اقتصادی سروے میں بجٹ کی دل خوش کن تصویر اور خدشات و امکانات
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے مالی سال 23-2024ء کا اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ہمارے پاس کوئی پلان بی نہیں تھا،وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ(آئی ایم ایف)کے ساتھ اسٹینڈ بائی معاہدہ کیا تھا، اگر معاہدہ نہ ہوتا تو ہم اہداف کی بات نہ کررہے ہوتے، ہم بطور ملک بہت مختلف صورتحال سے دوچار ہوتے،رواں مالی سال جی ڈی پی گروتھ میں بڑی صنعتوں کی گروتھ اچھی نہ رہی، زراعت نے اچھا کردار ادا کیا ہے.
اقتصادی سروے میں وزیر خزانہ کی طرف سے پی ڈی ایم حکومت کو(جس کے سربراہ بھی آج کے وزیراعظم میاں شہباز شریف تھے) شروع میں درپیش مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس وقت حالات کتنے نا مساعد تھے جس سے پاکستان بہرحال باہر نکل آیا اور ڈیفالٹ کے خطرے سے بچ گیا۔نگران دور کی پالیسیوں کی بھی اقتصادی سروے میں وزیر خزانہ نے تحسین کی ہے جو معیشت کو چلانے میں ممد و معاون ثابت ہوئیں۔اقتصادی سروے میں آج کی معاشی صورتحال کی حوصلہ افزا منظر کشی کی گئی ہے۔وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ لائیو سٹاک بہتر رہی،رواں مالی سال ریونیو کلیکشن میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 50 کروڑ ڈالر تک محدود رکھنے میں کامیاب ہوئے،ٹیکس وصولی میں 30فیصد کی نمو دیکھی گئی ہے جس کی اس سے قبل مثال نہیں ملتی،روپے کی قدر میں چند ماہ میں استحکام دیکھا گیا ہے وجہ نگران حکومت کے دور میں اہم انتظامی اصلاحات کی گئیں، ہنڈی حوالہ اور اسمگلنگ کو روکا گیا، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو چیک کیا گیا، ہم ڈیفالٹ ہونے والے تھے مگر اس وقت ہمارے پاس 2ماہ کی درآمدات کے پیسے موجود ہیں جس کی مالیت 9ارب ڈالر سے زائد بنتی ہے، ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کا معیار بہت شاندار ہے جس کی بدولت ہم اگلے مالی سال کا بہت اچھے اور مضبوط نکتے پر آغاز کریں گے،مہنگائی کی شرح 48 فیصد سے کم ہوکر 11فیصد تک آگئی ہے، جلد سنگل ڈیجٹ پر بھی آجائیگی۔
وزیر خزانہ کہتے ہیں کرنٹ خسارہ کم ہوا ہے ریونیو کلیکشن میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے ٹیکس وصولی مثالی رہی ہے زر مبادلہ کے ذخائر کا معیار شاندار رہا مہنگائی کی شرح 48 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد تک آگئی۔اس میں مزید کمی کا بھی یقین ظاہر کیا جا رہا ہے۔وزیر خزانہ کے اقتصادی سروے سے تو لگتا ہے کہ ہم ترقی اور خوشحالی کے دروازے پر کھڑے ہیں اور یہ دروازہ اگلے مالی 2024ء ،2025ء میں کھل جائے گا۔اقتصادی سروے اعداد و شمار کا گورکھ دھندا لگتا ہے۔
وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ ہم صرف اسلام آباد ائیرپورٹ کی نجکاری تک نہیں رکیں گے، سرکاری اداروں میں ایک ہزار ارب روپے کا خسارہ برداشت نہیں کر سکتے، اسٹیل ملز کی بحالی کا کوئی امکان نہیں، صرف اسکریپ میں بکے گی، اسٹیل ملز میں لوگ بیٹھے ہیں۔پی آئی اے اور سٹیل ملزکی نجکاری کی ایک عرصے سے بات ہو رہی ہے۔ایسے ادارے واقعی سفید ہاتھی صرف اور صرف انتظامیہ کی نا اہلی کی وجہ سے بن چکے ہیں۔ ایسے ہی نجی شعبہ میں چلنے والے ادارے منافع بخش ہیں لیکن سرکاری ادارے اپنے اخراجات بھی نہیں نکال سکتے۔ ان کی نجکاری کرنی ہے تو پھر اس میں تاخیر کیسی ؟ مگر ان کو سکریپ کے بھاؤ تو نہ بیچیں۔
