سوچ کازاویہ بدلیں
ایک مخصوص گروہ سیاست پر حاوی نظرآتاہے جس کی سوچ ہے کہ وہ ہے تو سب ٹھیک ورنہ کچھ بھی قبول نہیں۔ ڈائیلاگ تو جمہوریت کا حسن ہوتاہے مگریہ اسے اپنی سبکی قرار دیتے ہیں اور سیاسی مخالفین کو برداشت کرنے کو بھی تیار نہیں۔ اتفاق رائے ایک خواب نظرآتاہے جس کی وجہ سے جمہوری نظام مضبوط نہیں ہورہاہے جب تک اس سوچ کو بدلانہیں جائیگا ملک میں سیاسی استحکام نہیں آسکتا اورجمہوری کلچرفروغ نہیں پاسکتا۔ بات چیت ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے اور مل کر آگے بڑھنے میں ہی سب کا فائدہ ہوگا حکومت اور اپوزیشن کو جمہوری روایات کو فروغ دینا چاہیے اور اہم قومی مسائل پر اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے، جمہوری اور رائے کی آزادی کی آڑ میں نفرت اور لاقانونیت کا فروغ آج ملک کےلئے بہت بڑا خطرہ ہے۔قومیں پرعزم ہوں اور اپنے نظریے کے ساتھ مضبوطی سے جڑی ہوئی ہوں تو وہ ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہں۔ گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصہ سے دہشت گردی کے عفریت کی خلاف نبردآزماقوم ایک طویل اور کٹھن جنگ میں کافی حد تک کامیابیاں سمیٹنے کے بعد اب الحمداللہ اس مقام پر ہے کہ ملک سے دہشت گردی کے نیٹ ورک کا عمومی طور پر خاتمہ ہوچکاہے اور اب وہ فساد بپاکرنے والوں اور ان کی سہولت کاروں کے خلاف ملک بھر میں آپریشن ردالفساد کا آغاز کرچکی ہے۔بلاشبہ آپریشن ردالفساد انتہائی موثر انداز سے جاری ہے اور آئے روز ملک کے مختلف علاقوں سے فسادیوں اور ان کے سہولت کاروں کو تلاش کرکے انہیں ٹھکانے لگایا جارہا ہے۔ گویاہر پاکستانی شہری چاہے وہ کسی بھی طور سے ملک کی خدمت کررہاہے اسے آپریشن ردالفساد میں ریاست کا ہاتھ بٹانا ہے اور اس پاک سرزمین کو صحیح معنوں میں فساد اور شدت پسندی سے پاک کرنا ہے اور اسے ایسی سرزمین بناناہے جس کے باشندے ملکی قانون اور اپنے اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق زندگی بسرکرنے کا حق رکھتے ہوں۔ یہ تبھی ممکن ہے جب قوم افواج اور دیگر ادارے پوری دلجمعی سے آپریشن ردالفساد کو کامیاب بنانے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھیں۔ قوم اور افواج پاکستان کی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے پاکستان دشمن عناصرکبھی مردم شماری میںمصروف ٹیموں کو اپنا نشانہ بناتے ہیں توکبھی کوئی دوسرا سافٹ ٹارگٹ تلاش کرکے اپنی دہشت نبھانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ قوم بھاگتے ہوئے فسادیوں کا ان کی کمین گاہوں تک پیچھاکرکے ان کا خاتمہ کرنے کا عزم کئے ہوئے ہے اب اس دھرتی اور سرزمین پر ان فسادیوں کےلئے کوئی جگہ نہیں ان کا خاتمہ ان کا مقدر بن چکاہے۔انتہاپسندی ایک رویہ ہے اور اس رویے کے بننے میں کئی عوامل کارفرماہوتے ہیں یہ عوامل اپنی ساخت میں جتنے سادہ لگتے ہیں اتنے یہ ہوتے نہیں ہیں۔ رویے رجحان میں بدلتے ہیں اور رجحان مخصوص بیانیوں کو پروان چڑھتے ہیں۔
