• news

سینٹ اجلاس: سانس پر ٹیکس کی نوبت آ گئی، اپوزیشن ارکان: آپ کی وجہ سے  آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، حکومتی رکن

 اسلام آباد (خبر نگار)  حکومت کی جانب سے بجٹ میں ٹیکسز کی بھرمار پر سینٹ اجلاس میں سینیٹرز نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ اجلاس  چیئرمین سینٹ سید یوسف رضاگیلانی کی زیر صدارت ہوا۔ اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ وزیرخزانہ کا اس حکومت میں آنے کا سب سے غلط فیصلہ تھا، موجودہ حکومت قانونی جواز سے عاری ہے،  تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس لگا دیے گئے، نچلے طبقے کے ملازمین کا جینا محال ہوگیا، اشرافیہ نے ہمیشہ غریب طبقے کا خون چوسا، ایسے سیکٹرز پر ٹیکس لگایا گیا جس سے ہماری اکانومی مزید نیچے جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سال میں مزید دو کروڑ افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے، ہمارے وقت میں 44.3کھرب کا قرضہ تھا، آج 67.5کھرب تک پہنچ گیا ہے،  مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اشرافیہ کے نمائندے ہیں، بجٹ میں کوئی اکنامک وژن نظر نہیں آ آیا، پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعتوں میں پاکستان کی سب سے بڑی جماعت ہے، اس بجٹ کو عوام کیلئے زہر قاتل سمجھتے ہیں، پاکستان کے عوام ایک طرف اور اشرافیہ دوسری طرف کھڑی ہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ اس وقت ملک کے تمام ادارے چل رہے ہیں،  کوئی بحران نہیں ہے، بحران صرف ان کی اپنی جماعت میں ہے، اکہتر برس میں جتنا قرضہ اس ملک نے لیا اتنا ہی آپ نے چار سالوں میں لیا ہے، ہم نے آئی ایم ایف کو بائے بائے کہہ دیا تھا آپ کی وجہ سے پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ ایف بی آر کے چیئرمین کو ہٹائیں۔ ایمل ولی خان  کہا  کہ حالیہ بجٹ میں اتنے زیادہ ٹیکس لگائے گئے ہیں، اب نوبت آگئی ہے کہ سانس لینے، موت پر اور شادی اور بچے پیدا کرنے پر بھی ٹیکس لگا دیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ تمام اسمبلیوں اور سینٹ کی ساری مراعات ختم کی جائیں تاکہ عکاسی ہو ہم قرض دار ہیں، ہمارے صدر، وزیر اعظم اور وزراء  کو بھی مراعات کی ضرورت نہیں۔ تاج حیدر نے کہا کہ بجٹ دستاویز میں صرف ناکام پالیسی کو اپنایا گیا ہے، افسوس ہے آج سمگلر ملک کی پالیسی بنا رہے ہیں، شرح سود نے ملک کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ نیشنل پارٹی کے سینیٹر جان محمد نے اظہار خیال کیا کہ اس بجٹ میں کوئی خوشحالی اور بحالی، عوام کو ریلیف دینے کا منصوبہ نہیں، زرعی شعبے کیلئے بجٹ میں کچھ نہیں رکھا گیا۔ سینیٹر دوست محمد خان نے کہا کہ یہ تباہی والا بجٹ ہے، ہر روز اس سے بدحالی آئے گی، یہ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے، وزیرخزانہ کو چاہیے تھا جاکر یہ بجٹ آئی ایم ایف کو پیش کرتے، فاٹا اور پاٹا پر ٹیکس لگایا جارہا ہے یہ ڈرون حملہ ہوگا۔ سینیٹر عون عباس نے  کہا کہ پیپلزپارٹی اس وقت منافقت کررہی ہے، فنانس کمیٹی کی سربراہی پیپلزپارٹی کے پاس ہے، بجٹ میں پیپلزپارٹی مکمل طور پر ساتھ ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ اس ایوان میں سب جھوٹ ہے اور کوئی وزیر یا حکومتی رکن موجود نہیں ہے، یہ ہمارے لیے لعنت کا مقام ہے کیونکہ ہم عوام کے پیسوں کو بے دریغ لوٹ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں سود کے خلاف قرآن میں اللہ کے حکم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں نے مقدس کتب کا مطالعہ نہیں کیا مگر یہ جانتا ہوں کہ سود سے اللہ نے روکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاق سود پر صوبوں کو پیسے دے رہا ہے، اسلامی تعلیمات میں سود تو اللہ سے جنگ ہے تو ہم کیوں اس کی لین دین کررہے ہیں، بحیثیت غیرمسلم مجھے شرم آتی ہے کہ ہم منافقت کررہے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر مولانا عبد الواسع نے کہا کہ ایک ہندو سینیٹر نے سود سے متعلق اللہ کا حکم پڑھ کر سنایا، یہ ہم سب کیلئے شرم کا مقام ہے اور ہمیں خود کو طمانچہ مارنا چاہیے۔ اس کے ساتھ انہوں نے اپنے منہ پر تھپڑ مار کر ندامت کا اظہار کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ  بجٹ میں عوام کیلئے کچھ نہیں بلکہ روزگار والوں کو بیروزگار کرنے کا منصوبہ ہے،  افغانستان میں امریکی ڈالر 65 روپے کا ہے، 40 سال جنگ میں رہنے کے باوجود افغانستان نے معیشت مضبوط کرلی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن