا تجربہ تھا.  پھر اس کے بعد عظمیٰ نے بہت سارے سفر کئے۔  ان کو لکھنے کا ہنر آتا ہے…ویسے تو گلگت  بلتستان کے علاوہ ایران،اٹلی،ترکی کے سفر کئے اور ان کے بارے بھی اپنی کتاب میں لکھا ہے….لیکن میں سارے ملکوں میں گھومی پھری ہوں لیکن جو مجھے گلگت اور  بلتستان کی خوبصورتی اور دلکش مناظر کی تصویر کشی پڑھ کر مزہ آیا وہاں جانے کو جی چاہا…میں حیران تھی اور میری دلچسپی اور بھی بڑھتی گئی کیونکہ اس نے وہاں کے بارے میں اتنی پیاری تصویر کشی کی ہوئی ہے کہ پڑھتے ہوئے میرا دل باغ باغ ہو گیا۔وہ لکھتی ہیں تمام سفروں کے دوران جتنے بھی مشاہدے ہوئے۔  ان میں ہر ایک کی اپنی اہمیت ہے.  صبح جیسے ہی جلوس کے آنے کی اور ڈرم کی تھاپ کی آواز آتی ہم سڑک کے کنارے پہنچ جاتے۔  نظم وضبط میں ایک خاص سماں پیدا کرتا ہے…اس کے دل میں ایک خواب تھا کہ وہ ابو حنیفہ کے مزار میں حاضری دے اللہ نے اس کی وہ آرزو بھی پوری کی۔  
عظمیٰ کا نام ادب کی دنیا میں نیا نہیں ہر کوئی جانتا پہچانتا ہے.  ان سفروں نے جو اس نے کئے ہیں بقول اس کے ان سفروں نے مجھے زندگی کی کئی منازل میں مدد  دی۔بقول پیٹربورس(Boras Peter )۔کوئی بھی تخلیقی عمل کسی بھی طرح سے پسند کیا جا سکتا ہے.  کرداروں سے کہانی سے سفرناموں سے یا موضوع سے اور سب سے اہم بات اس میں آرٹ و فن کا ہونا بہت ضرور ی ہے۔ایک بہترین انسان ہونے کے ناطے عظمیٰ کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے…سکردو  بلتستان کا سفر، بچوں کی ذمہ داریاں  اور پھر ساتھ ساتھ پرنسپل کے فرائض ادا کرتے ہوئے ایسے لگتا ہے کہ یہ سفرناموں کی کتاب ایک پورا دریا ہے جو عظمیٰ نے پورے دریا کو  کوزے میں بند کیا ہے۔
دنیا میں کوئی کہانی نئی نہیں ہوتی اچھی تحریر کیلئے واردات،تجربہ،مشاہدہ،مطالعہ،ادراک،طرزِاحساس اور  زبان کا استعمال ضروری ہے یہ ساری چیزیں اس کے سفرنامے کی تحریرمیں موجود ہیں۔  عظمیٰ ایک اچھے اور سچے فنکار کی طرح ان مراحل میں گزری ہیں۔ آج اللہ کے فضل سے اس مقام پر کھڑی ہیں.  دنیائے  ادب اس کو جانتی ہے۔ اس نے بے حد محنت کی ہے اور اپنی ادب میں ایک خاص پہچان بنائی ہے۔ناول لکھنے کیلئے ضروری نہیں کہ رنگینی،بیان یا داستانوی رنگ کو اپنایا جائے لیکن عظمیٰ نے اپنی کتاب میں خوبصورت رنگ بھی بھرے ہیں اور یہ خوبصورت رنگ اس کی تحریر میں نظر آتے ہیں۔  جہاں تک اس کے لکھنے کا تعلق ہے وہ حقیقت نگاری یا realismمیں یقین رکھتی ہے۔  ایک فنکار خوبصورتی اور آرٹ کو تب ہی مد نظر رکھ سکتا ہے۔  جب وہ حقیقت نگاری کرے اس کے ناولوں اورسفرناموں میں زندگی کی خوبصورتی نظر آئے گی.  بقول Leo Tolstoyکے زندگی سے پیار کرنا خدا سے پیار کرنا ہے۔  اس لئے سفرناموں میں کوئی ایسا مزار نہیں تھا جہاں اس نے خوشدلی کے ساتھ حاضری نہ دی ہو۔یہی وجہ ہے کہ وہ ان تھک محنت کر رہی ہے۔ آفاقی جذبات اور محسوسات کو پورٹرے(Portray) کرنا چاہتی ہے جو ناول یا سفرنامے کی تحریر کو زندہ بنا دیتے ہیں۔  اس کی تحریر میں دلچسپی اور چاشنی ہے…دلچسپ اتنی کہ مطالعہ کرتے ہوئے ذرا بھر بوریت نہیں ہوتی بلکہ یوں لگتا ہے کہ انگلی پکڑ کر ہمیں ساتھ ساتھ سفر کروا رہی ہے۔  میری دعا ہے کہ عظمیٰ اسی طرح لکھتی رہے اور لوگ اس کو پڑھ کر مستفید ہوتے رہیں۔

ای پیپر-دی نیشن