• news

عمران میر کی جیون کتھا

سرائیکی زبان رومان پرور اور سوز و گداز سے سرشار زبان ہے۔ صرف اگر شاعری کے میدان تک ہی محدود رہا جائے تو اس زبان کے ان گنت اوصاف میں سے عشق و محبت ، تصوف اور عصری شعور تو بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے محبت ، مونجھ اور اسکے خمیر میں شامل ہوں۔ ہر میدان میں سرائیکی شعراءنے اپنے اپنے سکے جمائے ہیں لیکن اگر یہ تینوں اوصاف کہیں ایک جگہ نظر آتے ہیں تو میں بلاجھجھک کہہ سکتا ہوں کہ پروفیسر عمران میر کا نظموں اور غزلوں پر مشتمل مجموعہ ” جیون کتھا “ وہاں نمایاں اور سر بلند حیثیت سے قائم نظر آئیگا۔ کسی بھی ملک و قوم کی زبان میں مقامیت ، قومیت اور بین الاقوامیت کے تناظر میں لکھی گئی شاعری کی طرح سرائیکی میں بھی جہاں روایتی دوہڑے ، کافیاں ، غزل ، نظم اور دیگر اصناف میں بہت قابل رشک تخلیقی کام نظر آتا ہے وہاں عصر حاضر کی جدید حسیت بھی پوری طرح متشکل دکھائی دیتی ہے۔ 
 عمران میر کا مجموعہ ، ” جیون کتھا “ پڑھتے ہوئے مجھے جس بات نے ایک خوشگوار حیرت کا شکار کیا وہ یہ ہے کہ انکے ہاں موجود مقامی ، قومی اور بین الاقوامی حالات کی آگاہی میں قاری کو شامل کر کے مغلوبیت اور بےچارگی کا شعور اور احساس بخشنے کی آرزو دل پر دستک دیتی نظر آتی ہے ۔ شاعر اپنے کلام میں جگہ جگہ صدیوں سے جاری جاگیرداری جبر کی ماری قوم کو یہ احساس دلاتا ہے کہ مجبور محض بن کر زندہ رہنا قوموں کا نصیب نہیں ہوا کرتا۔
 عمران میر کے ہاں مغلوبیت کے شعور کی قوت جہاں جہاں پیغمبرانہ تبلیغی سلیقے کی سنت ادا کرتی نظر آتی ہے وہاں وہاں اسکے متوازی صوفیانہ فکر اور سوز و گداز کے رنگوں کا جدید مگر خالص سرائیکی لوچ اور مہک سے گندھا ایسا منفرد اسلوب بھی وضع کرتی چلی جاتی ہے جو شاید ہی کسی دوسرے شاعر کو نصیب ہوا ہو۔ 
 فنی حوالے سے جائزہ لیا جائے تو سمجھ آتا ہے کہ اگرچہ آزاد نظم اور غزل سرائیکی زبان کی اصناف نہیں لیکن مجال ہے کہ عمران میر نے ان دونوں ہئیتوں میں تخلیقی اظہار کرتے ہوئے کہیں کسی معمولی سے صنفی غلبے کا تاثر پیدا ہونے دیا ہو۔ انکے ہاں جہاں نظموں میں اندرونی قوافی کے استعمال نے کافی کے مزاج کو مزید گداز بخشا ہے وہاں چومصرعوں میں رومانیت ، مجبوری اور تصوف کے امتزاج نے عجیب چھب دکھائی ہے 
مریں شالا
عشق دی بارگاہ بارگاہ یقینی اے
شک شکوکاں سمیت کیوں آ گئیں
میں محبت دی گالھ کیتی ھائی
توں بندوقاں سمیت کیوں آ گئیں
٭٭٭
ویچ چھوڑاں ضمیر نئیں تھیندا 
میڈا اِتلا سریر نئیں تھیندا 
عشق اندھا ہے اندھا سودا ہے 
اکھیں والا اسیر نئی تھیندا 
٭٭٭
درج ِ بالا چَو مصرعوں میں دیکھئیے کہ عشق مجازی ، سماجی جبر اور اور صوفیانہ فکر و گداز اس طرح باہم آمیز ہو کر آئے ہیں کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ 
