مودی کو شہباز شریف کا یک سطری اور نواز شریف کا معنی خیز پیغام
نریندر مودی کے بھارتی وزیر اعظم کا تیسری بار منصب سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم پاکستان نے انہیں مبارک باد کا جو یک سطری پیغام بھیجا وہ قابل فہم ہے۔ روایتی سفارت کاری کی رسم ہے۔ عجب بات یہ ہوتی اگر مبارک دینے کے لئے وہ بھارتی ہم منصب کو ٹیلی فون کرتے اور دونوں کے مابین ہوئی گفتگو پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کی ایک سوچی سمجھی کاوش محسوس ہوتی۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے یک سطری مبارک بھجوانے کیلئے ’’ایکس (X)‘‘ کا انتخاب کیا۔ دو سال قبل تک سوشل میڈیا کا یہ پلیٹ فارم ٹویٹر کہلاتا تھا۔ اسے بنیادی طورپر تفریح طبع کے لئے نہیں بلکہ ’’خبروں‘‘ کی سرعت سے ترسیل کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ’’خبر‘‘ کی بات چلی ہے تو دیانت داری سے یہ اعتراف بھی کرنا ہوگا کہ مذکورہ پلیٹ فارم کو نہایت بے دردی سے بے شمار افراد نے فیک نیوز پھیلانے کے لئے بھی استعمال کیا ہے۔ امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ نے 2016ء کا انتخاب جیتنے کے لئے ٹویٹر کے ذریعے اشتعال انگیز پیغامات پھیلائے۔ اپنی مخالف ہیلری کلنٹن کے خلاف بے ہودہ الزامات لگاتا رہا۔ اپنے مخالفوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لئے اس نے جو انداز ولہجہ اختیار کیا اس نے بالآخر ٹویٹر انتظامیہ کو یہ پلیٹ فارم اس کیلئے بین کرنے کو مجبور کردیا۔ اپنی بندش سے مشتعل ہوکر سرمایہ کار دوستوں کی مدد سے ٹرمپ نے ٹویٹر جیسا ایک اور پلیٹ فارم متعارف کروایا۔ ’’مولوی مدن‘‘ والی بات مگر بن نہ پائی۔
ٹویٹر کی بجائے اب ’’ایکس‘‘ کہلاتے پلیٹ فارم سے ان دنوں ہماری سرکار اْکتائی ہوئی ہے۔ مصر ہے کہ مذکورہ پلیٹ فارم ایسے اوباش لونڈوں نے ہائی جیک کرلیا ہے جو فیک نیوز اور نفرت بھڑکاتے مواد کے ذریعے پاکستان میں انتشار وخلفشار پھیلانا چاہ رہے ہیں۔ سرکار بہت محنت کے بعد ’’تخریبی‘‘ اکائونٹس کی نشاندہی کرنے کے بعد ایکس انتظامیہ سے رجوع کرکے انہیں بند کرنے کا مطالبہ کرتی ہے تو وہ تعاون کو آمادہ نہیں ہوتی۔ ایکس چلانے والوں کے عدم تعاون نے بالآخر سرکار کو اس پلیٹ فارم کی پاکستان میں رسائی کو محدود سے محدود تر کرنے کو اْکسایا ہے۔ مجھ جیسے صارف بھی جو اپنی ذات سے منسوب جھوٹے پیغامات سے جند چھڑانے کے لئے ایکس کو سالانہ فیس ادا کرنے کے بعد اس سے بلیو ٹک حاصل کرتے ہیں دن کے 24گھنٹوں میں شاذہی اس پلیٹ فارم تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ عید کے چاند کی طرح ایکس کا پلیٹ فارم ہمارے فون پر اچانک محض کچھ دیر کے لئے نمودار ہوتا ہے۔
ہمارے حکمران مگر ہم عامیوں جیسے نہیں۔ انہیں خبر ہے کہ وہ جو پیغام ’’ایکس‘‘ کے ذریعے لوگوں کی روبرو لانا چاہیں گے منٹوں میں لاکھوں افراد تک پہنچ جائے گا۔ اسی باعث ان کے چلائے ٹویٹر اکائونٹ پاکستان میں ایکس کی بندش کے باوجود ہمہ وقت متحرک رہتے ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کا مستند ایکس اکائونٹ بھی ’’خاص‘‘ ہے۔ پیر کی سہ پہر پاکستانی وقت کے مطابق چار بجے کے قریب انہوں نے بھارتی وزیر اعظم کو مبارک کا پیغام بھیجااور ترنت نریندر مودی کی جانب سے شکریہ ادا کرتا پیغام بھی ایکس ہی کے ذریعے موصول ہوگیا۔
