موٹروے پولیس کا چالان سسٹم۔ ایک گورکھ دھندہ
بھارت میں1960ء کی دہائی سے اوور لوڈنگ پر سخت ممانعت ہے۔ ہر مال بردار گاڑی کے دروازے پر خالی گاڑی کا وزن‘ وزن لے جانے کی قانونی اجازت اور مکمل وزن لکھا ہوتا ہے۔ ہر شہر کے خارجی و داخلی راستوں پر وزن کے کانٹے نصب کرکے ہر کمرشل گاڑی کا وزن کیا جاتا ہے اور جس گاڑی میں زیادہ وزن پایا جائے تو اس گاڑی سے اضافی وزن اتار کر بھاری جرمانہ کیا جاتا ہے اور زیادہ وزن لوڈ کرنے والے کو طلب کرکے سخت کارروائی اور جرمانے کئے جاتے ہیں تاکہ کمرشل گاڑیاں لوڈ کرنیوالی انڈسٹریز‘ ٹرمینلز وغیرہ گاڑی میں اضافی وزن لوڈ ہی نہ کریں تاکہ وہ انڈسٹری اور ٹرمینلز بھاری سرکاری جرمانوں اور قانونی کارروائی سے محفوظ رہ سکیں۔ چند سال قبل تک بھارت پاکستان سے سیمنٹ خریدتا تھا کیونکہ بھارت کو سب سے سستا سیمنٹ پاکستان سے ہی ملتا تھا لیکن ہماری مال بردار گاڑیاں ڈبل وزن لے جاتی تھیں جس سے بھارت کی سڑکوں اور پلوں کی تعمیر پر بھاری رقوم خرچ ہوئیں تو انہوں نے پاکستان سے سستا ترین پڑنے والا سیمنٹ خریدنا ترک کردیا اور اوور لوڈنگ کی اجازت نہیں دی۔اب یہی پاکستانی سیمنٹ پہلے دبئی جارہا ہے اور وہاں سے بھارت خرید کر لے جارہا ہے۔ بھارت نے ہم سے 60سال پہلے سے ہی نیشنل ہائی وے قوانین پر سختی سے عملدرآمد شروع کر رکھا ہے۔ ہمارے ہاں حکومتوں کی تبدیلی سے قومی بنیادی پالیسیاں ہی تبدیل ہوجاتی ہیں۔ اس طرح سے تو ملک نہیں چلائے جاتے جس طرح یہاں چلتا آرہا ہے۔
پاکستان میں نیشنل ہائی وے اینڈ موٹرویز کا قانون کب بنا تھا؟ اس پر فوری عملدرآمد شروع کیوں نہیں کرایا گیا؟ حالانکہ اس وقت اتنی مہنگائی نہیں تھی اور اوورلوڈنگ پر پابندی کرائی جاسکتی تھی۔
اوورلوڈنگ پر پابندی ہونی چاہئے لیکن اس پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ اب صوبائی اور وفاقی حکومتیں ٹرانسپورٹرز‘ کیرج کنٹریکٹرز‘ کاروباری افراد اور صنعت کاروں کو بلاکر بات چیت کے ذریعے ایسا فارمولا نکالیں جس سے اوور لوڈنگ کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ بہتر تو یہی ہوگا کہ گڈز اور آئل ٹینکرز کی 22وہیلر گاڑیوں کو گاڑی سمیت ٹوٹل 75ٹن وزن‘ 18وہیلر کی گڈز اور آئل ٹینکرز گاڑیوں کو گاڑی سمیت 65ٹن جبکہ 10وہیلر گڈز اور آئل ٹینکرز گاڑیوں کو گاڑی سمیت 45ٹن میں پاس کیا جائے اور اس پر معاہدہ کرکے سخت ترین عملدرآمد کا آغاز کیا جائے۔ بے شک معاہدہ 5سال کے لئے ہو۔ اس کے بعد دوبارہ میٹنگ کرکے تمام اسٹیک ہولڈرز کو بلاکر پالیسی میں ترمیم کی جاسکتی ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے سے بننے والی پالیسی پر ہر صورت سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔ پھر کسی بھی صورت میں اس میں کسی کو کوئی رعایت نہیں ملنی چاہئے اور اوورلوڈ گاڑی کو کسی بھی صورت سفر کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے اور اضافی وزن کو ضبط کرکے گاڑی مالک اور مال کے مالک دونوں پر جرمانہ ہو۔ اس طرح معاہدے پر عملدرآمد کرا کے اضافی لوڈ پر سفر جاری رکھنا ناممکن بنایا جا سکتا ہے۔اس وقت تو نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے اوور لوڈنگ پر پابندی کو روکنا مقصد نہیں بنایا بلکہ اسے کاروبار بنایا ہواہے۔ موٹروے پر ہر کانٹے پر اوور لوڈ گاڑی سے 5000 روپے جرمانہ لیکر اسے اسی لوڈ کے ساتھ سفر جاری رکھنے کی اجازت ہے۔ یعنی گاڑی کراچی سے پشاور تک 50,000روپے کاٹنا جرمانہ ادا کرتے ہوئے اضافی وزن کے ساتھ اپنی منزل تک جاسکتی ہے۔ یہ کیا طریقہ ہے؟ یہ تو صرف کاروبار ہے۔ دنیا میں کہیں بھی اس طرح نہیں ہوتا۔ اضافی وزن کے ساتھ سفر جاری رکھنے کی اجازت کیسے دی جارہی ہے؟ اسی لئے پاکستان میں کسی بھی قانون پر عملدرآمد نہیں ہوتا بلکہ ہر قانون کو کمائی کا ذریعہ بنالیا جاتا ہے۔گاڑیوں نے 5000روپے جرمانہ دینا اپنا معمول بنالیا ہے۔ کیا نیشنل ہائی وے اور موٹروے پولیس انہیں جرمانہ وصول کرکے کراچی تا پشاور سفر کرنے کی اجازت دیتی رہے گی؟ سنجیدگی کے ساتھ اس بارے میں سوچ کر پالیسی بنائیں کہ سڑکیں اور پل بچانے ہیں یا صرف کمائی کرنی ہے۔ اس وقت تو موٹروے پولیس نے جرمانے کرکے کمائی لگارکھی ہے۔ گاڑیاں چھوٹی سڑکوں پر سفرکررہی ہیں جس سے آئے روز حادثات ہورہے ہیں۔
