بجٹ کے موقع پر پیپلز پارٹی کے بے جا تحفظات
بجٹ، آئی ایم ایف اور چین سے معاہدوں پر لاعلم ہیں۔ یہی رویہ رہا تو عوام کے پاس جائیں گے۔ پیپلز پارٹی کے حکومتی امور پر تحفظات۔ حکومت ہماری سپورٹ برقرار رکھنا چاہتی ہے تو تحفظات دور کرے۔ بلاول بھٹو۔
آج اتحادی جماعتیں اقتدار میں ہیں۔ ان میں مسلم لیگ ن سب سے بڑی اور پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر بڑی جماعت ہے دونوں میں سے کوئی بھی پارٹی تن تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی اسی لیے دونوں کو حکومتی اتحاد بنانا پڑا اور یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ 2022ء میں پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران پیپلز پارٹی اس اتحاد کا حصہ تھی وہ تجربہ کامیاب رہا تو2024ء کے انتخابات کے بعد بھی دونوں پارٹیاں مخلوط حکومت بنانے پر رضامند ہو گئیں۔اتحادیوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ ہمیشہ برقرار رہنا چاہیے۔ اتحادیوں کے ایک دوسرے سے گلے شکوے ضرور ہو سکتے ہیں لیکن اس کا مطلب اس حدتک چلے جانا نہیں کہ حکومت کے گرنے تک کی باتیں کی جانے لگیں۔بلاول بھٹو زرداری کی زیر صدارت ہونے والے پیپلز پارٹی کے اجلاس کے بعد شازیہ مری کی طرف سے بریفنگ دی گئی جس میں کچھ ارکان اسمبلی کے تحفظات رکھے گئے جن کو اپنے اپنے حلقوں میں مرکزی حکومت کی طرف سے تعاون نہ کرنے کا شکوہ ہے۔شازیہ مری کا کہنا تھا وفاقی حکومت نے جو رویہ ہمارے اراکین کے ساتھ اختیار کیا ہوا ہے اس سے ہمارے اراکین کو دشواریاں پیش ا?رہی ہیں کیونکہ اراکین عوام کو جوابدہ ہیں۔ ہمیں اپنے عوام کو جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔ جب کسان کو کھاد میں ریلیف نہ ملے، ٹریکٹر پر ریلیف نہ ملے اور بجلی کے مسائل بھی کوئی نہ سنے تو یہ سارے تحفظات درست ہیں۔پیپلز پارٹی کے دراصل تحفظات تو یہ ہیں جو حکومت تک پہنچانا ان کا حق اور حکومت کی طرف سے ان پر توجہ دینا اس کی ذمہ داری ہے مگر بجٹ سے پہلے اس طرح کی باتیں کرنا یہ نامناسب ہے۔ یہ تو سیدھا سیدھا بلیک میلنگ کے زمرے میں بھی آجاتا ہے۔پیپلز پارٹی حکومتی ثمرات لیتی ہے تو حکومتی پالیسیوں کی بنیاد پر عوامی ردعمل بھی مشترکہ طور پر برداشت کرے۔ سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ ایک دوسرے کی سپورٹ سے ہی حکومت کا وجود قائم ہے۔ بجٹ منظور کرانا حکومتی اتحادیوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