جوائے لینڈ ٹو جہنم لینڈ !
اگر کوئی شخص بھی ٹریفک سگنلز کی خلاف ورزی کرے تو چلان ہوگا، کوئی چوری کرے گا تو جیل جائے گا کیونکہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے قواعد و ضوابط بحق محفوظ ہیں۔ کچھ حدود مقرر کی گئی ہیں جنہیں اگر عبور کیا جائےگا تو نہ صرف جرمانہ ہوگا بلکہ سزا بھی ہوگی۔ بلاشبہ جرم کسی بھی معاشرہ اور کسی بھی دور میں مستحب شمار نہیں ہوتا۔ اسی طرح رب کائنات نے چند حدود پر اسٹیمپ لگا دی اور بنی نوع انسان کے لیے روشن قندیلیں بطور احکامات نازل فرمائیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم صراطِ مستقیم کی جانب جا سکتے ہیں۔ دیکھا یہ جا رہا ہے کہ اینلائٹمنٹ کے طوفان میں گھری کچھ تنظیمیں ہم جنسیت پرستی کو ماڈرن ازم کے نام سے موسوم کرکے قہرِ الٰہی کو دعوت دے رہی ہیں۔ کچھ قارئین سوچ رہے ہونگے کہاتنا بھی کیا کہ مولویوں والی سوچ ہو اور معاشرے میں کھلی آزادی بھی نہ ہو۔”او کم آن “۔ دنیا کہاں جا رہی ہے ہمیں تو بھئی دنیا کے ساتھ شانہ بشانہ چلنا ہے۔ اگر آپ فالو نہیں کریں گے تو پیچھے رہ جائیں گے۔ اپ ٹو ڈیٹ رہنے میں ہی فیشن ہے لیکن ذرا ٹھہریے یہ قدرت کا قانون ہے کہ جو عمل لواطت میں پڑتا ہے، آسمان سے پتھر برستے ہیں۔ تاریخ کے اوراق پلٹائیں تو معلوم ہوگا کہ حضرت لوط کی قوم ہم جنسیت پرستی میں مبتلا تھی۔قوم لوط دو ہزار سال پہلے ختم ہوگئی۔ مگر اس کا تباہ شدہ مسکن (بحر مردار کا جنوبی علاقہ) آج بھی ان لوگوں کو سبق دے رہا ہے جو واقعات سے سبق لینے کا مزاج رکھتے ہوں۔
ویسے بھی لواطت کاعمل عقلی اور طبّی دونوں اعتبار سے انتہائی خبیث ہے۔ خدارا اپنی دینیات سے جڑے رہیں۔اپنی اقدار کو پس پشت مت ڈالیے۔ نسل انسانی کے ذریعے معاشرتی تسلسل اور بقا کو خطرے میں ڈالنا کہاں کی دانشمندی ہے۔؟؟؟
آج کل نہایت باریکی سے ایک فتنہ آپ کے سروں پر منڈلا رہا ہے جسے آپ نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ذرا والدین ہوشیار باش ہو جائیں۔ اپنے بچوں کو ان کی دوستی میں حد سے نہ گزرنے دیں، ان کے گھر رات گزارنے کی اجازت بالکل نہ دیں اور اس قسم کے جملوں پر فوراً الرٹ ہو جائیں۔ میں تو اپنی سہیلی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ یہ تو میری جان ہے۔ سہیلی یا دوست کے حسن کی بے حد تعریف کرنا۔ اس پر بھی کان کھڑے کر لیجئے۔ بچوں کے اساتذہ کی غیر معمولی دلچسپی پر نظر رکھیں۔ بات یونیورسٹیوں سے ہوتے ہوئے کالجز اور سکولز تک آچکی ہے۔ بچے کس قسم کے لٹریچر کا مطالعہ کر رہے ہیں، موبائل، لیپ ٹاپ پر کیا سرگرمی چل رہی ہے۔
ایسے طریقے اپنائیے کہ ان کو خبر بھی نہ ہو کہ ان کی مانیٹرنگ کی جا رہی ہے۔ یاد رکھیے کہ ٹیکنالوجی میں بچوں سے ہمیشہ ایک قدم آگے رہیے۔انگریزوں کے ”پرائیویسی پرنسپلز“کو آگ میں ڈالیے۔ ان بھونڈے اصولوں کا مقصد بچوں کو والدین سے علیحدہ کرنا ہے۔ انکے ذہنوں کو فحاشی سے معمور کرکے ہم جنسیت کو ایک نارمل انسانی جبلت باور کروانا ہے۔ ناولز، سوشل میڈیا ریلز، شارٹ فلم ویڈیوز میں الحاد اور ہم جنسیت کی تعلیم ہے۔ کسی بھی مذہب میں اس گھناونے فعل کو تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ اس لیے ہم جنس پرستی کا اگلا پڑاو الحاد ہے۔ لواطت کفر نہیں مگر شیطان کا ہتھیار ضرور ہے۔ اپنے بچوں پر خصوصی توجہ دیجئے۔ ان کی زندگیوں کی طرح انکے ایمان کی حفاظت کو اپنا شیوہ بنا لیجئے۔ حفظِ ماتقدم کے طور پر اس موذی لت سے بچنے کیلئے ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بستر پر سونے سے منع کیا ہے کیونکہ اس طرح ایک دوسرے کے جسم کی قربت کے مواقع میسر آتے ہیں۔
چھپ کے لوگوں سے کئے جس سے گناہ وہ خبردار ہے کیا ہونا ہے۔
کام زِنداں کے کئے اور ہمیں شوقِ گلزار ہے کیا ہونا ہے
ارے او مجرم و بے پرواہ! دیکھ سرپہ تلوار ہے کیا ہونا ہے
ان کو رحم آئے تو آئے ورنہ وہ کڑی مار ہے کیا ہونا ہے۔
ایک اہم نقطہ کہ ٹرانس جینڈرز کے حقوق اپنی جگہ لیکن خلاف شریعت خدائی تخلیق میں تبدیلی کرنا یعنی جنس میں تبدیلی معاشرتی بگاڑ کا سبب ہے۔ قوم لوط ان نوجوان لڑکوں کو بڑی رغبت سے طلب کرتی تھی جن کے چہروں پر رعیش یعنی داڑھی نہیں ہوتی تھی یا بہت کم ہوتی۔ یہی حال آجکل کے لڑکوں کا ہے کہ ٹک ٹاک پر میک اپ کرکے ویڈیوز اپ لوڈ کرکے فعل لواطت کو ٹیلنٹ کے نام پر پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں لڑکے ہی فدا ہو رہے ہوتے ہیں باوجود اسکے کہ وہ جانتے ہیں کہ پرفارمنس دینے والے بھی لڑکے ہی ہیں۔