اتوار‘ 2 ذو الحج 1445ھ ‘ 9 جون 2024ء
چمن میں امن و امان خراب کرنے کی اجازت نہیں دینگے: وزیر اعلیٰ بلوچستان۔
حکومت بلوچستان اچھی طرح جانتی ہے کہ چمن میں حالات خراب کرنے کی کوشش محمود اچکزئی ، اور مولانا فضل الرحمن کی جماعت کر رہی ہے۔ اس سرحدی علاقے میں ان دونوں جماعتوں کا ووٹ بنک ہے جو قوم پرست اور مذہبی ہے۔ یہ حیرت کی بات نہیں کہ آج کل ویسے بھی اچکزئی اور اسد قیصر کو فاٹا کے سرحدی علاقوں میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں پر خاصی تکلیف ہو رہی ہے اور وہ پشتین قومی تحریک کی زبان بول رہے ہیں۔ انہیں لگتا ہے دہشت گردوں کیخلاف ہونے والی کارروائیوں پر دکھ ہے۔ ورنہ انہی علاقوں میں جب دہشت گرد کھلم کھلا اسلحہ اٹھائے دندناتے پھرتے تھے تب تو مولانا فضل الرحمن ہوں یا اسد قیصر یا پھر محمود اچکزئی۔ ان کی زبانوں پر تالے لگے ہوتے تھے ایک لفظ بھی کوئی ان کے حوالے سے نہیں بولتا تھا۔ ان سب کو اپنی جانوں کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ آج یہ سب مٹک مٹک کرچہک رہے ہیں اور ٹی ٹی پی کے گن گا رہے ہیں اور نام لے رہے ہیں عوام کا۔ ورنہ اصل بات یہ ہے کہ افغان بارڈر پر پاسپورٹ اور ویزے کے اجرا سے ان کی آمدنی بند ہو گئی۔ وہاں سے ہونے والی سمگلنگ سے یہ لاکھوں روپے ماہانہ کما لیتے تھے۔ آج مگرمچھ کے آنسو بہا کر وہاں آپریشن کیخلاف باں باں کر رہے ہیں۔ دنیا جانتی ہے چمن سمگلروں کا گڑھ ہے جہاں افغانستان سے اسلحہ منشیات ، نان کسٹم پیڈ گاڑیاں باسانی پاکستان لائی جاتی ہیں جبکہ فاٹا کے علاقے میں ٹی پی پی اور دیگر افغان دہشت گرد اپنے پنجے جمانے کے چکر میں ہیں۔
٭٭٭٭٭
آرمی چیف عید پر 9 مئی کے ملزموں کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیں۔ شیخ رشید۔
عجیب بات ہے اس زبان سے یہ سب وہ کہہ رہے ہیں یعنی شیخ جی اور ان کے ممدوح ،جن کی عام معافی کی اپیل وہ کر رہے ہیں کل تک انہیں ہیرو کہتے پھرتے تھے۔بعد میں کہتے ہیں کہ ہمارا یا ہمارے کارکنوں کا 9 مئی کے واقعات کے کوئی تعلق نہیں یہ سب کسی اور نے کرایا ہے اور وہ کوئی اور کون ہے اشاروں میں نام لیتے تھے۔ اب شیخ جی کس منہ سے انہی سے معافی کی اپیل کر رہے ہیں۔ جب کچھ کیا ہی نہیں تو پھر خطرہ کیوں۔ اب تو اس مسئلہ پر خلیج اتنی گہری ہو چکی ہے کہ اسے پاٹنے میں وقت لگے گا اور وقت اپنا خراج لیتا ہے۔ شعلہ اگلنے والی زبانوں نے جو آگ بھڑکائی ہے اسے کون بجھائے گا۔ اب تو فی الحال سزائوں کی تیاریاں بھی دھیمے انداز میں چل رہی ہیں عدالتوں کی طرف سے بھی بہت عناصر کو رعایت مل رہی ہے تو پھر ڈر کاہے کا۔ اب ذرا حوصلہ رکھیں تیل دیکھیں تیل کی دھار دیکھیں۔ پہلے عارف علوی، امین گنڈا پور اور اب شیخ رشید کے لہجے سے جو شرینی ٹپک رہی ہے یہ یکدم تو نہیں ہو سکتا۔ بقول فیض ’’خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد۔ سو اب کہانی میں کوئی نیا موڑ نہ سامنے آئے، اس وقت تک اسی سین پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ اب تو عدالت بھی مل بیٹھنے کی بات کر رہی ہے۔ یہ سیاسی جنگ پارلیمنٹ میں لڑنے کا مشورہ دے رہی ہے۔
٭٭٭٭٭
میچ میں ہار کا غصہ شائقین اعظم خان پر اتارنے لگے۔
