ٹویٹ اور فوج کیخلاف بیانیہ
(گزشتہ سے پیوستہ )
ایک نظر ڈاکو منٹری کے متن پر ڈالتے ہیں جو عمران خان کے ٹویٹ میں جاری کی گئی۔
’’مقتدرہ نے ہمیشہ شیخ مجیب کو غدار بنا کر پیش کیا۔لیکن ملک توڑنے کے اصل ذمہ دار فوجی حکمران جنرل یحییٰ اور اس کے حواریوں کا کبھی ذکر نہیں تک نہیں کیا۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ جنرل یحییٰ اور شیخ مجیب الرحمن میں سے اصل غدار کون تھا؟
شیخ مجیب اکثریتی پاکستان کا منتخب نمائندہ تھا جنرل یحییٰ پاکستانیوں کے حقوق کا غاصب تھا۔
شیخ مجیب پاکستان ہی میں رہنے کا خواہش مند تھا.جنرل یحییٰ کی مشرقی پاکستان کو بچانے کی کوئی نیت نہ تھی شیخ مجیب نے جمہوری اصولوں کے عین مطابق اکثریتی جماعت کو اقتدار کی منتقلی کا مطالبہ کیا، جنرل یحییٰ کا کرسی بچانے کے لیے اقتدار کی منتقلی کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ شیخ مجیب کو بالآخر گرفتار کر لیا گیا۔ جنرل یحییٰ نے اپنے ہی بھائیوں پر بدترین کریک ڈاؤن اور خون ریزی کی۔شیخ مجیب کو سویلین ہوتے ہوئے ملٹری کورٹ سے سزا دلوائی گئی۔جنرل یحییٰ اس وقت بھی داد عیش دیتا رہاجبکہ مشرقی پاکستان ڈوبتا رہا۔حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں پاکستان کے دولخت ہونے کا ذمہ دار جرنیلوں کو قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بد نام زمانہ اپریشن سرچ لائٹ کا ذکر ہے جس کے مطابق اس وقت کی عسکری قیادت نے مشرقی پاکستان میں بغاوت کو روکنے کا بہانہ بنا کر ایسٹ بنگال رجمنٹ کے افسران،بزنس مین اینڈ انڈسٹریلسٹس اور ہندو اقلیت کا قتل کیا۔بہت بڑی تعداد میں بنگالی عورتوں کا ریپ کیا گیا اور سب کو اجتماعی قبروں میں دفن کیا گیا۔ یہ سلسلہ اپریشن کے آغاز سے جنگ کے اختتام تک جاری رہا۔جو عسکری قیادت اپنے ہی عوام سے لڑنے میں مصروف تھی وہ دشمن کا کیا مقابلہ کرتی۔محض دو ہفتے میں جنرل نیازی نے بھارتی جنرل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔شکست کی ذلت آمیز دستاویز پر دستخط کیے جو آج تک پاکستان پر سیاہ دھبہ ہے۔کمیشن رپورٹ میں پاک فوج کی سینیئر قیادت کی ناقص حکمت عملی اور غلط فیصلوں کی وجہ سے سقوط ڈھاکہ کے ذمہ داران کے کورٹ مارشل کا بھی مطالبہ کیا گیا جبکہ مقتدرہ نے ہمیشہ شیخ مجیب کو غدار ثابت کرنے کی کوشش کی۔آخر اس کا قصور کیا تھا؟کیا پاکستان کے عوام نے اسے سب سے زیادہ نشستوں پر کامیاب نہیں کرایا تھا؟کیا جمہوری اصولوں کے مطابق اقتدار عوامی لیگ کو منتقل نہیں کیا جانا چاہیے تھا؟۔اگر ان باتوں کا جواب ہاں میں ہے تو پھر ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے کہ جس شیخ مجیب کو غدار ثابت کیا گیا ہے کیا واقعی وہ اس لقب کا حقدار تھا۔یا اس کا حقدار جنرل یحییٰ تھا؟۔ آج پاکستان میں سقوط ڈھاکہ کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے جو 1971ء کے ملک توڑنے کے ذہن کی عکاس ہے‘‘۔