دنیا بھر میں نیشنل ہائی وے کے قوانین پر سختی سے عملدرآمد ہوتا ہے اور کوئی اوور لوڈنگ کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ وہاں پالیسیاں صرف اور صرف قومی مفاد میں بنائی جاتی ہیں اور قومی دولت خرچ کرکے بننے والی سڑکوں اور پلوں کی حفاظت اور حادثات میں کمی کے لئے سختی سے موٹروے اور ہائی وے قوانین پر عملدرآمدہر صورت یقینی بنایا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں وزارتوں پر براجمان لوگ ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کے لئے ہی پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں۔ نیشنل ہائی وے آرڈیننس 2000ء کے تحت اوور لوڈنگ پر مکمل پابندی کا قانون رائج ہے اور قانون کے مطابق فی ایکسل وزن طے کردیا گیا ہے جس پر عملدرآمد کرکے سڑکوں اور پلوں کی حفاظت اور حادثات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ حکومت کی جانب سے آئے روز پالیسی میں تبدیلی اور جرمانوں سے خزانے کو بھرنے کی پالیسی سے اصل ہدف حاصل نہیں ہورہا بلکہ سڑکیں اور پل اوورلودڈنگ کا شکار ہیں۔ عالمی طور پر رائج طریقہ کار اختیار کرنے سے ہی اوور لوڈنگ کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے۔
پاکستان میں بھی نیشنل ہائی وے آرڈیننس 2000ء کے تحت وزن کی فی ایکسل قانون کے مطابق مکمل پابندی کے لئے نیشنل ہائی وے اینڈ موٹروے پولیس بھرپور کوششیں کررہی ہے اور تمام موٹرویز اور ہائی ویز پر وزن کے کانٹے نصب کرکے آپریشنل کردیئے گئے تھے۔مہنگائی اور حکومتی پالیسیوں کے باعث 24کروڑ عوام معاشی طور پر شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ حکومت کی جانب سے انتہائی کنفیوز ماحول پیدا کرکے ٹرانسپورٹرز کو تباہ و برباد کردیا گیا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے جامع مشاورت کرکے دوٹوک فیصلے کرکے سختی سے ان کا نفاذ کیا جائے۔ یکطرفہ فیصلوں سے بھی معاملات درست نہیں ہوتے بلکہ ہیجانی کیفیت جنم لیتی ہے۔ اسی لئے مشاورت بہت ضروری ہے۔اس وقت موٹروے پولیس کا رویہ عام ٹریفک پولیس کی طرح کا ہوچکا ہے۔ اصول تو یہ ہے کہ اگر موٹروے پر گاڑی کا ایک چالان ہوگیا تو اگلے 24گھنٹے میں دوسرا چالان نہیں ہوسکتا لیکن ہر کچھ فاصلے پر گاڑی کو روک کر دوبارہ اور سہہ بارہ چالان در چالان کئے جاتے ہیں۔ چالان کو موٹروے پولیس نے حکومتی خزانہ بھرنے کا ذریعہ بنالیا ہے لیکن اصل ہدف کہ اوور لوڈنگ کا خاتمہ کیا جائے‘ وہ ثانوی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ میں نے ملتان سے لاہور موٹروے پر سفر کیا تو ہر 20میل پر موٹروے پولیس نے ایک ساتھ درجنوں گاڑیوں کو روک رکھا ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ آپ 2-3گاڑیوں کو روکیں‘ انہیں جرمانہ وغیرہ کرکے روانہ کریں اور پھر مزید گاڑیوں کو روکیں لیکن عجیب و غریب صورتحال نظر آتی ہے۔ اس سلسلے میں حکام بالا کو سڑک پر سفر کرکے خود معاملات کو مشاہدہ کرکے فیصلے کرنے چاہئیں۔کنفیوز پالیسی اور جرمانہ لیکر اوور لوڈ گاڑی کو سفر کی اجازت دیئے جانے سے قانون کو مذاق بنادیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں فوری قابل عمل متفقہ پالیسی کا اعلان کیا جائے تاکہ عام آدمی پر بوجھ بھی نہ پڑے اور صنعت کار‘ ٹرانسپورٹرز اور آئل ٹینکرز مالکان و کاروباری افراد بھی اتفاق رائے سے عملدرآمد پر راضی ہوں۔