نیب ترامیم کیس فیصلہ محفوظ ،پارلیمیٹ میں مسائل حل کریں:چیف جسٹس
اسلام آباد(خصوصی رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب ) کا چیئرمین سپریم کورٹ کو تعینات کرنا چاہیے، حکومت اور اپوزیشن میں چیئرمین نیب پر اتفاق نہیں ہوتا تو تعیناتی تھرڈ امپائر کرتا ہے جس کے بعد نیب تھرڈ امپائر کے ماتحت ہی رہتا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر مسائل حل کریں۔ عدالتی معاون خواجہ حارث نے کہا کہ مرکزی کیس میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تفصیل سے بتا چکا ہوں، نیب ترامیم آرٹیکل 9،14،25 اور 24 کی خلاف ورزی ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ صرف منتخب پبلک آفس ہولڈر پر نیب کا اختیار کیوں رکھا گیا، غیر منتخب پر کیوں نیب کا اختیار نہیں رکھا گیا؟ غیر منتخب افراد کو نیب قانون سے باہر رکھنا امتیازی سلوک ہے، منتخب نمائندے کے پاس پبلک فنڈز تقسیم کرنے کا اختیار کہاں ہوتا ہے کوئی ایک مثال بتائیں، کرپشن منتخب نمائندے نہیں بلکہ پرنسپل اکائونٹنگ افسر کرتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کوئی منتخب نمائندہ یا وزیر متعلقہ سیکرٹری کی سمری کے بغیر کوئی منظوری نہیں دیتا، کیا کوئی سیکرٹری سمری میں لکھ دے کہ یہ چیز رولز کے خلاف ہے تو وزیر منظوری دے سکتا ہے؟۔ چیف جسٹس نے وکیل بانی پی ٹی آئی سے پوچھا کیا آپ سیاسی احتساب چاہتے ہیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں جیسا قانون پہلے تھا وہی برقرار رہے۔ وکیل بانی پی ٹی آئی خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ نیب ترامیم مخصوص افراد کے فائدے کیلئے تھیں، کیونکہ مخصوص سیاسی رہنما اس وقت سلاخوں کے پیچھے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہی جماعت جس نے سپریم کورٹ میں قانون چیلنج کیا اسی نے ہائیکورٹ میں بھی چیلنج کیا، ہائیکورٹ جانا پھر سپریم کورٹ آنا، کیا اپنی مرضی سے خریداری کرنا مقصد تھا، نیب ترامیم اتنی خطرناک تھیں تو انہیں معطل کردیتے، 53 سماعتوں تک ترامیم زندہ رہیں۔ جسٹس اطہر نے کہا کہ پارلیمنٹ کے قانون کو معطل نہیں کیا جاسکتا، پارلیمنٹ کے قانون کو معطل کرنا پارلیمنٹ کی توہین ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جن صاحب نے ہائیکورٹ میں چیلنج کیا انہوں نے سپریم کورٹ کو کیوں نہیں بتایا، تنقید کرنا بڑا آسان ہوتا ہے، ٹی وی پر بیٹھ کر شعیب شاہین باتیں کرتے ہیں ہمارے سامنے پیش ہوکر جواب دیں، باہر جاکر کیمرے پر گالیاں دیتے ہیں، گالیاں دینا تو آسان کام ہے، اگر میں نے غلطی کی تو مجھ پر انگلی اٹھائیں، باہر جاکر بڑے شیر بنتے ہیں، سامنے آکر کوئی بات نہیں کرتا، اصولی مؤقف میں سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے خواجہ حارث سے کہا کہ ایک اثاثوں کے کیس میں ہی سپریم کورٹ نے مانیٹرنگ جج لگایا، پھر اس کیس میں آپ ملزم کے وکیل اور میں جج تھا، سپریم کورٹ کے جج مانیٹرنگ جج تھے، اس کیس میں ایک پاور فل جے آئی ٹی بھی بنی جس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی جیسے طاقتور ادارے بھی تھے، بتائیں اس کیس کا کیا بنا، اس کیس میں آپ وکیل تھے؟۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ طاقتور اداروں کی جے آئی ٹی میں شمولیت کے باوجود بھی کچھ ثابت نا ہوسکا۔ چیف جسٹس نے بانی پی ٹی آئی کے وکیل سے کہا کہ اگر آپ اتنے ہی ایماندار تھے تو ایمنسٹی کیوں دی، برطانیہ کی مثال دی جاتی ہے بتائیں وہاں کیوں ایمنسٹی نہیں دی جاتی، ممکن ہے نیب ترامیم کا آپ کے مؤکل کو فائدہ ہو۔ جسٹس اطہر نے کہا کہ نیب قانون سے آج آپ کے فریق بھی متاثرہ ہیں، اگر نیب کا پرانا قانون ہوتا تو آج آپ کے مؤکل بھی شدید مشکل میں ہوتے۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ میرے مؤکل کو فائدہ ہوا اس میں کوئی دو رائے نہیں پھر بھی ہم سپریم کورٹ آئے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اگر پی سی او نہ ہوتا تو شاید تب پورا نیب قوانین اڑا دیا جاتا، جسٹس اطہر نے کہا کہ آئین سے بتانا ہوگا ترامیم سے حقوق کیسے متاثر ہوئے؟ بلکہ ترامیم کے ذریعے تو نیب سے ڈریکونین اختیارات واپس لیے گئے، آپ کیوں چاہتے ہیں ہر معاملے پر کارروائی نیب ہی کرے، اس پر اتنا اعتبار کیوں؟ پارلیمنٹ نے اثاثوں کی سیکشن کو صرف سٹرکچر کیا ہے، وہ چاہتی تو اسے حذف بھی کر دیتی۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ نیب قانون اور اسے چلانے والوں میں فرق ہے، مجھے نیب پر اعتماد نہیں، میں تو قانون کی بات کررہا ہوں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا سپریم کورٹ نے عدالتی فیصلے کے ذریعے پارلیمنٹ کے قانون میں ترمیم کی، ایک شخص آیا اس نے آئین کو روند کر نیب قانون بنادیا، میری خواہش ہے اگر مارشل لاء نا لگتا تو نیب قانون ہی نا ہوتا، ارکان پارلیمنٹ نیب سے جان چھڑانا چاہتے تھے، کیا ہم پارلیمنٹ کے قانون کو عدالتی فیصلے کے ذریعے ترمیم کرسکتے ہیں، کل پارلیمنٹ دوبارہ قانون بنالے تو کیا ہوگا؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو مانیٹر نہیں کرسکتی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام سپریم ہے اس لئے پارلیمنٹ سپریم ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ پارلیمنٹ عوام کی امین ہے۔ چیف جسٹس نے تو پھر کیا پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنا درست تھا؟۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنا سیاسی فیصلہ تھا جو درست نہیں۔ دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو بانی پی ٹی آئی ویڈیولنک پر عدالت میں پیش ہوئے جس پر چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں، یہ سنتے ہی عمران نے بولنا شروع کیا اور کہا کہ میں کچھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ میں ایسا کوئی خطرناک آدمی نہیں، کیا آپ بتا سکتے ہیں کب پوائنٹ سکورنگ کی؟۔ انہوں نے چیف جسٹس سے مخاطب ہوکر پوچھا کہ ’کیا آپ بتا سکتے ہیں میں نے پوائنٹ سکورنگ کی، آپ کے بیان سے لگتا ہے میں غیر ذمہ دار شخص ہوں کوئی غلط بات کردوں گا، میں ایسا کوئی خطرناک آدمی نہیں ہوں‘۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس درخواست پر فیصلہ ہوچکا ہے اور ججز اپنے فیصلوں کی خود وضاحت نہیں کرتے، لہذا آپ صرف کیس پر رہیں اور بات کریں۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ خان صاحب آپ کو غیر ضروری ریلیف ملا ہے لہذا آپ صرف کیس پر بات کریں۔ جبکہ جسٹس اطہر نے کہا کہ الیکشن کمشن کے چئیرمین اور ممبران کا معاملہ ہائیکورٹ میں آیا تھا اور اس الیکشن کمشنر کو آپ نے خود لگایا تھا، 76 سالوں میں پارلیمنٹ کو نیچا دکھایا گیا۔ عمران خان نے کہا کہ نیب کے اختیارات کم ہوں تو میرے لئے اچھا ہوگا، لوگوں کے اربوں ڈالر کے اثاثے بیرون ممالک ہیں ان کا کیا ہوگا۔ اس پر جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ خان صاحب آپ جو باتیں کررہے ہیں مجھے خوفزدہ کررہی ہیں، حالات اتنے خطرناک ہیں تو اپنے ساتھی سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھ کر معاملات حل کریں، جب آگ لگی ہوتو یہ نہیں دیکھتے کہ پانی پاک ہے یا ناپاک، پہلے آپ آگ کو بجھائیں، اپنے گروپ کو لیڈ کریں، آپ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں ہم آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، خدانخواستہ اس ملک کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار ہم نہیں سیاستدان ہوں گے۔ عمران خان نے کہا کہ اس وقت ملک معاشی بحران کا شکار ہے، باہر سے ترسیلات زر آتی ہیں جبکہ اشرافیہ اپنا پیسہ ملک سے باہر بھیجتی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ دو چیزوں کو مکس کررہے ہیں۔ جسٹس اطہر نے ریمارکس دیے کہ ہم سمجھتے ہیں آپ کا اس وقت جیل میں ہونا بدقسمتی ہے کیونکہ آپ ایک بڑی جماعت کے سربراہ ہیں، آپ کے لاکھوں پیروکار ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے بولا کہ ہمارے ساتھ تو ظلم ہورہا ہے، اور میری آخری امید سپریم کورٹ ہی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہمیں تو اصل گلا ہی سیاستدانوں سے ہے، اگر ہم بھی خدانخواستہ فیل ہوگئے تو کیا ہوگا۔ عمران خان نے جب سائفر کیس کا حوالہ دینے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے انہیں بات کرنے سے روکا اور کہا کہ وہ مقدمات جو ہمارے سامنے آنے ہیں ان پر بات نہ کریں۔ عمران خان نے کہا کہ یہ بات درست ہے مجھے پارلیمنٹ جانا چاہئے تھا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ جاکر ملیں اور بیٹھ کر بات کریں، یہ دشمن نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ کے معاملے پر ہم نے صدر اور الیکشن کمیشن کو آپس میں بات کرنے کی ہدایت کی کیونکہ ہم سیاسی بات کرنا نہیں چاہتے تھے اور آپ کو روکنا بھی نہیں چاہتے تھے تاکہ کوئی اعتراض نہ ہو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’سیاستدان آپس میں مل کر بیٹھیں اور مسائل کو حل کریں‘۔ اس پر پی پی کے وکیل نے بتایا کہ پیپلزپارٹی ہر جماعت کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہے۔ چیف جسٹس نے بانی پی ٹی آئی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ایمنسٹی سکیم کیوں دی؟۔ اس پر عمران خان نے بتایا کہ ایمنسٹی اس لئے دی کہ معیشت بلیک تھی اسے ایک روٹ پر لانا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب نے دس ارب ڈالر کی ریکوری دکھائی جو غلط ہے، انہوں نے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ غلط دستاویزات دکھانے پر ہم آپ کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کیوں نا کریں جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب نے اپنے جواب میں لکھا کہ اس نے ریکور کی گئی رقم اپنے پاس رکھی، کس طرح ایک سرکاری ادارہ ایک روپیہ بھی اپنے پاس رکھ سکتا ہے؟ نیب کی بجٹ رپورٹ کہاں ہے؟۔ سپریم کورٹ نے نیب کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے طلب کرلیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیاستدان جیلوں میں جاتے ہیں تو ان میں پختگی آتی ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ نیب کورٹ کیسے چلتی ہے یہ میں نے جیل میں دیکھ لیا۔ جسٹس امین الدین نے بانی پی ٹی آئی سے استفسار کیا کہ کون سی نیب ترامیم بنیادی حقوق سے متصادم ہیں؟ جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ نیب کو کون ٹھیک کرے گا۔ جسٹس امین الدین نے عمران کو بات سے روکتے ہوئے کہا کہ آپ صرف متعلقہ کیس پر ہی بات کریں۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ نیب کی جانب سے دو کروڑ کی گھڑی تین ارب کی بتائی گئی، نیب چیئرمین سپریم کورٹ کو لگانا چاہئے۔ اس پر جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ آپ پارلیمنٹ میں جاکر ترمیم کرلیں کیونکہ پارلیمنٹ ہی یہ کام کرسکتی ہے۔ عمران خان نے مزید کہا کہ مجھے جیل میں دی گئی سہولیات اور جو نواز شریف کو سہولیات دی گئی تھیں ان کا موازنہ کروا لیں۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ نواز شریف تو اس وقت جیل میں نہیں۔ دلائل ختم ہونے کے بعد چیف جسٹس نے بانی پی ٹی آئی سے معاونت پر ان کا شکریہ ادا کیا جبکہ جواب میں عمران خان نے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا شکریہ ادا کیا۔ عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا جبکہ چیف جسٹس نے سماعت کا حکم نامہ لکھوایا۔ کوئی بھی فریق تحریری جواب جمع کرانا چاہے تو کرا دے، وہ مقدمہ تو ثالثی کے معاملے پر سپریم کورٹ آیا تھا، جواب میں لکھا کہ نیب نے پیسے اپنے پاس ہی رکھے ہیں، آپ ایک روپیہ بھی اپنے پاس کیسے رکھ سکتے ہیں، پراسیکیوٹر جنرل نیب کو کہیں خود پیش ہوں۔ فاروق ایچ نائیک نے چیف جسٹس نے سوال کیا کہ نیب کی بجٹ رپورٹ کہاں ہے؟۔ چیف جسٹس نے ایک مرتبہ پھر بانی پی ٹی آئی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ مزید کچھ کہنا چاہتے ہیں؟۔ بعد ازاں عدالت نے تحریری حکم نامے میں نیب سے دس سالہ بجٹ کا ریکارڈ طلب کر لیا جبکہ قومی احتساب بیورو کے وکیل کی جانب سے جمع کرایا گیا جواب مسترد کردیا۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ بظاہر عمران خان کی حکومت بھی صرف سیاستدانوں کا احتساب چاہتی تھی، دوسری جانب وفاقی حکومت نے نیب ترامیم فیصلے کے خلاف اپیلوں کے معاملے پر سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ جمع کرادی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کو وکلاء تک رسائی نہ دینے کا بیان غلط ہے۔ وفاقی حکومت نے بانی پی ٹی آئی کے موقف کی تردید میں سپریم کورٹ میں اضافی دستاویزات جمع کرائیں۔ وفاقی حکومت نے بانی پی ٹی آئی کے ساتھ اہل خانہ اور لیگل ٹیم کی ملاقاتوں کی فہرست بھی جمع کرا دی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بانی پی ٹی آئی کا قید تنہائی میں ہونے کا موقف بھی غلط ہے۔وفاقی حکومت نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرنے والوں کی فہرست بھی سپریم کورٹ میں جمع کروا دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بانی پی ٹی آئی کو جیل میں کتابیں، ایئر کولر، ٹی وی، ورزش کے لیے مشینوں سمیت تمام ضروری سہولیات فراہم کی گئیں ہیں۔