مہنگائی 48 سے 11 فیصد ہو گئی، اقتصادی سروے: آئی ایم ایف کے سوا کوئی پلان ہی نہیں، وزیر خزانہ، وفاقی بجٹ آج پیش ہو گا
اسلام آباد؍ لاہور (نمائندہ خصوصی+ کامرس رپورٹر+ آئی این پی+ نوائے وقت رپورٹ) وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے علاوہ کوئی پلان بی نہیں ہے اور وزیراعظم کی جانب سے کیے گئے 9 ماہ کے پروگرام کی وجہ سے آج ہم اہداف پر تبادلہ خیال کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے وزیر مملکت برائے خزانہ و توانائی علی پرویز ملک، سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال، سیکرٹری منصوبہ بندی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ 2022 اور 2023 میں افراط زر کا سب کو پتا ہے، اسی سال روپے کی قدر میں 29 فیصد کمی ہوئی اور زرمبادلہ دو ہفتے کی کم ترین سطح پر آگیا تھا اور وہاں سے ہم نے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مختلف اہداف ہیں، جس پر بات کریں گے لیکن یہ مذکورہ صورت حال ہمارے سفر کا آغاز ہے اور آج ہم شہباز شریف کی قیادت میں 5 سال کے لیے منتخب حکومت میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ وزیرخزانہ نے کہا جب میں نجی شعبے سے وابستہ تھا اس وقت بھی میں واضح تھا کہ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے پروگرام میں جانا چاہیے ، اگر کوئی پلان بی ہوتا تو آئی ایم ایف کو آخری امید نہیں کہا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے 9 ماہ کا سٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام لے کر حوصلہ افزا فیصلہ کیا اور جہاں ہم آج ہیں اس کی وجہ وزیراعظم کا وہی فیصلہ تھا کیونکہ اگر وہ پروگرام نہ ہوتا ہم آج اہداف کی باتیں نہیں کرتے بلکہ ہمارے ملک کی صورت حال بہت مختلف ہوتی اور ہم مختلف باتیں کر رہے ہوتے اور آج جو اعدادوشمار ہیں وہ ہم ڈسکس نہ کر رہے ہوتے۔ لارج سکیل مینوفیکچرنگ کی گروتھ پر اثر پڑنا تھا اور وہ پڑا ہے مگر زرعی شعبے کی گروتھ حوصلہ افزا ہے۔ ایف بی ار کی ٹیکس وصولیوں میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے جو بے مثال ہے۔ پرائمری سرپلس رہا ہے اور اس میں صوبوں کو بھی کریڈٹ جاتا ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 6 ارب ڈالر کا تخمینہ لگایا جا رہا تھا اور اس وقت صرف 200ملین ڈالر ہے، رواں مالی سال کے دوران چند مہینے ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ 3 فیصد سرپلس میں بھی رہا ہے، کرنسی میں استحکام آیا ہے اس کی بڑی وجوہات میں نگران حکومت کے انتظامی اقدامات ہیں۔ نگران انتظامیہ نے ہنڈی حوالہ اور سمگلنگ کو روکا گیا اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا جائزہ لیا گیا۔ سٹیٹ بینک نے ایکسچینج کمپنیوں کو جو ضروریات تھیں وہ بڑھائیں اور سٹرکچرل کردار ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات خوشگوار ماحول اور تعمیری انداز میں جاری ہیں، ان مذاکرات میں سٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام کے تحت کیے گئے اقدامات کا اعتراف کیا گیا ہے۔ کوئی سٹرٹیجک ادارہ نہیں ہے، سٹرٹیجک سرگرمی ہوسکتی ہے اسے سرکار کے پاس رکھا جاسکتا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور مثبت پیش رفت ہو رہی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام اور آئی ایم ایف شراکت داری کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ پسماندہ طبقے پر کسی قسم کا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا انہیں تحفظ دیا جائے گا۔ بجلی کے نرخوں اور شرح سود کے اثرات ایل ایس ایم پر آنے تھے، ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے سب کو ملک کی ترقی اور ریونیو میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا، خیرات اور بھیک سے ملک نہیں چل سکتے۔ دو ایسے شعبے ہیں جن کا آئی ایم ایف سے کوئی تعلق نہیں ہے، زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ایسے شعبے ہیں جن پر 100 فیصد ہمارا کنٹرول ہے اور زرعی پیداوار کیسے بڑھانی ہے یہ سب ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اقتصادی سروے کے اعداد وشمار کے ملک میں ٹیکس میں دی جانے والی چھوٹ 3 ہزار 879ارب روپے سے زائد ہے، انکم ٹیکس کی مد میں 476.96 ارب روپے، سیلز ٹیکس کی مد میں 2858.721ارب روپے، کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں 543.521ارب روپے کی چھوٹ دی جا رہی ہے۔ سروے میں کہا گیا کہ مالی سال 2023-24 میں ملکی معیشت (جی ڈی پی) کا حجم 338.2 ارب ڈالر سے بڑھ کر 374.9 ارب ڈالر ہوگیا ہے۔ ہم پاسکو کی ری سٹرکچرنگ کرنے جارہے ہیں، ہمیں سٹرٹیجک ذخائر رکھنے چاہئیں۔ علاوہ ازیں ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال ہم ڈیفالٹ کے دہانے پر تھے، صرف 2 ہفتے کی برآمدات کا زرمبادلہ رہ گیا تھا۔ آئی ایم ایف سے بہت مفید مذاکرات ہوئے ہیں، آئی ایم ایف نے 9 ماہ کے سٹینڈبائی پروگرام میں مالیاتی نظم و نسق کو تسلیم کیا ہے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی بڑھانا ہوگا، کوئی سرکاری کاروباری ادارہ سٹرٹیجک نہیں ہوتا۔ ٹیکس کولیکشن کو ڈیجیٹلائزیشن کی طرف لے جارہے ہیں۔ انسانی مداخلت کم کریں گے، ٹیکس وصولی کر کے دکھانی ہوگی۔ زراعت ہماری معیشت کا سب سے بڑا ستون ہے، گندم کے معاملات وزیراعظم خود دیکھ رہے ہیں، اس بار چاول کی بمپر فصل سے ہم نے زرمبادلہ کمایا ہے، زراعت میں مڈل مین کے کردار میں کمی لانی ہے، حکومتی عمل دخل جس شعبے سے ختم ہو وہ اچھا ہے۔ پاسکو کو بھی سرکاری تحویل میں نہیں رکھیں گے۔ پی آئی اے نجکاری سے متعلق نتیجہ جولائی اگست تک دیکھ لیں گے، ہم صرف اسلام آباد ائیرپورٹ کی نجکاری تک نہیں رکیں گے، سرکاری اداروں میں ایک ہزار ارب روپے کا خسارہ برداشت نہیں کر سکتے، سٹیل ملز کی بحالی کا کوئی امکان نہیں، صرف سکریپ میں بکے گی، سٹیل ملز میں لوگ بیٹھے ہیں، گیس بھی استعمال ہو رہی ہے۔ انویسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی 50 سال میں کم ترین ہونے کی بات درست ہے، پی ایس ڈی پی میں اہم نوعیت کے منصوبوں کو فنڈز دیں گے، اب ہمارے ہاتھ بندھ چکے ہیں، کم اہمیت کے منصوبوں کو شامل نہیں کرسکتے۔ ملک میں امپورٹڈ مہنگائی کا بہت بڑا اثر ہے، ہم آئندہ مالی سال بھی قرض رول اوور کروائیں گے، این ای سی نے گزشتہ روز کچھ فیصلے واپس لئے ہیں۔ نگران حکومت میں کچھ اقدامات لیے تھے جن کو واپس لیا گیا۔ وزیرمملکت خزانہ علی پرویز ملک کا کہنا تھا کہ کیپسٹی چارجز پاکستان کی ساورن کمٹمنٹس ہیں ان کا احترام کرنا ہوگا، کیپسٹی چارجز کا اژدہا بجلی کا استعمال بڑھا کر قابو کیا جاسکتا ہے، بجلی کا استعمال بڑھے گا تو کیپسٹی چارجز کا بوجھ بھی کم ہوگا، نیپرا کی رپورٹ کے مطابق تمام ڈسکوز کے صارفین اوور بلنگ کا بھی شکار ہیں۔اقتصادی سروے میں بتایا گیا ہے کہ عالمی شرح نمو میں بھی تنزل آیا ہے جو سال رواں میں 3.2 فیصد رہے گی، اور سال 2024 اور 25 میں یہ اسی سطح پر رہے گی، عالمی افراط زر 5.9 فی صد رہے گا، روا ں مالی سال میں ملک کا جی ڈی پی 2.38 فیصد رہا، 23 20میں گروتھ ریٹ منفی تھا، گزشتہ 19 سال کے عرصے میں زراعت کے شعبہ میں غیر معمولی ترقی ظاہر ہوئی، مالی سال کی تیری تیسری سہ ماہی میں افراط زر میں تنزل آنا شروع ہوا، ملک کی جی ڈی پی کا حجم ایک لاکھ چھ ہزار 45 ارب روپے ہو گیا، گزشتہ سال کے مقابلے میں 26 فیصد زیادہ ہے، ملک میں فی کس امدن میں 19 ڈالر کا اضافہ ہوا، اس فی کس 1680 ڈالر ہو چکی ہے، جی ڈی پی کے تناسب سے سرمایہ کاری کی شرح 13.4 فیصد رہی، جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں کم ہے گزشتہ مالی سال میں یہ 14.3 فیصد تھی، اس کی ایک وجہ سیاسی ، اگر استحکام بھی رہا زراعت کی شرح ترقی 6.25 فیصد رہی، گندم چاول اور کاٹن کی پیداوار میں گروتھ 16.82 فیصد رہی، انڈسٹریل سیکٹر کی گروتھ 1.2 فیصد رہی، مینوفیکچرنگ سیکٹر کی شرح گروتھ 2.42 فیصد رہی جبکہ تعمیرات سیکٹر کی شرح گروتھ 5.8 فیصد رہی، سروسز سیکٹر جی ڈی پی کا 57 فیصد ہے، گزرتے ہوئے مالی سال میں اس سیکٹر کی شرح 1.21 فیصد رہی، اس سال ملک میں کاٹن کی 10.22 ملین بیلز پیداوار ہوئی، چاول کی پیداوار 9.87 ملین ٹن ر ہی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 34.8 فیصد زائد ہیں، گندم کی پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے میں 11.6 فیصد زائد رہی، ملک میں اس سال 31.44 ملین ٹن گندم پیدا ہوئی، ملک میں گنے اور مکئی کی پیداوار میں کمی آئی۔ گنے کی پیداوار میں 0.4 فیصد کی کمی ہوئی اور جبکہ مکئی کی پیداوار میں 10.4 فیصد کا تنزل دیکھنے میں آیا، دیگر فصلوں کی شرح گروتھ 0.90 فیصد رہی، زرعی سیکٹر میں کاٹن کا حصہ 1.34 فیصد ہے، جنگلات کی شرح ترقی 3.5 پرسنٹ رہی، فشنگ کی شرح ترقی 0.8 فیصد رہی، ملک کے اندر زرعی قرضوں میں 33 فیصد، کھاد کی پیداوار 3957 ہزار ٹن رہی، ملک میں مینوفیکچرنگ کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا تاہم یہ اپنی صلاحیت سے کمتر درجہ پر ہی، اس کی وجہ ان پٹ کاسٹ میں اضافہ ہونا، حکومت کی طرف سے کم اخراجات، ٹیکسٹائل سیکٹر میں مشکلات، افراط زر کی بلند شرح، اس کی وجہ بنی۔ لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں 0.1 فیصد کی کمی آئی، اور آلات کے شعبہ میں 61.5 فیصد کی گروتھ دیکھنے میں آئی۔ سٹیٹ بینک کی شرح سود تسلسل سے سات پالیسی فیصلوں میں 22 فیصد رہی، بینکوں کے نیٹ ڈومیسٹک اثاثوں میں 1686 ارب روپے کا اضافہ ہوا، مالی سال میں پرائیویٹ سیکٹر کے لیے کریڈٹ 188 ارب روپے کی کمی آئی۔ پاکستان کے سٹاک مارکیٹ انڈیکس میں 82.8 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا، مئی کے آخر تک پاکستان سٹاک ایکسچینج کا انڈیکس 75 ہزار 878 پوائنٹ رہا، 2023 میں افراط زر فیصد تھا جو اس سال مئی میں کم ہو کر 11 فیصد ہو گیا، شہری علاقوں میں خوراک کا افراط زر جولائی سے مئی تک کے عرصے میں 24.2 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 94.8 فیصد کی کمی آئی۔ ملک کی ترسیلات زر میں جولائی سے اپریل تک کے عرصے میں 3.5 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا، اس عرصے میں 23 ارب ڈالر کی ترسیلات آئی۔ برامدات میں 25.7 پرسنٹ، درآمدات میں 43.4 فیصد کا اضافہ ہوا۔ ملکی قرضوں کا حجم 67ہزار 525 ارب روپے ہو گیا ہے، اندرونی قرضوں کا حجم 43432 ارب روپے جبکہ غیر ملکی قرضوں کا حجم 24093 ارب روپے ہو گیا جو ڈالر میں 86.7 بلین ڈالر بنتے ہیں۔ جولائی سے مارچ تک کے عرصے میں سود کی ادائیگی میں 55 ہزار 18 ارب روپے صرف ہوئے ہیں، اندرونی قرضوں کی سود کی ادائیگی میں 4807 ارب روپے اور غیر ملکی قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لیے 710 ارب روپے صرف ہوئے ہے، حکومت میں اس عرصے میں 1.5 ٹریلین روپے کے مساوی سکوک بانڈ بھی جاری کئے ۔ ملک کی آبادی 241.5 ملین افراد ہے، جس میں گروتھ کی شرح 2.5 فیصد ہے، شہری آبادی 93.75 ملین، اور دیہی آبادی 147.75 ملین افراد ہے، پنجاب کی آبادی 127.68 ملین، سندھ کی آبادی 55.69 ملین، بلوچستان کی آبادی 14.89 ملین، اور کے پی کے کی آبادی 35.50 ملین ہے، اسلام آباد کی آبادی 2.3 ملین ہے۔ ملک کے اندر پاکستان ریلوے کا نیٹ ورک 446 ریلوے انجنوں، سات 791 کلومیٹر کی پٹڑی پر مشتمل ہے، ریلوے کا ریونیو 49.5 بلین روپے رہا، پی آئی اے کے ریونیو میں 27.9 فیصد کا اضافہ ہوا، جو 238 ارب روپے رہا، جبکہ اخراجات 235.5 ارب روپے رہے، پی آئی اے کو 58 ارب روپے کا نقصان ہوا، قاسم اتھارٹی 31.5 ملین ٹن کا کارگو ہینڈل کیا ملک میں این ایچ اے نیٹ ورک کی لمبائی 14480 کلومیٹر ہے، ریلوے پر 22.5 ملین مسافروں نے سفر کیا، ملک میں پاکستان پوسٹ کے نیٹ ورک کی تعداد 10408 ہے، پی بی سی براڈ کاسٹنگ کے نیٹ ورک کی تعداد 80 یونٹ ہے پاکستان کا ہر شہری 2 لاکھ 80 ہزار کا مقروض ہے۔ علاوہ ازیں اقتصادی سروے 2023-24 کے مطابق رواں مالی سال مجموعی طور پر 3879 ارب 20 کروڑ روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔ جس کے مطابق انکم ٹیکس کی مد میں 476 ارب 96 کروڑ روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی۔ سیلز ٹیکس کی مد میں 2858 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ آئی این پی) وفاقی حکومت کی جانب سے 18 ہزار ارب روپے کے لگ بھگ حجم پر مشتمل وفاقی بجٹ آج پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 سے15 فیصد تک اضافہ متوقع ہے جبکہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 12.9 ٹریلین روپے مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق بجٹ میں سود اور قرضوں کی ادائیگیوں کا تخمینہ 9.5 ٹریلین روپے لگایا گیا ہے۔ توانائی کے شعبے میں سبسڈیز کیلئے 800 ارب روپے مختص کیے جانے اور وفاقی ٹیکس ریونیو 12.9 ٹریلین روپے کے لگ بھگ مقرر کئے جانے کا امکان ہے جبکہ نان ٹیکس ریونیو کا ابتدائی تخمینہ 2100 ارب روپے لگایا گیا ہے اور پیٹرولیم لیوی کی مد میں 1050 ارب روپے سے زائد وصول کرنے کا ہدف متوقع ہے۔ خبر یہ بھی ہے کہ اگلے وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2024-25 میں سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کیلئے عمر کی حد بڑھا کر62 سال کرنے اور قومی خزانے پر پنشن بل کا بوجھ کم کرنے کیلئے جامع پنشن اصلاحات متعارف کروانے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔ پنشن اصلاحات کے تحت نئے بھرتی ہونے والے ملازمین کیلئے بھارت کی طرز پر رضاکارانہ کنٹری بیوٹری پنشن سسٹم متعارف کروانے، ریٹائر ہونے والے ملازمین کو تاحیات کی بجائے 20 سال تک پنشن دینے، ملازمین کی فیملی پنشن کی مدت 10 تا 15 سال اور بیٹی کی پنشن ختم کرنے اور کموٹیشن کم کیے جانے کا بھی امکان ہے۔ دوسری جانب آئندہ مالی سال 2024-25 کے وفاقی بجٹ میں دوہزار ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل کرنے کے لیے پٹرولیم مصنوعات پر 5 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے،جی ایس ٹی کی معیاری شرح میں ایک فیصد اضافہ اور غیر ضروری ٹیکس چھوٹ ختم کرنے سمیت دیگر نئے ٹیکسز عائد کیے جانے کا امکان ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق نئے مالی سال کے بجٹ میں وفاق اور صوبوں کے ترقیاتی بجٹ میں 1000 ارب روپے کے اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق آئندہ مالی سال معاشی شرح نمو کا ہدف 3.6 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ زرعی شعبے کی ترقی کا ہدف 2 فیصد مقرر کیا گیا ہے جبکہ صنعتی شعبے کی ترقی کا ہدف 4.4 فیصد اور بڑی صنعتوں کی شرح نمو کا ہدف 3.5 فیصد رکھا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق خدمات کے شعبے کی ترقی کا ہدف 4.1 فیصد اور جی ڈی پی میں مجموعی سرمایہ کاری کا ہدف 14.2 فیصد مقرر کیا گیا ہے، آئندہ مالی سال افراط زر کا اوسط ہدف 12 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ بجٹ دستاویز کے مطابق نئے مالی سال کے لیے وفاق اور صوبے ملکر ترقیاتی منصوبوں پر 3792 ارب روپے خرچ کریں گے جو کہ رواں مالی سال کے مقابلے میں 1012 ارب روپے زیادہ ہے۔ وفاقی پی ایس ڈی پی 550 ارب اضافے کے ساتھ 1500 ارب روپے جب کہ چاروں صوبوں کا سالانہ ترقیاتی پلان 462 ارب روپے اضافے سے 2095 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ دستاویزات کے مطابق صوبہ سندھ ترقیاتی منصوبوں پر سب سے زیادہ 764 ارب روپے خرچ کرے گا، پنجاب نے 700 ارب روپے، خیبر پی کے نے 351 ارب جب کہ بلوچستان نے 281 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مختص کیا ہے۔