جب کچھ رجحانات خطرے کی حدوں کوچھونے لگتے ہیں تو انکی مختلف سیاسی، سماجی، مذہبی اورنفسیات توجیحات کی جاتی ہیں۔ ان موضوعات پر تحقیق مسلسل جاری ہے لیکن فی الوقت یہ یقین کرنے میں وقت درکارہے کہ وہ کیا عمل ہے جوکسی فرد کی ذہنی کیفیت یکدم تبدیل کردیتاہے اور وہ دہشتگردی کا ایندھن بننے پر تیارہو جاتا ہے لیکن یہ طے شد امرہے کہ ایسے افراد دہشت گردی کے نیٹ ورکس سے منسلک ہونے سے پہلے مذہبی اجتماعیت کا حصہ بن چکے ہوتے ہیں اور عموماً ان کا یہ سفر غیرعسکری مذہبی جماعتوں اور تحریکوں سے شروع ہوتا ہے۔معاشرے باہمی محبت کی بناءپرپروان چڑھتے ہیں، رواداری اور برداشت قوم کا اثاثہ ہواکرتی ہیں جن قوموں نے ان اوصاف کا دامن تھامے رکھا آج وہ دنیا بھر میں عزت وحترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں اور انکے معاشرے مثالی گردانے جاتے ہیں جبکہ باہمی منافرت اور شدت کو فروغ دینے والی اقوام پستی میں دھنستی چلی جاتی اور قابل رحم حالت تک جاپہنچتی ہیں۔ اسلام ایک آفاتی مذہب ہے جو باہمی محبت، اخوت اور رواداری کی تعلیم دیتاہے لیکن شومئی قسمت کہ متعدد مسلم معاشروں نے ان زریں اصولوں کی پیروی نہ کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان کا شمار ترقی یافتہ مضبوط اور مثالی معاشروںمیں نہیں ہوتا، خود وطن عزیز پاکستان میں ماضی کے ادوار میں مذہب کی بنیاد پر منافرت کی حوصلہ افزائی کی گئی جس کی وجہ سے پاکستان میں فرقہ واریت اشتعال انگیزی، نفرت اور شدت پسندی کو فروغ ملا۔ اس رویے کے خاتمے کےلئے قوم گزشتہ سترہ برس سے جنگ لڑرہی ہے یہ منافرت اس قوم کے 80 ہزار شہریوں کی جانیں لے چکی ہے۔ الحمداللہً ہماری قوم اور افواج کافی حد تک اس عفریت پر قابوپانے میں کامیاب ہوچکی ہے تاہم ابھی منزل کی جانب سفرجاری ہے اور کوشش اس امر کی ہے کہ پاکستانی معاشرہ بھی دنیا کے ان معاشروں جیسا بن جائے جس میں دین اور مذہب کی بنیاد پر منافرت پھیلانے سے گریز کیا جاتا ہے۔
پاکستان کو ریاستی تناظر میں ایک بڑا چیلنج معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی اور تقسیم کا سامناہے۔ اس تقسیم کے کچھ عوامل داخلی نوعیت کے ہیں اورکچھ کا تعلق براہ راست خارجی معاملات سے ہے۔ اگرچہ انتظامی بنیادوں پر ہم نے کافی حد تک اس انتہاپسندی کے خلاف کچھ بڑی نوعیت کی کامیابیاں حاصل کرلی ہیں لیکن یہ چیلنج بدستور موجود ہے کہ ہم کس طرح سے اس موزی مرض سے مکمل طور پر نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ قومی بیانیئے کے تناظر میں ہم نے بیس نکات پر مشتمل جو نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیاتھا۔ اس پر عملدرآمد کے تناظر میں حکومتی اور ادارہ جاتی سطح پر ہماری سیاسی کمٹمنٹ بھی وہ نہیں جو ہونی چاہیے تھی۔ دہشت گردی پر توکافی حد تک قابوپالیاگیاہے لیکن جو انتہاپسندی کے حوالے سے فکری بیانیئے یامائنڈسیٹ کی جنگ ہے اس پر ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