دنیا کی نمبر ون ٹیم جب گلی محلے کے لونڈوں یامانگے تانگے کے کھلاڑیوں سے ہارے گی تو یہی ردعمل سامنے آئے گا۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ ہر شکست کے بعد اس شکست کا سارا ملبہ کسی ایک کھلاڑی پر ہی گرتا ہے۔ کبھی کوئی کپتان کبھی کوئی بائولر اور کبھی کوئی بلے باز نشانے پر ہوتا ہے۔ اگر پوری ٹیم ہی ذمہ دار ہو تو پھر کیا کیا جائے۔ پھر سب سے زیادہ نزلہ اس پر گرتا ہے جو سب سے ماڑا ہو کارکردگی میں۔ اب بدترین فیلڈنگ ہو یا کیچ ڈراپ کرنا یا انڈے پر آئوٹ ہونا وہ بھی ایسے کہ ابھی آ کر کریز پر پوری طرح جم کے کھڑے بھی نہیں ہوئے تھے کہ واپسی کی راہ دکھائے جانے پر حیران ہونے لگے حتیٰ کے تھرڈ امپائر نے ان کو واپسی کی راہ سجھائی۔ اب کرکٹ کے شائقین نے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کر رکھا ہے اور وہ اعظم خان کو ’’ھلک‘‘ کا نام دے کر کوئی دوسرا شعبہ اپنانے کا کہہ رہے ہیں۔ کئی ایک تو ویٹ لفٹنگ کرنے کا اور کئی منچلے انہیں دیسی کشتی میں قسمت آزمائی کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ان کی کارکردگی ہی ایسی ہے کہ کوئی چپ نہیں رہ سکتا۔ ان کی سلیکشن کا ذمہ دار کون ہے اور اس نے انہیں کس بنا پر قومی ٹیم کا حصہ بنایا یہ تو سلیکشن کمیٹی یا کپتان ہی بتا سکتے ہیں۔ باقی کسی اور ٹیم میں اگر ایسا عجوبہ روزگار کھلاڑی ہے تو وہ بھی بتائیں۔ جس طرح کئی اچھے کھلاڑی بھی کارکردگی نہ دکھانے پر ٹیم سے باہر ہیں تو اب کیا کپتان بابر اعظم اپنے مہابلی اعظم خان کو باہر کر سکتے ہیں۔ کیا ان کی ہمت ہے کہ وہ ان بااثر لوگوں کو ناراض کریں جن کی وجہ سے یہ بھاری بوجھ ٹیم لے کر پھر رہی ہے۔ یوں شکست کے بوجھ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭
پیوٹن بدتمیز اور ڈکٹیٹر ہے ،40 سال سے جانتا ہوں۔ جوبائیڈن۔
اب یہ حال دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کی سپرطاقت کہلانے والی حکومت کا سربراہ اس قسم کی زبان استعمال کر رہا ہے وہ بھی ایک دوسری طاقت کے صدر کیخلاف۔ خود امریکی جو چاہیں کریں۔ وہ بدتمیزی نہیں تو کیا شرافت ہے۔ دوسرا کوئی ایسی ہی حرکت کرے تو ظالم ہے۔ روسی ترجمان نے امریکی صدر کے اس بیان پر کیا خوب جواب دیا ہے کہ پیوٹن ایسی فضول بدتہذیبی کا جواب دینا پسند نہیں کرتے۔ روس اور یوکرائن کے تنازعہ میں امریکہ اور یورپی ممالک جس طرح سیاسی، سفارتی اور عسکری میدان میں یوکرائن کی مدد کر رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ دوغلی پالیسی نہیں تو کیا ہے کہ ان ممالک کو یوکرائن پر روسی حملے کی تکلیف تو بہت ہے اور وہ یوکرائن کی دامے درمے سخنے مدد بھی کر رہے ہیں مگر اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں پر جو قیامت ڈھائی جا رہی ہے اس پر یہ صرف تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ کوئی آگے بڑھ کر فلسطینیوں کی اس طرح مدد نہیں کر رہا جیسا کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا یہاں مذہبی تعصب تو نہیں برتا جا رہا کہ فلسطینی مسلمان ہیں اور یوکرائن عیسائی سٹیٹ ہے۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے یہ عام ممالک فلسطینیوں کو بھی جدید اسلحہ اور میزائل فراہم کریں تاکہ وہ اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کر سکیں جو انہیں انہی ممالک کی بدولت گاجر مولی کی طرح کاٹ رہا ہے۔
٭٭٭٭٭