حضور نبی ؐ کا سفر حجۃ الوداع(۱)
حضور نبی کریم ﷺ نے سن 10 ہجری کو آخری حج ادا فرمایا یہ حج مختلف ناموں سے مشہور ہے اسے حجۃ الوداع ، حجۃ التمام ، حجۃ البلاغ اور حجۃ الاسلام بھی کہا جاتا ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ سفر حج کے دوران جو خطبات ارشاد فرمائے اس میں مختلف جگہوں پر بتا دیا کہ ہو سکتا ہے اس مقام پر میری آپ سے دوبارہ ملاقات نہ ہو اس لیے اسے حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔ اسی موقع پر یہ آیت مبارکہ بھی نازل ہو ئی۔
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہاری لیے اسلام کو دین پسند کیا۔
حضور نبی کریم ﷺ نے اس مبارک سفر کے دوران مختلف مقامات پر دین کا خلاصہ بیان فرمایا اس لیے اسے حجہ الاسلام کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ خطبہ کے دوران حضور نبی کریم ﷺ نے تمام صحابہ کرام سے یہ گواہی لی کہ میں نے اللہ تعالی کے احکام کی تبلیغ کا حق ادا کر دیاہے تو سب نے اس کی تصدق کی اس لیے اسے حجۃ البلا غ کہا جاتا ہے۔
حضور نبی کریم ﷺنے ارادہ فرمایا کہ اس حج میں زیادہ سے زیادہ لوگ شریک ہو ں تا کہ وہ مجھے حج کرتے ہوئے دیکھ لیں اور صحیح طریقہ سے سنت ابراہیمی کو زندہ کیا جا سکے اور زمانہ جاہلیت میں پروان چڑھنے والی روایات کو ختم کیا جا سکے۔ اس لیے اللہ کے محبوب ؐ کے حکم پر تمام بستیوں میں یہ اعلان کر دیا گیا کہ اس سال حج کے لیے جو لوگ جائیں گے اس قافلے کی قیادت خود حضور نبی کریم ﷺ فرمائیں گے۔ جب لوگوں کو اس بات کا علم ہوا کہ مکہ کا سفر ، طواف کعبہ ، ارکان حج کی ادائیگی محبوب بر حق کی معیت میں ادا ہو گی تو ہر شخص اسے اپنی خوش قسمتی سمجھنے لگا اور بڑے زور شور کے ساتھ سفر حج کی تیاری میں لگ گیا۔
اس قافلے میں جو لوگ مدینہ منورہ سے شریک ہوئے تھے ان سب کو حج ادا کرنے کا صحیح طریقہ بتا دیا گیا تھا اور جو لوگ راستے میں قافلے میں شامل ہو رہے تھے ہر وفد کے ایک رکن کو مناسک حج کی تعلیم دی جاتی تا کہ وہ دوسروں کو سکھائے اور زمانہ جاہلیت میں جو خرابیاں ان میں شامل ہو چکی تھیں ان کو ختم کیا جاسکے۔ جیسے جیسے حج کا مہینہ قریب آ رہا تھا لوگوں کے دلوں میں اس مبارک سفر اور وہ بھی حضور ﷺ کی سربراہی میں طے ہونا تھا اس کا شوق بڑھتا جا رہا تھا۔ 25 ذی قعدہ کو نماز ظہر مسجد نبوی ؐ میں ادا کرنے کے بعد حضور نبی کریم ﷺ نے سفر حج کا آغاز فرمایا اور تمام ازواج مطہرات کو بھی اس مبارک سفر میں شریک فرمایا۔