یہ تھا ڈاکومنٹری کا متن جو عمران خان کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے اس پیغام کے ساتھ جاری کی گئی کہ قوم اس ڈاکومنٹری کو دیکھے کہ مشرقی پاکستان توڑنے کا ذمہ دار یحیی خان تھا یا شیخ مجیب الرحمن تھا۔آرمی چیف کا نام لئے بغیر ان کو تضحیک آمیز لہجے میں مخاطب کرتے ہوئے انہیں سیاست میں صریحاً مداخلت کا موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ اس سے افواج کے اندر بے چینی جنم لے سکتی ہے۔آرمی چیف کا نام نہیں لیا گیا مگر ان کی تصویر لگا دی گئی ہے۔ یہ سارا کچھ عمران خان نے اپنی زبان سے نہیں کہا مگر یہ ان کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر اب بھی موجود ہے۔
ایک ایسے شخص سے یہ کرنے کی امید نہیں کی جا سکتی جو پاکستان کا وزیراعظم رہا ہو اور آئندہ بھی اس کے وزیراعظم بننے کا امکان موجود ہو۔
جاوید ہاشمی جنہوں نے عمران خان کا ساتھ دھرنے کے عروج پر چھوڑا وہ اب خان صاحب کی حمایت میں سرگرم ہیں۔ وہ کہتے ہیں ڈاکو منٹری میں جو کچھ کہا گیا میں اسے قبول کرتا ہوں۔ مولانا فضل الرحمن ، محمود اچکزئی، اختر مینگل،ایمل ولی خان کی طرح جاوید ہاشمی بھی فوج پر غصہ نکالتے رہتے ہیں۔عمران اور مذکورہ بالا دیگران ہی نہیں اور بھی بڑے سیاستدان فوج پر منفی تبصرے کرتے رہے ہیں۔ الطاف حسین نے تو بھارت سے فوج کے خلاف مدد بھی مانگ لی تھی۔ میاں نواز شریف جلسہ عام میں جرنیلوں کو مخاطب کر کے حساب چکانے کی بات کرتے رہے ہیں۔ خواجہ آصف کی طرح حدیں کسی سیاستدان نے عبور نہیں کیں۔ خواجہ صاحب دوسری تیسری مرتبہ وزیر دفاع لگا دیئے گئے۔ مسلح افواج کے سپریم کمانڈر نے فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی تھی۔ماضی میں افواج کے خلاف نفرت پھیلانے والے کردار محفوظ رہے۔ ان کو آرمی ایکٹ اور سیکرٹ ایکٹ کے دائرے میں لایا جاتا تو افواج کے خلاف بیانیے کی بیخ کنی ہو چکی ہوتی مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اگر ماضی میں کسی کو نہیں پوچھا گیا تو حال اور مستقبل میں اس سلسلے کی حوصلہ فزائی کی جائے۔ اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ جیل میں بیٹھ کر بھی عمران خان اپنا ٹویٹر چلا رہے ہیں۔ یہ ٹویٹ انہوں نے خود کیا یا ان کی مرضی سے کیا گیا اور ڈاکومنٹری لگائی گئی ہے توخان صاحب سے حساب لیا جانا چاہیے۔ جرم جرم ہوتا ہے۔ مجرم کے خلاف کارروائی میں تاخیر سے جرم کی شدت کم نہیں ہو جاتی۔ بریگیڈیئر ریٹائرڈ رضوان کو ان کی سروس کے دوران غداری کی سزا(سزائے موت )ریٹائرمنٹ کے بعد جرم سامنے آنے اور ثابت ہونے پر دی گئی تھی۔جس نے جب بھی فوج کے خلاف نفرت انگیز زبان استعمال کی وہ احتساب کا مستوجب ہے۔