پاکستانی وزیر اعظم کی بھارتی ہم منصب کو بھیجی یک سطری مبارکباد کو سفارت کاری کی رسم شمار کرتے ہوئے میں اس کالم میں زیر بحث ہی نہ لاتا۔ حیرانی کا سبب مگر وہ مبارکبادتھی جو پاکستان کے تیسری بار وزیر اعظم رہے نواز شریف نے نریندر مودی کو ایکس ہی کے ذریعے بھجوائی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کے برعکس ان کا لکھا پیغام نسبتاََ زیادہ حروف پر مشتمل ہی نہیں بلکہ چند اہم اور گہرے خیالات کا حامل بھی تھا۔ اپنے پیغام کے ذریعے نواز شریف نے کھلے دل کے ساتھ اس پہلو پر زوردیا کہ نریندر مودی کا تیسری بار بھارتی وزیر اعظم منتخب ہونا یہ پیغام اجاگر کرتا ہے کہ موصوف کو بھارتی عوام کا اعتماد حاصل ہے۔اس پہلو کو نمایاں کرنے کے بعد پاکستان کے تیسری بار وزیر اعظم رہے نواز شریف نے اس خواہش کا اظہارکیا کہ بھارتی عوام کے اعتماد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نریندر مودی کو جنوبی ایشیاء میں دیرپا امن کے قیام کی کاوشوں کا آغاز کرنا چاہیے تاکہ اس خطے کے دو ارب لوگ سکھ اور چین کی زندگی بسر کرسکیں۔ بھارتی وزیر اعظم نے جوابی پیغام میں نواز شریف کی خواہش کا سواگت کیا ہے۔ساتھ ہی مگر سفارت کارانہ چالاکی سے تاثر یہ بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے کہ بھارت نہیں بلکہ اس خطے کے دیگر ممالک جنوبی ایشیاء میں دیرپاامن قائم ہونے نہیں دے رہے۔
مزید لکھنے سے قبل وضاحت ضروری ہے کہ سفارتکاری کا طالب علم ہوتے ہوئے میں نے نریندر مودی کے لکھے پیغام کی توجیہہ رقم کی ہے۔ جو بیان کیا ہے وہ ان کے لکھے الفاظ نہیں۔ میری توجیہہ سے لیکن سفارتی زبان سمجھنے والوں کی اکثریت اتفاق کرے گی۔ اس وضاحت کے بعد سفارت کاری کا طالب علم ہوتے ہوئے یہ اصرار کرنے کو بھی مجبور محسوس کررہا ہوں کہ پاکستان مسلم لیگ (نون) کے صدر اور پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہے نواز شریف نے پیر کے روز ایکس کی بدولت نمایاں ہوا پیغام ’’اچانک‘‘ ہرگز نہیں لکھا ہے۔
بلاخوف تردید میں یہ لکھ سکتا ہوں کہ ’’بیک ڈور‘‘ کہلاتی سفارت کاری کے محاذ پر متحرک چند اہم کرداروں نے نواز شریف کو یقین دلایا ہوگا کہ بھارتی وزیراعظم ان کی جانب سے بھیجے مبارک بادی کے پیغام کا سواگت کرے گا۔ ایسی یقین دہائی کے بغیر نوازشریف کو پیر کی سہ پہر والا پیغام ایکس پلیٹ فارم کے ذریعے ’’مشتہر‘‘ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مختلف واسطوں سے بھارتی وزیر اعظم کو مبارکباد پبلک کئے بغیر بھی بھجوائی جاسکتی تھی۔ عملی صحافت سے عرصہ ہوا ریٹائر ہوچکا ہوں۔ جوانی کے دنوں والی توانائی میسرہوتی تو پیر کی سہ پہر سے دیوانوں کی طرح یہ جاننے کے لئے خبروں کے حصول کے ہر ذریعہ اور واسطہ کے در پر یہ سمجھنے کیلئے جاتا کہ نواز شریف نے پیر کی سہ پہر بھارتی وزیر اعظم کو عالمی دنیا کا ’’چوک‘‘ کہلاتے ایکس نامی پلیٹ فارم کے ذریعے مبارک باد کیوں بھجوائی ہے۔’’کچھ‘‘ نہیں یقینا ’’بہت کچھ‘‘ ہے جس کی پاکستان اور بھارت کے حوالے سے تیاری ہورہی ہے۔کاش ہمارے ہاں صحافت نام کی شے باقی رہ گئی ہوتی اور رپورٹر کہلاتی مخلوق آنے والے دنوں کا اندازہ لگانے کے لئے خجل خوار ہورہی ہوتی۔