پروفیسر عمران میر جہاں دھرتی سے جڑت کے باعث حاصل ہونے والے تہذیبی ادراک سے مالا مال ہیں وہاں پوری دنیا میں سرایت کرجانے والے Socio Economic dilemma کے باعث پیدا ہونے والے انسانی احساس ِ بے مائیگی، لاچارگی ، بیگانگی اور مغائرت کے شعور کو شعر کرنے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ 
آج سرائیکی شاعری اپنے ادبی قد کاٹھ میں جس جگہ کھڑی ہے وہاں بڑا اور منفرد تخلیقی تجربہ کسی یک پرتی اظہار سے ممکن ہی نہیں۔
 عمران میر کی شاعری میں جو منفرد قرینہ سامنے آیا ہے وہ تہ در تہ معنویت کی بجائے متوازی معنویت اور احساس کی تشکیل ہے۔ 
نظم دیکھیے۔۔۔
  اساں 
اساں بھولے بھیل نراس
ساڈے میلے ویس تے ماس
اساں عام غلام تمام
اساں کہیں کیتے نئی خاص
ساڈے لیکھ اچ ہاڑ اجاڑ
ساکوں کوئی موسم نئی راس
ساڈے شوہ دے کن کپی گئے
ساڈی کون سنے ارداس
٭٭٭
 غزل دیکھئیے 
نفرتیں دی وبا لگی ہوئی اے
چارے پاسے جو بھا لگی ہوئی اے
کوئی کہیں نال کھیل الیندا فی
پنے کم اچ آنا لگی ہوئی اے
ڈیوے اچھین توں یار پالی رکھ
چار پاسے ہوا لگی ہوئی اے
تیڈے چودھار یار میلے ہن
تیکوں ماں دی دعا لگی ہوئی اے
٭٭٭
 اس غزل کا آخری شعر قابل ِ توجہ ایک بار پھر ملاحظہ کیجئے۔
تیڈے چودھار یار میلے ہن
تیکوں ماں دی دعا لگی ہوئی اے
اس شعر سے پہلے اشعار میں شاعر سماج کے نفرتوں ، تعصب اور خود غرضی میں گھرے ہوئے عصر کے شعور میں قاری کو شامل کرتا ہے اور اسی غزل کے آخری شعر میں مراعات یافتہ طبقے کے وسائل پر قبضے کی واردات کو نہایت تہذیب اور نرمی سے بے نقاب کرتا ہے۔ مزاحمت کا یہ مہذب اور ملائم لہجہ عمران میر کی شاعری میں صوفیانہ روایت سے ہی آیا ہے۔ صوفی سب سے پہلے انسان کو اپنی ذات کے معصیت میں گھرے ہونے کی اطلاع دے کر اپنے نفس سے لڑائی کر کے اور نفسانی خواہشات کو شکست دے کر عشق ، امن اور ایمان کی حالت کے قیام اور خدا کی حاکمیت اعلیٰ کے تصور کا اعلان کرتا ہے۔ 
 زیر نظر شعری مجموعہ اس لحاظ سے سرائیکی شاعری کا ایک سنگ ِ میل قرار دیا جاسکتا ہے کہ پورے وسیب کے انفرادی اور اجتماعی مزاج کی نمائندگی اس میں ہوتی نظر آتی ہے جس تک پہنچنے کے لیے خالص سرائیکی ہونے کے ساتھ ساتھ سرائیکی تہذیبی ادراک ، سماجی نفسیاتی شعور اور سیاسی بالیدگی ناگزیر ہیں۔ میں اتنے شاندار شعری مجموعے کی تخلیق پر عمران میر کو تہ دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ آخر میں کچھ منتخب کلام آپ کی نذر۔۔۔۔۔
اکھیں ڈٹھے خواب اساڈے مٹی تھئے 
وسوں وسدے تڑ تے تاڈے مٹی تھئے 
ڈور ہلاون والے تاں بس ڈور ہلائی
خواب اساڈے یا ول تواڈے مٹی تھئے
٭٭٭
جنگل شینہہ دے وس وچ ہوندے
شیہنہ جو تھیا
کر تے وسے یا نہ وسے
مینہہ جو تھیا
ڈیہنہ جتلا وی ڈینہہ پیا کرے 
ڈیہنہ جو تھیا
۔۔۔دروہ۔۔۔
تریخ ہے یا نصاب بھانویں 
اساڈے وڈکے اساڈے شجرے 
کتھائیں وی کینی 
اساں کتھائیں نی 
نہ ساڈے قصے 
جہان بھر دی ملام تہمت 
اساڈے حصے 

غزل
کرنی دا ہے پَھل 
ہتھ اپڑیں کوں جَھل 
پِڑ دیاں رمزاں سِکھ 
جھمر دے وچ رَل 
متھے اتوں میٹ 
اندر دے کًڑ وَل
نکی جھئیں مسکار
ہر مَسلے دا حل

ای پیپر-دی نیشن