محمد اورنگ زیب کے مطابق اب ہمارے ہاتھ بندھ چکے ہیں،کم اہمیت کے منصوبوں کو شامل نہیں کرسکتے۔ظاہر ہے ہاتھ آئی ایم ایف کی طرف سے باندھے گئے ہیں تو آئی ایم ایف سے نجات کی کوشش کریں اور خود انحصاری کی طرف آئیں۔
اقتصادی سروے یا بجٹ میں حکومت کی طرف سے عوام کو ریلیف دینے اور مہنگائی میں کمی کے جتنے بھی دعوے کیے جائیں مگر عملی صورتحال یہ ہے کہ عوام کی مہنگائی بیروزگاری کی وجہ سے حالت دن بدن پتلی ہوتی چلی جا رہی ہے۔گزشتہ چند سال میں کتنے مزید لوگ غربت کی لکیر کے نیچے چلے گئے۔لوئر مڈل اور مڈل کلاس طبقے کی قوت خرید کم ہو چکی ہے۔اپر مڈل کلاس بھی بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔کچھ ماہرین کی طرف سے تو مڈل کلاس کے خاتمے کا بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔اس کے بعد غریب اور اپر کلاس کے دو ہی طبقات رہ جائیں گے۔
حکومتیں ہمیشہ عام آدمی سے قربانی کا تقاضا کرتی رہی ہیں اور عوام نے قربانی دی بھی ہے مگر اب ان میں مزید قربانی دینے کی سکت نہیں رہی۔یونائٹڈ نیشن ڈویلپمنٹ پروگرام کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اشرافیہ کی مراعات کی مد میں سالانہ 17.4 ارب ڈالر صرف ہوتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس پر قدغن لگائی جائے۔حکومتی اخراجات میں کمی کی جائے بجلی چوری روکنے کے لیے کسی بھی حد تک جایا جائے۔ آئی پی پیز سے بھی جان چھڑانے کی ضرورت ہے۔مگر وزیر خزانہ برائے مملکت علی پرویزملک کی طرف سے وفاقی وزیر خزانہ کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران ایک عجیب منطق پیش کی گئی۔انکا کہنا تھا کہ کیپسٹی چارجز پاکستان کی ساورن کمٹمنٹس ہیں۔ ان کا احترام کرنا ہوگا، کیپسٹی چارجز کا اڑدہا بجلی کا استعمال بڑھا کر قابو کیا جاسکتا ہے، بجلی کا استعمال بڑھے گا تو کیپسٹی چارجز کا بوجھ بھی کم ہوگا۔ آئی پی پییز صارفین کے لیے خوف کی علامت بن چکی ہیں۔ان سے جتنا جلد نجات حاصل کر لی جائے عوام کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا مگر وزیر مملکت درس دے رہے ہیں کہ بجلی کا استعمال بڑھا دیں ،بل زیادہ آئیں! مگر کپیسٹی چارجز تو کم ہو جائیں گے۔
ملکی معیشت کو سنبھالنے کیلئے اب حکمران اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقات کو قربانی دینی چاہیئے۔ وزیر خزانہ کہتے ہیں کسی کو سفید ہاتھی نہیں بننے دیں گے۔نہ صرف کسی کو سفید ہاتھی نہ بننے دیں بلکہ جو پہلے سے سفید ہاتھی موجود ہیں ان کو بھی عوام میں شامل کریں۔جو بھی ٹیکس نیٹ میں آتا ہے اس سے ٹیکس کی وصولی یقینی بنائی جائے۔ عام آدمی کا قربانیاں دیتے دیتے انجر پنجر ہل چکا۔ عوامی غیظ و غضب کو دعوت دینے سے بہر صورت گریز کیا جائے۔ ملکی معیشت کو آئی ایم ایف کے چنگل سے نکالنے کی کوشش کریں۔